ہاتھی کی طرح سیاست کے بھی کچھ ایسے دانت ہوتے ہیں جو محض دکھانے اور دوسروں کو خوفزدہ کرنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ میرے دیرینہ شناسا اور موجودہ حکومت کے بہت ہی متحرک وزیر اطلاعات چودھری فواد حسین تحریک انصاف کے ویسے ہی دانت ثابت ہورہے ہیں۔ بہت دنوں سے یہ دعویٰ کئے چلے جارہے تھے کہ ان کی حکومت سیاست کے نام پر قومی خزانے کو خالی کر دینے والے ”چوروں اور لٹیروں“ کے کم از کم پچاس کے قریب افراد کو گرفتار کرکے احتساب کی چکی میں ڈالنے کا فیصلہ کرچکی ہے۔ اپنے ”کامیاب“ دورہ سعودی عرب کے بعد وزیر اعظم عمران خان ان کی جانب سے لگائی تڑی کو ”قوم سے خطاب“ کے ذریعے تقویت پہنچاتے نظر آئے۔
منگل کی صبح لیکن اس حکومت کے وزیر خارجہ اور تقریباََ ڈپٹی وزیر اعظم جیسا رویہ اختیار کرتے مخدوم شاہ محمود قریشی قومی اسمبلی کے اجلاس میں حزب مخالف کی ضرورت سے زیادہ دلجوئی کرتے نظر آئے۔ نظر بظاہر ان دنوں چلایا اجلاس حکومت نے اپوزیشن کے مطالبے پر بلایا ہے۔ حکومت پر یہ اجلاس مسلط کرکے مسلم لیگ نون درحقیقت اپنے رہنما شہباز شریف کی اسلام آباد موجودگی یقینی بنانا چاہتی ہے۔ یہ موجودگی انہیں کچھ روز کے لئے نیب کی حراست اور تفتیش سے بچائے رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ قومی اسمبلی کے ذریعے اپوزیشن کے پاس ہمیں Engageکرنے کے لئے کوئی بیانیہ نظر نہیں آرہا۔
شاید اپوزیشن کی اس کمزوری کو نگاہ میں رکھتے ہوئے حکومت نے انگریزی والی Tables Turnکرنے کی ترکیب سوچی۔ علی احمد کے ذریعے پیر کے دن قومی اسمبلی سے ایک قرارداد منظور کروائی گئی۔ اس کے ذریعے یہ فیصلہ ہوا کہ منگل سے جمعہ تک پاکستان کی معاشی طورپر ”دُگرگوں“ نظر آتی صورت حال پر بحث کی جائے گی۔
چودھری فواد حسین کی لفظی گولہ باری کے تناظر میں میرے اندر موجود رپورٹر یہ فرض کرنے پر مجبور ہوگیا کہ ملک کی معاشی صورت حال پر کھلی بحث کے ذریعے حکومت وزیر اعظم کی ہدایت کی روشنی میں قوم کو یہ سمجھانا چاہ رہی ہے کہ غیر ملکی قرضوں کے ناقابل برداشت ہوتے بوجھ کو ”چوروں اور لٹیروں“ پر مشتمل گزشتہ دس سال کی حکومتوں نے کس بے رحمی سے بڑھایا۔ معیشت پر کھلی بحث کے ذریعے کچھ ایسے حقائق ہمارے سامنے لائے جائیں گے جن کے عیاں ہونے کے بعد اپوزیشن قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے سے خائف ہوجائے گی۔ اپنی حکومتوں کے دوران اپنائی پالیسیوں کے بے نقاب ہوجانے کی وجہ سے منہ چھپاتی پھرے گی۔
تلاوتِ کلام پاک کے بعد حکومتی بنچوں پر لیکن صرف 25اراکین بیٹھے نظر آئے۔ اپوزیشن کی صفوں میں البتہ 45افراد موجود تھے یہ ایوان سے کھسک لئے۔ کورم پوائنٹ آؤٹ ہوا۔ گنتی پوری کرنے کے لئے کارروائی میں وقفے کا اعلان کرنا پڑا۔
بالآخر گنتی پوری ہوگئی تو شاہ محمود قریشی صاحب نے ایک طویل خطاب فرمایا۔ اس کے ذریعے وہ پارلیمانی جمہوریت میں اپوزیشن کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کرتے رہے۔ روایتی لفاظی سے قطع نظر ان کے خطاب کا بنیادی مقصد اپوزیشن کو یقین دلانا تھا کہ معیشت پر بحث کے ذریعے حکومت ہرگز اپنے مخالفین کو تنقید کا نشانہ نہیں بنانا چاہتی۔ اصل مقصد پاکستانی معیشت کی برسوں سے جمع ہوئی مشکلات ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کو اجتماعی بصیرت سے کام لیتے ہوئے ان دیرینہ اور ناقابل علاج دِکھتی مشکلات کا حل ڈھونڈنا ہوگا۔ انہیں قوی اُمید تھی کہ پاکستان کی محبت اور وسیع تر قومی مفاد کی خاطر اپوزیشن والے بڑے دل کے ساتھ حکومت کو معاشی مشکلات کا حل ڈھونڈنے میں اپنی تقاریر کے ذریعے معاونت فراہم کریں گے۔
دریں اثناءوزیر خزانہ اسد عمر بھی ایوان میں تشریف لے آئے۔ رویہ ان کا بھی دوستانہ تھا۔ سابقہ حکومتوں کو براہِ راست سخت الفاظ میں ملک کی موجودہ مشکلات کا ذمہ دار ٹھہرانے کے بجائے انہوں نے فقط اعدادوشمار بیان کرنے کو ترجیح دی۔ درآمدات پر اُٹھے اخراجات کا برآمدات سے آئی آمدنی سے تقابل کرتے ہوئے بجٹ میں خسارے کی تفصیلات بیان کیں اور زرمبادلہ کے ذخائر میں قرضوں کی ادائیگی کے حوالے سے ہوئی کمی کو اجاگر کیا۔ یہ سب کہنے کے بعد بھی وہ احسن اقبال اور بلاول بھٹو زرداری سے معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے نسخے طلب کرنے کے خواہاں نظر آئے۔
شاہ محمود قریشی اور ا سد عمر کی جانب سے مشترکہ طورپر اپنائے چاپلوسانہ انداز نے میرے تجسس کو مہمیز دی۔ اچانک یاد آگیا کہ کئی برسوں سے IMF اور ورلڈ بینک نے ان سے مدد کے طلب گار ممالک کے لئے ضروری ٹھہرارکھا ہے کہ ان سے رجوع کرنے سے قبل ان ممالک کی حکومتیں اپنی پارلیمان میں موجود اپوزیشن کو اعتماد میں لیں۔ IMF سے قرض لینے کے بعد حکومت کو چند ایسے اقدامات اٹھانا ہوتے ہیں جو عوام کی بنیادی ضروریات کے لئے آج کی دنیا میں لازمی تصور ہوتی بجلی اور گیس کے نرخ بڑھا دیتے ہیں۔ درآمدی پٹرول پر انحصار کرنے والے ممالک کو اس حوالے سے دگنے بوجھ کا سامنا کرناپڑتا ہے۔ IMFکا اصرار ہوتا ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے عوام کی اجیرن ہوئی زندگی کا باعث اس کی جانب سے عائد ہوئی شرائط ہرگز نہیں۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان جیسے ممالک کی حکومتیں اپنے ڈنگ ٹپاؤ روئیے کے باعث مناسب وقت پر درست اور وقتی طور پر سخت نظر آتے فیصلے نہیں کرتیں۔ ان کی ریاست محصولات سے آئی آمدنی سے کہیں بڑھ کر خرچ کرتی ہے۔ آمدنی اور خرچ کے درمیان فرق کو قرض لے کر پورا کیا جاتا ہے۔ بالآخر وہ مقام آجاتا ہے جب عالمی بینکوں سے آسان شرائط پر قرض ملنے کی گنجائش موجود نہیں رہتی۔ بالآخر IMFسے کسی بھاری بھر کم پیکیج کے لئے رجوع کرنا پڑتا ہے۔یہ پیکیج دیتے ہوئے IMFحکومتوں کو معیشت کی طویل المدتی بحالی کے لئے کچھ سخت فیصلے کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ ان فیصلوں کی وجہ سے آئی مشکلات کا ذمہ دار مگر IMFکو ٹھہرادیا جاتا ہے۔
ماضی میں اپنے ذمے آئی بدنامی کو IMF نظر انداز کرتی رہی ہے۔ Brexitکے بعد سے عالمی مالیاتی نظام اور گلوبلائزیشن کے خلاف نفرت کی لہر نے یورپ کے ممالک میں بھی غم وغصے کا جو طوفان مچارکھا ہے اس کی روشنی میں IMFوغیرہ نے اب تہیہ کر رکھا ہے کہ ہم جیسے ممالک کے حکمران اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کریں۔ فقط IMFکو دوش نہ ٹھہرائیں۔
عالمی مالیاتی اداروں کے خلاف پھیلتی نفرت کی وجہ سے IMFسے پیکیج حاصل کرنے والی کئی حکومتوں کو سیاسی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ مہنگائی کی لہر سے بلبلاکر لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور حکومت مخالف جماعتیں ان کے ساتھ ہوگئیں۔ اٹلی جیسے ممالک میں روایتی سیاسی پارٹیوں نے اس ضمن میں احتیاط سے کام لیا تو 5-Star Party جیسی جماعتیں نمودار ہوگئیں۔
یہ جماعت اٹلی کی موجودہ حکومت کی ایک طاقت ور حلیف ہے۔ IMF اور یورپی یونین کے مسلط کردہ مالیاتی ”ڈسپلن“ کو لیکن تسلیم کرنے کو ہرگز تیار نہیں۔
IMF والے تحریک انصاف کو کوئی اقتصادی پیکیج دینے سے قبل اس امر پر مجبور کریں گے کہ وہ ہماری اپوزیشن جماعتوں کو اپنے ساتھ لے کر چلے۔ پاکستانی معیشت کو IMFکی مدد سے بحال کرکے خوش حالی کی سمت پر ڈالنے کے لئے شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کو ان ہی لوگوں کے ساتھ کوئی ”ورکنگ انڈر سٹینڈنگ“ استوار کرنا ہوگی جنہیں ان کی جماعت کئی برسوں سے مسلسل ”چور اور لٹیرے“ ٹھہرا کر رگیدتی رہی ہے۔ یہ حالات کا جبر ہے جو حکومت سنبھالنے کے بعد دنیا کی تقریباََ ہر سیاسی جماعت کو برداشت کرنا ہوتا ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت)