جان کی امان پاتے ہوئے دست بستہ عرض کروں گا کہ احتساب کیجئے۔ ٹھوک بجاکر کیجئے۔ ’’سندھ سے آئی چیخوں‘‘ کا مگر فاتحانہ انداز میں ذکر نہ کریں۔ ’’سندھ سے آئی چیخوں‘‘ کا اس انداز میں ذکر ہو تو تاثر وہاں کی حکمران جماعت کے احتساب تک محدود نہیں رہتا۔ خرم شیر زمان جیسے تحریک انصاف کے رہنمائوں کی جانب سے مسلسل لگائی بڑھکوں کی بدولت اس صوبے کو بلکہ فتح کرنے کی خواہش کا اظہار ہوتا ہے۔
سندھ کو ’’گڈ گورننس‘‘ مہیا کرنے کے عمل کا آغاز 1990ء میں ہوا تھا۔ ہمارے ایک بہت ہی جہاں دیدہ اور افسر شاہی کے غرور اور تمکنت کی حتمی علامت غلام اسحاق خان نے اس عمل کا آغاز کیا۔ سندھ کے ایک جدی پشتی وڈیرے، جام صادق علی، ان کے اس ضمن میں اہم ترین آلہ کار تھے۔ ریاستی جبر کے بھرپور استعمال کے ذریعے انہوں نے پیپلز پارٹی کو توڑنا چاہا۔ اپنی تمام تر مہارت کے باوجود ناکام رہے۔ 1998ء میں وفاق اور پنجاب میں دو تہائی والے ’’ہیوی مینڈیٹ‘‘ کے ساتھ حکومت کرنے والے نواز شریف نے بھی حکیم سعید کے قتل کے بعد سندھ میں گورنر راج لگاکر اس صوبے میں ’’گڈگورننس‘‘ متعارف کروانے کی کوشش کی تھی۔ ناکام رہے۔ پیپلز پارٹی کو سندھ میں اقتدار سے باہر رکھ کر وہاں ’’گڈگورننس‘‘ قائم کرنے کی ہر کوشش ناکام ہوئی۔ جنرل مشرف اپنے دس برسوں میں بھی یہ ہدف حاصل نہ کر پائے۔ سویلین حکومتوں نے اپنے تئیں جب بھی سندھ میں حکومتیں بدلیں تو چند ہی ماہ بعد خود بھی فارغ ہوگئیں۔ جولائی 2018ء کے انتخابات کے نتائج کا سندھ میں احترام نہ ہوا تو تحریک انصاف کی وفاق اور پنجاب میں قائم حکومتیں بھی اپنی آئینی مدت پوری نہیں کر پائیں گی۔ جعلی اکائونٹس کا سراغ لگانے کے لئے تحریک انصاف نے نہیں سپریم کورٹ نے ایک JIT بنائی تھی۔ اس JIT نے یقیناً نظر آنے کی حد تک ایک دھانسو رپورٹ تیار کی ہے۔ اس کی روشنی میں سپریم کورٹ اگر مناسب سمجھے تو آصف علی زرداری کی گرفتاری کا حکم دے سکتی ہے۔ نیب کی وساطت سے سابق صدر کے علاوہ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کے خلاف بھی احتسابی عمل کا آغاز ہو سکتا ہے۔ اس عمل کو منطقی انجام تک پہنچنے کا انتظار کرنا ہوگا۔ پانامہ دستاویزات کے منکشف ہو جانے کے بعد نواز شریف نے وزارتِ عظمیٰ سے استعفیٰ نہیں دیا تھا۔ تیسری بار منتخب ہوا وزیر اعظم بلکہ اپنے ’’ماتحتوں‘‘ پر مشتمل JIT کے سامنے پیش ہوتا رہا۔ یہ پیشیاں کارگر ثابت نہ ہوئیں۔ سیاست میں حصہ لینے کے لئے تاحیات نااہل ہوگئے۔ اس نااہلی کے باوجود نواز شریف کے نام سے منسوب جماعت کی وفاق اور پنجاب میں حکومتیں برقرار رہیں۔ شہباز شریف آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے بہت ہی بااختیار وزیراعلیٰ شمار ہوتے تھے۔ اس کے باوجود اپنے ایک چہیتے افسر، احد چیمہ کو نیب کے ہاتھوں گرفتاری سے بچا نہیں پائے۔ 2015ء میں سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ بھی ڈاکٹر عاصم کی مدد نہیں کر پائے تھے۔ مراد علی شاہ اگر احتساب کی زد میں آگئے تو پریشان رہیں گے۔ فرض کیا کہ ایک شفاف اور ہر حوالے سے محض قانونی دِکھتے احتسابی عمل کے ذریعے مراد علی شاہ وزارتِ اعلیٰ پر فائز رہنے کے قابل نہیں رہتے تو پیپلز پارٹی ہی کو اپنی صفوں سے ان کا متبادل فراہم کرنا ہوگا۔ پیپلز پارٹی میں نقب لگا کر بنائے ’’فارورڈ بلاک‘‘ کو تحریک انصاف کی جانب سے لگائے کسی وزیر اعلیٰ کا سہولت کار بنانے کی خواہش ’’سندھ کارڈ‘‘ کے مؤثر ترین احیاء کو روک نہیں پائے گی۔ ماضی میں یہ کارڈ اس لئے مؤثر ثابت نہیں ہوا کیونکہ نام نہاد ’’شہری سندھ‘‘ مکمل طور پر ایم کیو ایم کو سرنڈرکر دیا تھا۔ ایم کیو ایم کی چاپلوسی میں آصف علی زرداری بھی اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں مشغول و مصروف رہے تھے ایم کیو ایم کو ’’شہری سندھ‘‘ کا حتمی مختار بنانے کے نتائج بالآخر 2016ء میں دیکھنے کو ملے۔ یہ جماعت اب متحارب گروہوں میں بٹ چکی ہے۔ مصطفیٰ کمال نے اس کا متبادل فراہم کرنے کی کوشش کی تھی۔ ناکام رہے۔ تحریک انصاف نے 2018ء کے انتخابات میں اس کی چھوڑی Space کا خاطر خواہ فائدہ اٹھایا۔ بلدیات کے حال ہی میں ہوئے ضمنی انتخابات نے مگر یہ دکھایا ہے کہ تحریک انصاف کی 28جولائی کے روز دکھائی کارکردگی One Time Fluke تھا۔ اس کی Grass Roots میں گہرائی اور گیرائی موجود نہیں ہے۔ تحریک انصاف کے پاس ’’دیہی سندھ‘‘ میں کوئی جام صادق علی نہیں ہے۔ ذوالفقار مرزا پر تکیہ کیا تو ’’شہری سندھ‘‘ بھڑک اُٹھے گا جہاں علی رضا عابدی کے اندوہناک قتل نے غوروفکر کی ایک نئی لہر چلا دی ہے۔ لیاقت جتوئی نواز شریف کی بھی مدد نہیں کر پائے تھے۔پیپلز پارٹی میں نقب لگا کر بنائے ’’فارورڈ بلاک‘‘ کے ہوتے ہوئے بھی تحریک انصاف کو پیرپگاڑا کی GDA سے رجوع کرنا ہو گا۔ کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑا سے بنائی حکومت ’’گڈگورننس‘‘ کے قیام کے لئے عمران خان صاحب کے ’’وژن‘‘ پر انحصار نہیں کرے گی۔ اسے استحکام کے لئے کسی اور کے سہارے کی ضرورت ہوگی۔ اس کے بعد تحریک انصاف والے دُکھ جھیلیں بی فاختہ… والا واویلا مچاتے نظر آئیں گے۔ مناسب یہی ہے کہ پیپلز پارٹی کو سندھ میں 25 جولائی 2018کے دن ملے مینڈیٹ کا احترام کیا جائے۔ سپریم کورٹ کو اپنا کام کرنے دیں۔نیب کی ’’خودمختاری‘‘ کو متحرک ہوتا دکھائیں۔ ’’سندھ سے آئی چیخوں‘‘ سے لطف نہ اٹھائیں۔اقتدار کے کیک میں جوگرانقدر حصہ ملا ہے اس سے فی الوقت فائدہ اٹھائیں۔ مزید کی حرص نہ کریں۔ ورنہ آپ کا ’’مینڈیٹ‘‘ بھی بے وقعت ہو جائے گا۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت