یہ ستمبر 1965ءکی کہانی ہے۔ اس رات کی کہانی جب گرمی کی شدت ختم ہوچکی تھی اور حبس نے ملتان کو اپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔ شہر میں شدید حبس اور گھٹن کی کیفیت تھی۔ جوش ملیح آبادی نے تو حبس سے نجات کے لیے لیئے لو کی دعا مانگی تھی مگر ملتان والے تو حبس میں لوکی دعا بھی نہیں کر سکتے کہ وہ لو کے تھپیڑوں سے بخوبی آشنا ہیں اور جانتے ہیں کہ ایسی باتیں حقیقت میں نہیں، شاعری میں ہی اچھی لگتی ہیں۔ حبس ملتان والوں کے لئے لو سے نجات کی نوید ہے۔ سو وہ حبس اور گھٹن کے ماحول میں جینے کے فن سے آشنا ہیں اور صدیوں سے آشنا ہیں۔ جب شہر میں منادی کرا دی جاتی تھی کہ کوئی اپنے گھر سے نہ نکلے۔ اورجب کسی ظل الٰہی کا فرمان سنایا جاتا تھا کہ جو گھر سے نکلا اسے عبرت کا نشان بنا دیا جائے گا۔ اور عبرت کا نشان یہاں بارہا بہت سے لوگوں کو بنایا گیا۔ کسی کو گھوڑوں کی ٹاپوں میں روندا گیا، کسی کو زندان میں ڈالا گیا، کسی کے ناخن کھینچے گئے، کسی کو تہہ تیغ کیا گیا کسی کا پیٹ چاک کر کے اس کی لاش کو اونٹ پر ڈال کر شہر میں گھمایا گیا اور کسی کی گردن میں رسی ڈال کر اسے درخت یا چوراہے میں لٹکا دیا گیا تاکہ دیکھنے والوں کو عبرت حاصل ہو۔ حکمران اپنی ہیبت طاری کرنے کے لیے ماضی میں بھی ظلم ڈھاتے تھے اور یہ عمل آج بھی جاری ہے کہ یہی حکمرانی کا بنیادی اصول ہے۔ لوگوں کو اگر ڈرایا نہ جائے، دھمکایا نہ جائے تو وہ سرکشی اختیار کر لیتے ہیں، اپنی اوقات سے باہر ہو جاتے ہیں۔ کسی سلطنت یا اقتدار کے استحکام کے لیے سر جھکائے ہوئے قیدیوں کی طویل قطاریں بہت ضروری ہوتی ہیں۔ ایسی ہی ایک سرکشی نواب علی محمد خان نے 18ویں صدی عیسوی میں کی تھی۔ احمد شاہ ابدالی نے اس نواب کو ملتان کاحکمران بنایا تھا۔
اس نے وقفوں وقفوں سے اس شہر پر حکومت کی۔ شہر کو خوبصورت بنایا۔ یہاں نہری نظام قائم کیا۔ باغات لگائے۔ مسجدیں بنوائیں۔ شہر کے درمیان میں ایک نالہ بہتاتھا جو پورے شہر کو سیراب کرتا تھا۔ یہ نالہ علی محمد خان نے بنوایا تھا جو پہلے نالہ علی محمد اور بعد ازاں نالہ ولی محمد کہلایا۔ شہر کے وسط میں ایک تالاب تھاجہاں انسان اور جانور ایک ساتھ پانی پیتے تھے۔ علی محمد خان کو انسان کی یہ ناقدری پسند نہ آئی۔ اس نے اس تالاب کوختم کرایا اور وہاں ایک خوبصورت مسجد تعمیر کرا دی۔ حسین آگاہی بازار سے چوک بازار میں داخل ہوں تو بازارکے اختتام پر نیلی ٹائلوں والی وہ خوبصورت مسجد آج بھی موجود ہے۔ یہ مسجد علی محمد خان کے نام سے جانی جاتی تھی لیکن اب یہ بھی مسجد ولی محمد ہی کہلاتی ہے۔ کوتوال شہراس مسجد میں عدالت بھی لگاتا تھا۔ نماز کے بعد فریادی اپنی فریاد سناتے اور پھر فیصلے سنائے جاتے تھے، کسی کو انصاف ملتا اور کسی کے ساتھ ناانصافی ہوتی۔ یوں حاکم کی ہیبت رعایا پر قائم رہتی تھی۔ رنجیت سنگھ کے دور میں بھی اس مسجد میں کوتوال بیٹھتا تھا ،عدالت لگتی تھی ،لیکن رنجیت سنگھ نے یہاں اذان پر پابندی لگا دی تھی۔ یہاں نمازموقوف ہو چکی تھی اور مسجد کو اصطبل کا درجہ بھی دے دیا گیا تھا۔
مسجد کے بانی نواب علی محمد خان نے ایک مرتبہ اپنے مربی احمد شاہ ابدالی سے سرکشی کی اور اسے ناراض کر دیا۔ علی محمد نے ابدالی کے چہیتے سدوزئی خاندان پر مظالم ڈھائے اور سدوزئی خاندان کی مظلوم عورتوں کی فریاد احمد شاہ ابدالی تک بھی پہنچ گئی۔ احمد شاہ ابدالی غیظ و غضب کے عالم میں ملتان پہنچا۔ اس نے قلعہ میں ایک دربارلگایا۔ ملتان کے قریشی، گیلانی، گردیزی، ہاشمی، بادوزئی، سدوزئی، سب وہاں دست بستہ موجودتھے۔ احمد شاہ ابدالی نے سدوزئیوں کی فریاد سنی اور پھر علی محمد خان اوراس کے بھتیجوں کا بھرے دربار میں پیٹ چاک کرا دیا۔ لاشیں اونٹوں پر ڈال کر شہر میں گھمائی گئیں۔ لوگوں کو بتایا گیا کہ سرکشوں اور ظالموں کا یہ انجام ہوتا ہے۔ شہر میں گھٹن بڑھ گئی۔ حبس میں مزید اضافہ ہو گیا۔
ایسا ہی حبس اور ایسی ہی گھٹن تھی جب ستمبر1965 ءکی اس رات آسمان روشن ہو گیا۔ اور اتنا روشن ہوا کہ یہ تاریک شہر اس روشنی میں مکمل طورپر نہا گیا۔ کوئی ایک خطہ، محلہ یاعلاقہ نہیں، اس روشنی نے تو پورے شہر کو چند لمحوں کے لیے دودھیا کر دیا تھا۔ آسمان پر اگرچہ چاند بھی موجود تھا۔ وہ چاندنی رات تھی لیکن اس روشنی نے تو چاند کی روشنی کو بھی ماند کر دیا تھا۔ پنکھوں یا ایئرکنڈیشنرز کا اس زمانے میں ابھی رواج نہیں تھا۔ لوگ گرمی کے موسم میں گھروں کی چھتوں پر، سڑکوں پر، گلیوں میں یا کھلے احاطوں میں سوتے تھے۔ اس روشنی سے گہری نیند میں سوئے ہوئے لوگوں کی آنکھیں بھی چندھیا گئیں اور وہ نیند سے بیدارہو گئے۔ روشنی گہری نیند سے کیسے بیدارکرتی ہے اہل ملتان کو یہ تجربہ اسی روز ہوا تھا۔ اورابھی وہ نیند سے پوری طرح بیدار بھی نہ ہوئے تھے۔ ابھی انہوں نے اس روشنی کو پوری طرح دیکھا بھی نہیں تھا کہ زور دار دھماکوں کی آواز نے انہیں خوفزدہ کر دیا۔ جو بے خبر اس روشنی سے بھی بیدارنہ ہو پائے تھے۔ وہ دھماکوں کی آواز پر ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے۔ رات کے پچھلے پہر پورا ملتان جاگ اٹھا اور پھر خطرے کے سائرن بجنے لگے۔ فضا میں طیاروں کی گھن گرج سنائی دینے لگی۔ لوگوں کو معلوم ہو گیا کہ بھارت نے ملتان پر فضائی حملہ کر دیا ہے۔ برقی رو بند کر دی گئی۔ بلیک آﺅٹ کے نتیجے میں شہر تاریکی میں ڈوب گیا۔ رضاکاروں نے وردیاں پہنیں اور سیٹیاں بجاتے ہوئے سڑکوں اورگلی محلوں میں نکل آئے۔ کھلے آسمان تلے سوئے ہوئے لوگ بھاگ کر کمروں اور خندقوں میں گھس گئے۔ چھت پر سویا ہوا ایک سوا سال کا بچہ بھی دھماکے سے خوفزدہ ہو کر رونے لگا۔ ماں نے اسے سینے سے لگایا اور بھاگ کر کمرے میں چلی گئی۔ جنگی طیاروں کی بھاگ دوڑ کچھ دیر جاری رہی اور پھر سناٹا ہوگیا۔ مہیب تاریکی اوراس سے بھی زیادہ مہیب سناٹا۔ یہ ملتان کی ایک اور رات تھی جو شہروالوں نے جاگ کرگزاری تھی۔
ملتان ایسی بہت سی راتیں اور ایسے بہت سے حملے پہلے بھی دیکھ چکاتھا۔ ملتان کے لیے یہ حملہ نیا نہیں تھا۔ نئی بات اس میں صرف یہ تھی کہ یہ حملہ آسمان سے ہوا تھا۔ آسمان سے بجلیاں اس شہر پر بارہا گریں۔ طوفان اور آندھیاں بھی آسمان سے ہی آئے لیکن دشمنوں نے ملتان پر حملے کے لئے ہمیشہ زمینی اور دریائی راستے ہی اختیار کیے تھے۔ یہ پہلا حملہ تھا جو فضاﺅں سے ہوا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران شہر والوں نے آسمان پر کچھ پروازیں ضرور دیکھی تھیں۔ لیکن شہر پر حملہ نہیں ہوا تھا۔ پھر گورکھوں کو رسد پہنچانے کے لئے شہر کے باہر چھاﺅنی کے قریب ہی ایک چھوٹاسا ایئرپورٹ بنا جہاں چھوٹے جہاز سامان لے کر اترتے تھے۔ بعدازاں یہی ہوائی اڈا وسیع کر دیا گیا۔ حملہ کہاں ہوا ہے ؟کس جگہ کو نشانہ بنایا گیا؟ کتنا نقصان ہوا ہو گا؟ یہ سب کچھ رات بھر زیربحث رہا۔ ہرشخص یہ سمجھتا تھا کہ جیسے بم اس گھر کے قریب ہی کہیں گرے ہیں۔ رات اسی بے یقینی کے عالم میں گزری۔ صبح کی اذان سنائی دی تو مسجدیں نمازیوں سے کھچا کھچ بھرگئیں۔ سب کے چہروں پر پریشانی اور آنکھوں میں بہت سے سوال تھے۔ جنگ کے دوران اگرچہ مساجد میں ملکی سلامتی کی دعائیں پہلے ہی مانگی جارہی تھیں لیکن اس رات ملتان کی مسجدوں میں صرف شہر کی سلامتی کی دعائیں کی گئیں۔ اورجن ماﺅں کے بیٹے محاذ پر تھے وہ اپنے اپنے گھروں میں مصلے بچھا کر بیٹھ گئیں۔ صبح صبح سب کے کانوں کے ساتھ ریڈیو لگا ہوا تھا۔ سب سے پہلے بی بی سی سنا گیا کہ اطلاعات کا مصدقہ ذریعہ اس زمانے میں بی بی سی کو ہی سمجھا جاتا تھا۔ بی بی سی پر جنگ کی خبریں توتھیں مگر ملتان کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ دن چڑھا تو معلوم ہوا کہ حملہ قاسم بیلہ کے قریب ہوا ہے۔ قاسم بیلہ جو ہمیشہ سے حملہ آوروں کا مرکز رہا۔ محمد بن قاسم نے بھی ملتان پر حملے کے لیے یہیں ڈیرے ڈالے تھے۔ اوراسی نسبت سے یہ آج بھی قاسم بیلہ کہلاتا ہے۔ معلوم ہوا کہ بھارتی طیاروں نے اس علاقے پر بمباری کی تھی لیکن جو بم پھینکے گئے ان میں سے صرف ایک پھٹ سکا اور باقی ریت میں دھنس گئے۔ کوئی جانی نقصان نہیں ہواتھا۔ اور وہ جو شہر روشنی میں نہا کر دودھیا ہو گیا تھا وہ دراصل بھارتی طیاروں سے پھینکے گئے روشنی کے گولے تھے جن کے ذریعے وہ ہدف کا تعین کرنا چاہتے تھے۔ یہ خبر ملتے ہی پورا شہر قاسم بیلہ کی جانب روانہ ہوگیا۔ اس زمانے میں سائیکل ہی عام سواری تھی۔ سو ایک قطار تھی سائیکلوں کی جو اس سڑک پر روانہ تھی جہاں کبھی محمد بن قاسم نے ڈیرہ ڈالا تھا اور جہاں اس کے فوجیوں نے کھجوریں کھا کر ان کی گٹھلیاں پھینکی تھیں اور پھر اس کے بعد وہاں کھجوروں کے جھنڈ اگ آئے اور ملتان والے آج بھی کہتے ہیں کہ ملتان میں کھجوریں محمد بن قاسم کے سپاہی اپنے ساتھ لائے تھے۔ یوں صبح سویرے ہی قاسم بیلہ میں لوگوں کا ایک ہجوم لگ گیا۔
(جاری ہے)