تیل اور گیس کے وزیر غلام سرورخان سے مناسب دعا سلام رہی ہے۔ کچھ مشترکہ دوستوں کی وساطت سے چند آف دی ریکارڈ ملاقاتوں کا موقع بھی ملا۔ 1980کی دہائی سے وہ چودھری نثار علی خان کے بہت تگڑے ”شریک“ رہے ہیں۔ انتخابی سیاست کی حرکیات کو سمجھنے کی کوشش میں اکثر ان کی وجہ سے یہ جاننے میں کافی آسانی رہی کہ ہمارے قصبات کی روایتی دھڑے بندی اور ڈیرہ داری کسی سیاست دان کے عروج وزوال میں کیا کردار ادا کرتی ہے۔غلام سرور خان صاحب پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر مشرف کے زمانے میں گجرات کے چودھریوں کی مسلم لیگ میں چلے گئے تھے۔ اب کئی برسوں سے تحریک انصاف کے ہوچکے ہیں۔ چودھری نثار علی خان کو اپنے اور ان کے آبائی حلقے (ٹیکسلا) سے فارغ کروانے کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کے لئے بہت ہی ”سیف“ تصور کی جاتی راولپنڈی سے قومی اسمبلی کی ایک نشست بھی اب ان کے پاس ہے۔ شاید اسی باعث کپتان نے انہیں وزارتِ تیل وگیس دی ہے جو کئی برسوں تک چودھری نثار علی خان کے لئے مختص تصور کی جاتی تھی۔مجھے یہ گماں تھا کہ اس وزارت کو چلاتے ہوئے وہ تحریک انصاف اور خود کو ”عوام دوست“ ثابت کرنے میں دن رات ایک کردیں گے۔ یہ وزارت مگر اس حکومت کے بارے میں اداسی اور مایوسی پھیلانے کا اہم ترین سبب بن رہی ہے۔ مزید دکھ یہ دیکھتے ہوئے بھی ہورہا ہے کہ خلقِ خدا کو اداس اور مایوس کرنے کی وجہ سے معذرت خواہی کے بجائے انتہائی ڈھٹائی سے ”روٹی نہیں تو کیک کھاﺅ“ والے سفاک مشورے دئیے جارہے ہیں۔ناقابلِ برداشت سردی کے اس موسم میں گیزر کو ”ضرورت نہیں لگڑری“ قرار دیا جارہا ہے۔ ”حکیمانہ تجویز“ یہ بھی ہے کہ نہانا ضروری تصور کریں تو پانی کو چولہے پر گرم کریں۔
غلام سرور خان صاحب کو شاید یہ خبر نہیں کہ گیزر کو صرف نہانے کے لئے استعمال نہیںکیا جاتا۔ اس موسم میں گرم پانی گھروں کے کپڑے دھونے کے لئے بھی درکار ہے۔ کھانے کے برتنوں کی چکنائی ٹھنڈے پانی سے صاف نہیں ہوتی اور آج کے دور میں جو برتن استعمال ہوتے ہیں انہیں راکھ یا ریت سے رگڑکر صاف کرنے کی کوشش کریں تو قابلِ استعمال نہیں رہیں گے۔ گیزر لہذا ”لگڑری“ نہیں ایک ”ضرورت“ ہے جو زندگی میں آسانیاں فراہم کرتا ہے اور غالب نے کہا تھا کہ ا نسان مرنے سے نہیں بلکہ ”فقدانِ راحت“ سے گھبراجاتے ہیں۔غلام سرور کی وزارت نے اس مہینے خلقِ خدا کو یقینا پریشان کردیا ہے۔کسی اور کے ذکر کے بجائے ذاتی زندگی سے آغاز کرتا ہوں۔ میں اور میری بیوی دونوں کام کرکے گھر چلاتے ہیں۔ بجلی اور گیس کے بلوں میں اضافے سے آج تک پریشان نہیں ہوئے۔ ہم دونوں کی مشترکہ آمدنی میں لیکن گزشتہ دومہینوں میں 60فی صد کمی واقع ہوچکی ہے۔ اس کے باوجود کئی ٹھوس جوہات کی بناءپر بے کسی و بے بسی کا احساس نہیں ہوا۔ ”کسی نہ کسی طرح گزارہ ہوجائے گا“ والے اعتماد کے ساتھ تھوڑی ا?سانی سے زندگی بسر کرنے کا اعتماد ابھی تک باقی ہے۔
اس مہینے مگر جب گیس کا بل آیا تو میری بیوی بلبلااٹھی۔ ہمارے گھر میں گزشتہ کئی برسوں سے گیس کے بل کی جو اوسط چل رہی تھی اس سے چار گنا زیادہ بل آیا۔ میری بیوی کو یقین تھا کہ میٹرریڈنگ میں کوئی غلطی ہوگئی ہے۔ زندگی میں پہلی بار اس کے دئے بل کو جیب میں ڈال کر گیس والوں کے دفتر کو روانہ ہوگیا۔وہاں پہنچا تو خداجھوٹ نہ بلوائے تو 150کے قریب لوگوں کا ہجوم نظر آیا۔ مجھے دیکھتے ہی ان میں سے اکثر یہ سمجھے کہ شاید صحافی ہونے کے ناطے میں ان کے د±کھ کو سمجھنے اور رپورٹ کرنے آیا ہوں۔ ہر شخص کو اپنا بل ”غلط“ محسوس ہورہا تھا۔ میں شرمندہ ہوکر وہاں سے کھسک لیا۔ سمجھ آگئی کہ اب ویسا ہی بل آیا کرے گا جو اس ماہ ہمیں وصول ہوا ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت کا مگر اصرار ہے کہ ”گھریلو صارفین“ کے گیس کے بلوں میں ناقابلِ برداشت اضافہ نہیں ہوا ہے۔ ویسے بھی فقط ”26فیصد پاکستانیوں“ کوپائپ لائن کے ذریعے فراہم کردہ گیس پر تکیہ کرنا پڑتا ہے۔ اکثریت سلنڈر استعمال کرتی ہے اور اس کی قیمت مناسب ہے۔”صرف 26فیصد “ کی گردان کرتے ہوئے تحریک انصاف کے وزراءبڑی رعونت سے یہ حقیقت نظرانداز کرتے ہیں کہ اس ”26فی صد“ کی اکثریت نے کم از کم پوٹھوہار کے شہروں میں ان کی جماعت کو ووٹ دیا تھا۔ یہ ووٹ دیتے ہوئے انہیں یقین تھا کہ عمران خان ”لوٹی ہوئی دولت“ قومی خزانے میں واپس لائیں گے۔ وہ دولت واپس آگئی۔ کرپشن ختم ہوگئی تو گیس کی قیمتوں میں کمی نہ سہی اضافہ تو ہرگز نہیں ہوگا۔ گیس کے بلوں میں معمول سے تین سے چار گناہ اضافے نے یقینا انہیںحواس باختہ کردیا ہے۔اس اضافے کی وجہ یہ بھی بتائی جارہی ہے کہ تقریباََ50ارب کی گیس ”چوری“ ہورہی ہے یا سپلائی کے ناقص انتظام کے باعث "Line Losses"ہورہے ہیں۔ چوری اور دیگر وجوہات کے باعث ہوئے "Losses"کا بوجھ مگر انہیں صارفین کے ذمہ ڈال دیا گیا ہے جو عادتاََ اپنے گیس کے بل باقاعدگی سے ادا کرتے رہے ہیں۔ روزمرہّ زندگی میں عادتاََ اپنائی دیانت داری تنخواہ دار طبقے کا جرم شمار ہوتی نظر آرہی ہے جس کا ”جرمانہ“ گیس کی قیمتوں میں اضافے کی صورت ادا کرنا پڑرہا ہے۔تحریک انصاف کے رہ نماﺅں کو جانے کیوں احساس نہیں ہورہا کہ خلقِ خدا ووٹ سے قائم ہوئی حکومتوں سے مسلسل خیر کی توقع رکھتی ہے۔ یہ امید باندھی جاتی ہے کہ وہ مستقلاََ کوئی نہ کوئی Feel Good Factorپیدا کرنے کی لگن میں جتی رہیں گی۔
Feel Good Factorکے تناظر میں اہم ترین بات یہ ہوتی ہے کہ خلقِ خدا کی اکثریت اس گماں میں رہے کہ ان کے معیار زندگی میں اگر بہتری نہیں آرہی تو کم از کم گراوٹ کے امکانات نہیں۔ نسبتاََ مطمئن درمیانی طبقے کے افراد کو یہ فکر لاحق نہ ہو کہ وہ فرض کیا ایک سے دس کے سکیل پر اگر فی الوقت پانچویں یا چھٹے مقام پر ہیں تو اس سے پھسل کر چوتھے پا پانچویں مقام کی طرف نہیں لڑھک رہے۔ چوتھے یا پانچویں مقام پر بھی ٹکے رہنے کی امید باقی نہ رہے تو دلوں میں خوف جاگزیں ہوجاتا ہے۔ یہ خوف بالآخر بے پناہ غصہ کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ اس غصے کی شدت کو سنبھالنے کے لئے اس کالم میں اکثر میں فرانس میں جاری ”پیلی جیکٹوں والوں“ کی تحریک کا ذکر کرتا ہوں۔ گیس کی قیمتوں میں ہوئے حالیہ اضافے نے ایک بار پھر اسے یاد کرنے کو مجبور کرڈالا ہے۔
”گھریلو صارفین“ اور ”26فی صد“ کے دلوں میں گہری ہوتی اداسی اور پریشانی کو لیکن تحریک انصاف کے وزراءمحسوس نہیں کر پارہے۔گیزر کو ”لگڑری“ ٹھہراتے ہوئے ہمیں پتیلوں میں پانی بھر کر چولہے پر گرم کرکے بالٹیوں میں ڈال کر نہانے کے مشورے دے رہے ہیں۔
ایسے مشورے مگر نام نہاد ”ایکسپورٹرز“ کے اس مخصوص گروہ کو ہرگز نہیں دئیے جارہے جن کی خواہش پر پاکستانی روپے کی قدر کو ڈالر کے مقابلے میں یکسر بہت بڑا جھٹکا دیا گیا۔ دعویٰ یہ ہوا کہ روپے کی قدرکم ہونے سے ہماری برآمدات میں بے پناہ اضافہ ہوگا۔برآمدات بڑھیں گی تو لوگوں کے نہ صرف روزگار محفوظ رہیں گے بلکہ ان میں خاطر خواہ اضافہ بھی ہوگا۔ رونق لگ جائے گی۔
پاکستانی روپے کی قدرکم ہوجانے کے باوجود برآمدات میں خاص اضافہ نہیں ہوا ہے۔تحریک انصاف کے چہیتے ”ایکسپورٹرز“ کی آسانی کے لئے حال ہی میں لہذا اس حکومت نے ایک مالی سال کا تیسرا بجٹ دیا۔ ”گھریلو صارفین“ کے مقابلے میں اس کے ذریعے انہیں قابلِ قدر رعائتیں دی گئی ہیں۔ ریاست کی جانب سے عطا ہوئی ایسی رعائتوں کے بنیادی حق دار تنخواہ دار ”گھریلو صارف“ ہوا کرتے ہیں۔تحریک انصاف کی حکومت نے مگر گنگا کو الٹا بہانا شروع کردیا ہے۔ربّ کریم سے فریاد ہے کہ اس کے وزراءکے دلوں میں تھوڑا رحم ڈال دے۔
(بشکریہ:روز نامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ