گہری سوچ بچار اور مغز ماری کرنے کے بعد بھی یہ واضح نہیں کہ آخر چین کے ہاتھ کون سی چڑیا لگی تھی اور پاکستان کے ہاتھ سے وہ کس دن اڑی تھی۔ اور چینی لوگ کوئی زیادہ طویل القامت اور قوی الجثہ بھی نہیں ہیں، تو آخر کیا فرق ہے کہ تقریباً آگے پیچھے آزاد ہونے والے ممالک چین اور پاکستان اپنے حالات کے برعکس سفر کررہے ہیں، افیون کھانے والے سنورنے کے عمل سے گررچکے ہیں اور ہم بگڑتے بگڑتے گہرے گڑھے میں گر چکے ہیں۔ سیاست سے معیشت تک، تعلیم سے معاشرت تک اور افراد سے اداروں تک ہر چیز پر زوال ہے، اور اب تو ویسے بھی وقت مختلف ہے۔ چیلنجز بھی عجیب سے عجیب تر ہیں، عالمی حالات پر نظر دوڑائیں تو ہمارا دشمن کوئی معمولی حیثیت والا نہیں ہے اور نہ ہی اس کی دشمنی اب کوئی خفیہ راز ہے، اور یہ دشمنی مزید عیاں ہوتی جارہی ہے ، امریکہ اور بھارت کا گٹھ جوڑ کھل کر سامنے آچکا ہے ، اس نازک ترین صورتحال میں تمام تر جوش کے ساتھ ہوش سے کام لینے کی ضرورت ہے اور ہوش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے ملک کے مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے چین کو ہر میدان میںزیادہ سے زیادہ اپنے قریب لائیں۔
چین آج ایک مسلمہ طاقت ہے جس کی اپنی معیشت بہت زیادہ مضبوط ہے اور وہ پوری دنیا کی معیشت کو متاثر کرنے کی پوزیشن میں ہے، چین آج دنیا کے 198ممالک کیلئے ہر طرح کی اشیاءتیار کرکے برآمد کررہاہے، چین گلوبل فیکٹری بن چکا ہے ، چین آج دنیا میں 23ٹریلین ڈالر کی سب سے بڑی معیشت ہے ۔ دنیا کی تمام معروف کمپنیاں چین سے مال بنواکر اپنے ملک کی مہر لگاتی ہیں، چین کی لیبر اتنی ہنرمند ہے کہ اگر اس کو چھوٹا سا پرزہ بناناہو یا ایک سو منزلہ عمارت کھڑی کرنی ہو تو اس کے پاس کروڑوں کی تعداد میں ایسے ہنرمند موجود ہیں جو صرف 7گھنٹے کام کرکے وہ رزلٹ دیتے ہیں جو ہماری لیبر16گھنٹے میں بھی نہیں دے سکتی۔بہت کچھ تحریر کیا جاسکتا ہے کہ چین نے کیسے ترقی کی ، ان کی جدت قدامت کو نگل گئی ہے ، یہ اب امریکہ کے ہم پلہ اقتصادی طاقت بننے جارہاہے، اس کی خارجہ پالیسی کے بنیادی ہتھیار ٹینک اور میزائل نہیں بلکہ معیشت اور تجارت ہے ، چین کوئی ایک سی پیک نہیں بنارہا، اس قسم کے 7اکنامک کاریڈورز پر کام ہورہاہے۔ ایک راہداری کا منصوبہ مغربی چین سے روس جائیگا، دوسرا منگولیا کے راستے مشرقی روس تک جائیگا، تیسرا سنٹرل ایشیاءسے ترکی تک جانا ہے ، چوتھا جنوبی چائنا سے انڈونیشیا کے راسے سنگاپور تک ہوگا، اب تک ان منصوبوں پر چین 900ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرچکا ہے ۔ مسلم لیگ کی حکومت نے سی پیک منصوبے کو سیاست کی بھینٹ چڑھایا جو ایک علیحدہ کہانی ہے۔ سی پیک کو سمجھنے کیلئے چین کو سمجھنا ضروری ہے ، ہمارے سی پیک منصوبے پر سیاسی لوگ گند ڈالتے آئے ہیںجو عسکری قیادت صاف کرتی رہی ہے ، اس ضمن میں جنرل اشفاق پرویز کیانی نے چینی قیادت پر کافی محنت کی تھی ورنہ ان کا پروگرام تو 2025 میں اس جانب آنے کا تھا ، پھر جنرل راحیل شریف نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہاتھا کہ ”پاکستانی فوج عوامی جمہوریہ چین کو گارنٹی دیتی ہے کہ وہ سی پیک کی مکمل حفاظت کریگی “۔ یہ فوج کی طرف سے دنیا بھر کیلئے ایک پیغام تھا کہ سی پیک کا معاہدہ پاکستان کی جانب سے برقرار رہے گا۔
پاکستان دشمن لابی کے کارندے چین کو ایک نئی ایسٹ انڈیا کمپنی کہہ کر چین کے خلاف ذہنی طور پر نفرت پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ جارحیت کرنا یا کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنا نہ چین کی کبھی پالیسی رہی ہے اور نہ ان کی قیادت کا ایسا مزاج ہے، ہانگ کانگ اور تائیوان کی مثال سب کے سامنے ہے، یہاں وہ عملی لڑائی کی بجائے پرامن قانونی جنگ لڑتا چلا جارہاہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں سردار بگٹی ، ڈاکٹر شازیہ خالد، تحریک طالبان اور بی ایل اے ایسے ہی یک لخت گولہ بارود کے انبار سنبھالے ہم سب پر حملہ آور نہیں ہوگئے تھے ، اس وقت جو بھی پاک چین دوستی کے حوالے سے منفی پروپیگنڈہ کریگا یا سی پیک منصوبے میں کیڑے نکالے گا تو سمجھ جاؤ کہ بندہ کرائے کا ٹٹو ہے اور اپنی ماں کو بیچنے چلا ہے، پاکستان کی زمین پر بوجھ اور ناسور ہے ، جس کے خون میں فرق ہے جس کی ولدیت گمنام و مشکوک ہے ۔ امریکہ اب آئی ایم ایف کے معاملے میں براہ راست کود پڑا ہے اور درد سی پیک کا ہے ، امریکہ اتنا طوطا چشم ہے کہ اس کو رتی برابر احساس نہیں کہ 1970میں چین کو امریکہ کے قریب لانے میں پاکستان نے کردار اداکیاتھا اورہنری کسنجر کےلئے جہاز بھی پی آئی اے کا استعمال ہوا تھا، امریکہ کو شاہراہ قراقرم کا درد پہلے سے ہی تھا، اس کو یہ بھی غم ہے کہ ہم نے چین کے ساتھ ملکر تھنڈر جہاز بنالیا ہے جبکہ بھارت کی 20برسوں کی محنت دھری کی دھری رہ گئی ہے اور اس کا پیجا نامی جہاز فلاپ ہوگیاہے ، اس وقت امریکہ کی بوکھلاہٹ ڈھکی چھپی نہیں ہے کیونکہ ہم گوادر کی بندرگاہ چین کو دے رہے ہیں اور اس کیلئے اکنامک زون کھول دیاگیاہے، امریکہ سے خوشگوار تعلقات قائم کرنے کیلئے یہ قیمت نہیں چکائی جاسکتی کہ امریکی ایجنڈے کے مطابق چین کو الگ اور محصور کردیاجائے، کیا چین مٹھی بھر آبادی کا ملک ہے کہ جسے کوئی چاہے تو اپنی جیب میں ڈال لے؟ یا چین موم کا بنا ہوا ہے کہ ذرا تپش پہنچے تو فوراً پگھل جائے اور اسے جس طرح چاہے موڑ دیا جائے ؟ سفید چمڑی کا دور ختم ہوا چاہتا ہے ، پیلی چمڑی عروج کی طرف جارہی ہے، چین پاکستان کا دوست ہی نہیں بھائی بھی ہے ، آج کے حالات میں اس کا رویہ انتہائی مثبت ہے، یہ ہمارا تزویراتی شریک کار ہے ، امریکہ دنیا میں چین کو محدود کرنا چاہتا ہے ، بھارت کو علاقے کا تھانیدار دیکھنا چاہتا ہے ، پاکستان کو جو آج جغرافیائی حیثیت حاصل ہے وہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ایک نعمت ہے، چین کیلئے پاکستان سمندر کا راستہ ہے ۔
وزیراعظم عمران خان چین کے دورے پر جارہے ہیں، دونوں ملکوں کیلئے اس دورے کی خاص اہمیت ہے ، پاکستان میں چین کے سفیر پاؤجنگ اور نائب سفیر یاولی جیان نے وزیراعظم عمران خان کے دورہ چین اور سی پیک منصوبے پر بریفنگ دیتے ہوئے غیر مبہم الفاظ میں واضح کیاہے کہ چین پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے، پاکستان کیلئے مالی تعاون کے حوالے سے انکا کہناتھا کہ ان کا ملک 2ارب 70 کروڑ ڈالر کی رقم پہلے ہی پاکستان کو فراہم کرچکا ہے ، جبکہ بڑے پیمانے پر مزید مالی تعاون کیا جائیگا، چینی سفیر نے پاکستانی معیشت میں چینی سرمایہ کاری بڑھانے اور سی پیک کے تعلق سے پاکستان میں پائے جانے والے تمام تحفظات دور کرنے پر مکمل آمادگی ظاہر کی، اسی طرح گذشتہ روز بیجنگ میں بھی چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ایک بریفنگ میں کہا کہ وزیراعظم عمران خان چین کی بین الاقوامی نمائش میں بھی شریک ہونگے جو 4نومبر سے شنگھائی میں شروع ہورہی ہے، وزیراعظم وہاں کلیدی خطاب کرینگے، اس دورے میں پاکستان کثیر الجہتی تعاون کو مزید گہرا بناسکتا ہے ۔
گزشتہ دنوں چینی سفیر نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی ملاقات کی ہے اور سپہ سالار چین کا تین روزہ دورہ بھی کرچکے ہیں، کافی عرصے بعد پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت ایک صفحہ پر ہے، چین کو بھی معلوم ہے کہ پاکستان میں طاقت کے اصل مراکز کہاں ہیں اور کس کی کتنی اہمیت ہے، چین بھی دیکھ رہا ہے کہ عمران خان کے اپنے ذاتی اور کاروباری مفادات نہیں ہیں، وہ اس بوجھ سے آزاد ہوکر دوست ممالک کے حکمرانوں سے بات کررہے ہیں، چین کے حکمرانوں کو یہ بھی احساس ہے کہ عمران خان سی پیک کے منصوبوں میں اپنا مفاد پیش نظر نہیں رکھیں گے، کیونکہ چین اور پاکستان اب سی پیک منصوبے سے علیحدگی کے متحمل ہو ہی نہیں سکتے، عمران خان کو چاہئے کہ وہ ذاتی طور پر اپنے دورہ کیلئے ہوم ورک مکمل کریں، اور اس دورے کے ہر پہلو پر خود محنت کریں۔ وزارت خارجہ کے بابوو¿ں کے علاوہ بھی وزیراعظم عمران خان پرائیویٹ سیکٹر سے ان لوگوں کو بھی ”آن بورڈ“ کریں کہ جن کا چین میں احترام اور اثر ہے، تاجر اور کاروباری برادری سے بھی ایسے نمایاں حضرات کو چین لے جانے کا بندوبست کریں کہ جن کی وہاں پر ساکھ ہے، یہ لوگ اپنے خرچے سے بھی آپ کیلئے جاسکتے ہیں، اپنے دورے میں چینی حکام کو یقین دلائیں کہ پاکستان میں کام کرنے والے چینیوں کو پولیس تنگ نہیں کریگی اور چین میں پاکستان کا سفارتخانہ دوستانہ رویہ اختیار کریگا، ہمارے پیارے نبی پاک کا ارشاد گرامی ہے کہ ” علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین جانا پڑے“ ارے بابا اب تو چینی آپ کی چوکھٹ پر چلے آئے ہیں، ایسا وقت ملکوں کی تاریخ میں بار بار نہیں آتا ، بخت اور خوش قسمتی آپ کے دروازے پر دستک دے رہی ہے ، وقت سے فائدہ اٹھاو¿ اور یاد رکھو کہ جو بھی یہاں سرمایہ کاری کریگا وہ سب سے پہلے حکومت کا استحکام دیکھے گا، چنانچہ پاکستان سے سرمایہ کاری کیلئے سازگار ماحول فراہم کرو، سرمایہ کاروں کو ون ونڈوکی سہولت دو کہ جس کا آپ نے اعلان کیا ہے ، تاکہ باہر سے آنیوالا اداروں کے درمیان فٹ بال بن کر رلتا نہ پھرے اور کوئی اسکا والی وارث نہ ہو، لوڈشیڈنگ ختم کراو¿، مقامی سطح پر لیبر کو اعلیٰ و معیاری ٹریننگ دو اور لیبر کا پورا ڈیٹا تیار رکھو، ان کو کم وقت میں معیاری کام کرنے کی تربیت دو، جیسا کہ چین میں ہوتا ہے ، یہاں وزارت مواصلات نے چینی کمپنیوں کے 50ارب روپے روک لئے ہیں ، ان کے کام چیک کرواو¿ تاکہ ادائیگیاں ہوں، ایسے معاملے کو نبٹا کر جاو¿ تاکہ وہاں شرمندگی نہ ہو، سی پیک منصوبوں کی وجہ سے بہت سے چینی شہری پاکستان میں ٹیکنیکل کاموں کیلئے آگئے ہیں اور پاکستان سے ہزاروں نوجوان امریکہ اور یورپ جانے کی بجائے اب چین کا رخ کررہے ہیں ، لامحالہ جب دو قوموں کے درمیان اس بڑے پیمانے پر رابطے ہونگے تو مسائل بھی پیدا ہونگے، اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے ، اس دورے میں عمران خان کی کامیابی نظر آرہی ہے ، عمران خان کیلئے موقع ہے کہ وہ عالمی سطح پر ایک لیڈر کے طور پر ابھریں۔
(بشکریہ:روزنامہ خبریں)
فیس بک کمینٹ