اور پھراس واقعہ کے 7سال بعد ایک اور جنگ ہوئی۔ ایک اورحملہ ہوا۔ شیر شاہ سوری کی بنائی ہوئی سڑک پر ملتان سے مظفرگڑھ جاتے ہوئے ایک دربار حضرت شیر شاہ کابھی ہے۔ یہاں تیل کے ڈپو ہیں۔ ان ڈپوﺅں میں اس حملے کے بعد آگ لگ گئی جو کئی روز تک بھڑکتی رہی۔ ملتان کے لوگ اپنی چھتوں سے اس دھوئیں کے بادل دیکھتے تھے جو آسمان کی جانب بلند ہوتے تھے لیکن اس دھوئیں میں پرانے شہر کے شعلوں اور دھوئیں کے ساتھ دم توڑتی ہوئی وہ چیخیں سنائی نہیں دے رہی تھیں جو ملتان پر انگریز کے قبضے کے دوران گولہ باری سے ہونے والے دھماکوں اور آتشزدگی کے بعد سنائی دی تھیں۔
وہ بچہ جو 1965ءکے حملے میں چیخیں مارکر اٹھ بیٹھا تھا اورجسے اس کی ماں رات بھر سینے سے لگا کر بیٹھی رہی تھی۔ وہ اب اپنے بچپن میں جنگ کی باتیں سنتا تھا۔ اس کے دادا روزانہ صبح شام بی بی سی پر ”جہاں نما“اور ”سیربین“میں جنگ کی تفصیلات سنتے تھے۔ پھرایک شام اس نے دیکھا کہ گھرمیں ریڈیو پر ایک تقریرسنائی دے رہی ہے۔ ایک ٹرانسسٹر تھاجس کے پاس بیٹھے اس کے دادا غور سے وہ تقریر سن رہے تھے۔ ”دشمن ہماری لاشوں سے گزرکررہی مشرقی پاکستان فتح کرے گا“۔ سپہ سالار کی آواز فضاؤں میں گونجی اور اس کے دادا کاچہرہ خوشی سے دمک اٹھا لیکن اس سے اگلے روز ہی اس بچے نے دیکھا کہ اس کی والدہ رو رہی ہیں۔ آنسوؤں سے تر چہرے کے ساتھ گلوگیر آواز میں اس کی ماں نے بتایا کہ ڈھاکہ پر قبضہ ہوگیاہے۔ دادا غصے میں بولے ”حرام زادے نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں“۔ ڈھاکہ کیا ہے اوراس پر قبضہ کیا ہوتا ہے یہ اسے ہرگز معلوم نہیں تھا لیکن اس بچے کو اتنا اندازہ ضرورتھا کہ یہ کوئی موت جیسا واقعہ ہے۔ اوراس روز موت کا ہی تو منظرتھا۔ گھر میں کچھ بھی نہ پکا تھا۔ ہرطرف سناٹاتھا۔ اس بچے نے سناٹے سے گھبرا کر بالکونی سے سڑک پر دیکھاتو اسے جگہ جگہ لوگوں کی ٹولیاں دکھائی دیں۔ سب کے ماتھوں پر پریشانی رقم تھی۔ چہروں سے دکھ جھلکتا تھا اور وہ مختلف مقامات پر ٹولیوں کی صورت میں اس طرح کھڑے تھے جیسے کسی جھگڑے کے بعد لوگ محلے میں جمع ہوجاتے ہیں یا جس گھر میں موت واقع ہوجائے اس کے باہر لوگ ہاتھ باندھے سروں کوجھکائے افسردگی کے عالم میں جمع ہوجاتے ہیں۔ اوریہ جو ہرگھر کے باہر اور پورے محلے میں لوگ جگہ جگہ ٹولیوں میں جمع تھے تو کیا محلے کے ہر گھر میں موت واقع ہوگئی تھی؟کیا یہ ڈھاکہ پر قبضہ کوئی بہت بڑاواقعہ ہے؟وہ بچہ باربار حیرت سے لوگوں کو دیکھتاتھا اورسوچتاتھا۔
لوگ پہلے بھی تو اسی طرح شہر میں ٹولیوں کی صورت میں جمع ہوتے ہوں گے۔ سینکڑوں ہزاروں سال قبل جب حملہ آور اس شہر پر قبضہ کرتے ہوں گے اورخلق خدا پر نئی حاکمیت قائم کرتے ہوں گے۔ تو اس وقت بھی تولوگ اسی طرح گلیوں میں جمع ہوتے ہوں گے۔ سرکوجھکائے ہوئے ماتھوں پر پریشانی اور چہروں پر دکھ رقم کیے۔ کیا انہیں قبضے کے بعد یوں جمع ہونے کی اجازت ہوتی تھی یا انہیں گھروں سے باہر نکلنے سے روک دیا جاتا تھا؟
”یہ تمام حضرات کو اطلاع دی جاتی ہے کہ انڈیا نے مشرقی پاکستان پر قبضہ کرلیا ہے، ہماری فوج نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ یہ تمام حضرات کواطلاع دی جاتی ہے کہ کل بازار بند رہیں گے۔ ہڑتال ہوگی “۔
منادی والا آیا اور اعلان کرکے سائیکل پر آگے بڑھ گیا۔ منادی والا پہلے بھی گلیوں اور بازاروں میں کسی کی موت کی اطلاع دینے ہی آیا کرتا تھا۔ سو آج وہ مشرقی پاکستان کی موت کی خبر دے کر چلاگیا۔ ایسے ہی منادی والا پرانے زمانے میں بھی آتاہوگا اور بتاتا ہوگا کہ آج سے ہمارے ظل الٰہی فلاں ہیں اور آج سے ہمارا مذہب بھی تبدیل ہوگیا ہے اورآج سے ہم فلاں کو خراج ادا کیا کریں گے اور اپنی جمع پونجی فلاں کے قدموں میں نچھاور کیا کریں گے۔ اورمنادی والا یہ بھی تو بتاتا ہو گا کہ فلاں سرکش کو فلاں مقام پر عبرت کا نشان بنایا جائے گا اورسب لوگ فلاں وقت پر وہاں جمع ہوجائیں اور اسے عبرت کانشان بنتے دیکھیں۔ ملتانی جوق درجوق جاتے ہونگے کسی اپنے جیسے محکوم کو عبرت کانشان بنتا دیکھتے ہوں گے۔ کسی کو درے لگتے ہوں گے تو یہ تالیاں بجاتے ہوں گے اور کسی کو درخت سے لٹکایا جاتاہوگا تو اس کے تڑپنے پر قہقہے لگاتے ہوں گے اور شکر بجا لاتے ہوں گے کہ لٹکنے والے ہم نہیں کوئی اور ہے۔
”ضیاء الحق زندہ باد، مرد مومن زندہ باد، اسلامی نظام زندہ باد، مرد مومن مرد حق، ضیاءالحق ضیاءالحق“۔ قلعہ قاسم باغ پر واقع کرکٹ سٹیڈیم میں نعرے گونجتے تھے اور لوگوں کاہجوم تھا جو تالیاں بجاتا تھا۔ ایک مجرم کی ننگی پشت پر کوڑے لگائے جارہے تھے۔ کوڑے مارنے والا کوڑے کو فضا میں گھماتا توسناٹا طاری ہو جاتا ایک سنسناتی آواز فضا میں گونجتی۔ پھروہ کچھ دوربھاگتا، اچھلتا جیسے کوئی سپنر گیند پھینکنے سے پہلے اچھلتا ہے اورپھر وہ پوری قوت کے ساتھ کوڑا مجرم کی پشت پر مارتاتھا۔ سٹیڈیم میں ٹکٹکی پر بندھے ملزم کی چیخیں گونجتی تھیں اوروہ چیخیں تالیوں اور نعروں میں گم ہوجاتی تھیں۔ جیسے کبھی اس سٹیڈیم کے آس پاس برطانوی فوج کا گولہ گرنے سے جو آگ بھڑکی اور دھماکے ہوئے اس آگ میں لقمہ اجل بن جانے والوں کی چیخیں دھماکے کی آوازوں میں گم ہوگئی تھیں۔ اورجب سینکڑوں برس پہلے اسی قلعے پر کہیں دربارلگا تھا اوراس میں والی ملتان علی محمد خان اور اس کے بھتیجوں کے پیٹ چاک کیے گئے تھے توانہوں نے بھی یقیناً چیخیں ماری ہوں گی۔ بہت تڑپے ہوں گے۔ ہاتھ جوڑے ہوں گے۔ اوربچاؤکی کوششیں بھی کی ہوں گی۔ اوراس وقت دربار میں بہت سے معززین بھی موجود تھے۔ قریشی، گیلانی، گردیزی، سدوزئی، بادوزئی اور معلوم نہیں کون کون۔ تو کیا جب والی ملتان کا پیٹ چاک کیا گیا اور جب اس نے چیخ وپکارکی تو کیا اس وقت بھی دربار میں ایسے ہی نعرہ ہائے تحسین بلند ہو ئے تھے؟کیا اس وقت بھی تالیاں بجائی گئی تھیں؟یا وہ سب خوف سے دہشت زدہ ہوگئے تھے کہ احمد شاہ ابدالی کے دربار میں کسے جرات ہوتی کہ وہ شاہی آداب کے منافی کوئی حرکت کرتا۔ آداب شہنشاہی کے تقاضے ہی کچھ اورہوتے ہیں۔ ہاں وہ درباری، وہ قریشی، گیلانی، گردیزی، سدوزئی، بادوزئی تماشائی تو ضرور تھے۔ ان ہزاروں افراد کی طرح جو اسی قلعے پر واقع سٹیڈیم میں تماشا دیکھنے آئے تھے اور ایک ایسے منظرکا حصہ بننے آئے تھے جو ایک حاکم نے رعایا پر اپنی دھاک قائم کرنے کے لیے ترتیب دیا تھا کہ اگر لوگوں کو ڈرایا نہ جائے، خوفزدہ نہ کیا جائے تو وہ سرکش ہوجاتے ہیں نواب علی محمد خان کی طرح۔
( اختتام)