اسلام آباد : سپریم کورٹ نے این آر او کیس میں سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی طرف سے اپنی جائیداد سے متعلق جمع کروائے گئے بیان حلفی کو مشکوک قرار دیتے ہوئے اُنھیں گذشتہ 10 سال کے اثاثوں کی تفصیلات جمع کراونے کا حکم دیا ہے۔ منگل کے روز آصف علی زرداری کی طرف سے اپنی جائیداد سے متعلق جمع کروائے گئے بیان حلفی میں کہا تھا کہ ’آج کے دن تک ان کی بیرون ملک کوئی جائیداد نہیں ہے۔‘واضح رہے کہ سنہ 2005میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے اس وقت کی پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت بینظیر بھٹو کے ساتھ مفاہمت کے نتیجے میں این آر او جاری کیا تھا جس کی وجہ سے آصف علی زرداری اور دیگر ہزاروں افراد کے خلاف مقدمات کو ختم کردیا گیا تھا تاہم سپریم کورٹ نے اس اقدام کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔بی بی سی کے مطابق چیف جسٹس میں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے این آر او کے مقدمے میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف اور سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کو بھی گذشتہ دس سال کے اثاثوں کی تفصیلات جمع کروانے کا حکم دیا ہے۔آصف علی زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اُن کے موکل محتلف مقدمات میں نو سال تک جیلوں میں رہے جبکہ اُن کے خلاف درج ہونے والے مقدمات میں 40 گواہان پیش ہوئے اور کسی ایک گواہ نے بھی ان کے خلاف بیان نہیں دیا۔اُنھوں نے کہا کہ آصف علی زرداری کے خلاف تمام مقدمات کا فیصلہ ہوچکا ہے جس میں وہ بری ہوچکے ہیں جس پر بینچ میں موجود عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ابھی یہ مقدمات اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچے بلکہ احتساب عدالت کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں اعلی عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔سابق صدر کے وکیل نے کہا کہ اُنھیں نیا بیان حلفی جمع کروانے پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن عدالت نے اُنھیں دوہری مصیبت میں ڈال دیا ہے۔ بینچ میں موجود جسٹس اعجاز الااحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت اس بیان حلفی کی تحقیقات کے لیے نہیں کہہ رہے بلکہ عدالت یہ چاہتی ہے کہ وہ گزشتہ دس سال کے اپنے ذرائع آمدن اور جائیداد کی تفصیلات بتائیں۔سابق صدر کے وکیل کا کہنا تھا کہ اس طرح تو کسی سے سرٹیفکیٹ نہیں مانگا جاتا جس پر بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آصف علی زرداری کوئی عام آدمی نہیں ہیں بلکہ قومی لیڈر ہیں۔اُنھوں نے فاروق ایچ نائیک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر ان کے موکل ان الزامات سے بری ہوگئے تو اُنھیں کلین چٹ مل جائے گی جس کا اُنھیں مستقبل میں سیاسی طور پر بھی فائدہ ہوگا۔سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے وکیل اختر شاہ نے اپنے موکل کا غیر تصدیق شدہ بیان حلفی جمع کروایا جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا کہ پرویز مشرف کی بیرون ملک جائیداد کی کل مالیت 54 لاکھ درہم ہے جس پر چیف جسٹس نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر سابق فوجی صدر کی تمام تنخواہیں بھی اکٹھی کر لی جائیں تو پھر بھی اتنی رقم نہیں بنتی۔پرویز مشرف کے وکیل نے کہا کہ اُن کے موکل کو پیسے بیرون ملک لیکچرز دینے کی مد میں ملے ہیں جس پر بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ "میں بھی ریٹائرمنٹ کے بعد لیکچر دینا شروع کردوں تو کیا مجھے بھی اتنے پیسے ملیں گے”۔عدالت نے اس مقدمے کی سماعت دو ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔ دوسری طرف خصوصی عدالت میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے مقدمے کی سماعت کے دوران سیکرٹری داخلہ نے عدالت کو بتایا کہ حکومت نے ملزم پرویز مشرف کی گرفتاری کے لیے انٹرپول کو خط لکھا تھا جس کا جواب بھی آیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انٹرپول سیاسی نوعیت کے مقدمات پر کارروائی نہیں کرتی۔اس مقدمے کے پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے عدالت کو بتایا کہ اُنھیں اس مقدمے میں سابق حکومت نے پراسیکیوٹر تعینات کیا تھا اور چونکہ وہ حکومت اب ختم ہوچکی ہے اس لیے اُنھوں نے اس عہدے سے استعفی دے دیا ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ آئندہ اس مقدمے کو کس طرح چلانا ہے۔
فیس بک کمینٹ