اسد عمر اور ان کے ساتھی آئی ایم ایف کو نظرانداز کرتے ہوئے پاکستان کی معیشت میں رونق لگانے کے لئے کوئی دیرپا اور معقول منصوبہ نہ سوچ پائے۔ برادر اور دوست ممالک کے فراہم کردہ سہارے بھی اسے کھڑا نہ کر پائے۔ بالآخر کابینہ سے فارغ ہوئے۔ اسد عمر کی جگہ اب ڈاکٹر حفیظ شیخ کو تعینات کر دیا گیا ہے۔ تعلق ان کا تاحیات ورلڈ بینک سے رہا ہے۔ وقتاََ فوقتاََ پاکستانی معیشت کو ’’بہتر‘‘ بنانے کے لئے جنرل مشرف اور آصف علی زرداری کے زیر سایہ بنی حکومتوں کو بھی ان کی صلاحیتوں سے رجوع کرنا پڑا تھا۔ انہوں نے مسائل حل کر دئیے ہوتے تو عمران خان کی حکومت کو ’’تبدیلی‘‘ لانے کے لئے ان ہی سے ایک بار پھر رجوع کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی۔ شیخ صاحب کا ذکر چلا ہے تو ایک ’’حقیقہ‘‘ یاد آگیا۔1988ء کے انتخابات کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھاچکی تھیں۔ ایک دوست ملک کا ’’قومی دن‘‘ تھا۔ اس دن کی مناسبت سے مذکورہ ملک نے ایک بہت بڑی تقریب کا اہتمام اپنے سفارت خانے میں کررکھا تھا۔ میں اس تقریب میں شرکت کے لئے بارونق ہال سے گزرتا ہوا ایک وسیع وعریض لان میں پہنچا تو ایک کونے میں ڈاکٹر محبوب الحق کھڑے ہوئے تھے۔ مرحوم جنرل ضیاء کے وزیر خزانہ رہے تھے۔ 1988ء کے انتخابات سے چند ہی ہفتے قبل ا نہوں نے IMFسے پاکستان کے لئے ایک Bailout Packageحاصل کیا تھا۔ محترمہ کو اس Packageپر ہر صورت عمل درآمد کی یقین دہانیوں کے بعد اقتدار سونپا گیا تھا۔ اپنے وعدے پر عمل کو یقینی بنانے کیلئے انہوں نے حال ہی میں وزارتِ خزانہ کے ریٹائر ہوئے سیکرٹری -وسیم جعفری-کو اپنا مشیر برائے خزانہ مقرر کیا۔ وزارتِ خزانہ اپنے پاس رکھی۔ جعفری صاحب بھی ڈاکٹر صاحب کے ہمراہ کھڑے تھے۔ میں ان دونوں کے پاس جاکر ان سے گفتگو میں مصروف ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد محترمہ بے نظیر بھٹو اس لان میں تشریف لائیں۔ ہم تینوں کو ایک کونے میں کھڑے دیکھا تو لپک کر ہماری طرف بڑھیں۔ ڈاکٹر صاحب نے بہت گرم جوشی سے انہیں ’’خوش آمدید‘‘ کہا اور اپنے ساتھ کھڑے وسیم جعفری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انگریزی میں جو فقرے ادا کئے ان کا اُردو میں ترجمہ یوں ہوسکتا ہے: ’’محترمہ وزیراعظم صاحبہ یہ وسیم اے جعفری ہیں۔ پاکستانی معیشت کو تباہ کرنے کے لئے انہوں نے کئی برسوں تک میری معاونت کی ہے۔ ان دنوں اُسی معیشت کو سنوارنے کے لئے دل وجان سے آپ کی معاونت پر مامور ہیں۔‘‘ فقرہ اتنا کاٹ دار تھا کہ محترمہ جیسی فطین خاتون بھی فوراََ جواب نہ دے پائیں انہوں نے توجہ میری جانب مبذول کرتے ہوئے میرے انگریزی زبان میں لکھے ایک کالم کا حوالہ دیتے ہوئے وضاحتیں شروع کردیں۔اس قصے کو دہرانا آپ کو یاد دلانے کے لئے ضروری سمجھا کہ ڈاکٹر حفیظ شیخ صاحب اسی معیشت کو ’’سنوارنے‘‘ آئے ہیں جس کے بگاڑ کی بنیاد جنرل مشرف کے دنوں میں رکھ دی گئی تھی۔وہ ان کے زیر سایہ بنی حکومت کا کئی برس تک حصہ رہے۔ بعدازاں اسی معیشت کو مزید ’’بگاڑنے‘‘ کے لئے انہوں نے آصف علی زرداری کے ساتھ بطور وزیر خزانہ تین برس تک کام کیا۔عمران خان صاحب نے انہیں تعینات کرتے ہوئے اپنے دیرینہ ساتھی اور اسد عمر کو قربان کرنے کے ذریعے ’’تم ہی نے درد دیا ہے۔تم ہی شفا دینا‘‘ والا پیغام دیا ہے۔ڈاکٹر حفیظ شیخ صاحب مگر اکیلے طبیب نہیں جو ہمیں ’’شفا‘‘ بخشنے نمودار ہوئے ہیں۔ ان کی معاونت کے لئے اب ڈاکٹر رضا باقر صاحب کو بھی سٹیٹ بینک آف پاکستان کا گورنر مقرر کر دیا گیا ہے۔ باقر صاحب IMFکے باقاعدہ ملازم رہے ہیں۔ اپنے وطن لوٹ کر اس کی خدمت پر تعینات ہونے سے چند ہی گھنٹے قبل تک وہ مصر میں IMFکے مدارالمہام تھے۔ مصر نے بھی اپنی تباہ ہوئی معیشت کو بحال کرنے کے لئے 2016ء میں IMFسے ایک تین سالہ معاہدہ کرنے کے بعد ایک گراں قدر بیل آئوٹ پیکیج لیا تھا۔ اس پر عملدرآمد کو یقینی بنانا ڈاکٹر باقر کی ذمہ داری تھی۔ اس بیل آؤٹ پیکیج کے نفاذ سے قبل ایک امریکی ڈالر کے بدلے سات مصری پاؤنڈ ملا کرتے تھے۔ ان دنوں اس کے عوض 17پاؤنڈ ملتے ہیں۔ روٹی کی قیمت مصر میں دگنی ہو چکی ہے۔ گیس کے نرخ اتنے بڑھے جیسے ہمارے ہاں جنوری، فروری اور مارچ کے بلوں میں نظر آئے تھے۔ لوگ بلبلا اُٹھے تو یہ اضافہ واپس لینا پڑا۔ امید دلائی گئی تھی کہ مصری پائونڈ کی قیمت کو ڈالر کے مقابلے میں ’’معقول اور حقیقت پسندانہ‘‘ بنا دیا گیا تو مصر کی بنائی برآمدات سے رونق لگ جاے گی۔ ایسا مگر ہوا نہیں۔ مصری برآمدات کا عالم پتلا ہی رہا۔ مصر کے عوام مگر کسی نہ کسی طرح گزارہ کر رہے ہیں کیونکہ سیاحوں کی ایک بہت بڑی تعداد ان دنوں بھی فرعونوں کے بنائے احرام دیکھنے وہاں آتی رہتی ہے۔ اسرائیل کے ساتھ ’’امن‘‘ برقرار رکھنے کے عوض امریکہ مصری حکومت کو مالی مدد فراہم کرتا رہتا ہے۔ سعودی عرب بھی وافر رقوم فراہم کر دیتا ہے۔ ان رقوم کی وجہ سے ’’اخوان المسلمین‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی جماعت تقریباََ مردہ ہو چکی ہے۔ سعودی عرب کا الزام ہے کہ قطر اس جماعت کی پشت پناہی کے ذریعے مصر میں نام نہاد ’’عرب بہار‘‘ کا احیاء چاہ رہا ہے۔ اس کے خیال میں عرب ممالک میں یہ ’’بہار‘‘ انتشار و خلفشار پھیلاتی ہے۔ ڈاکٹر رضا باقر کا مصر کے لئے تیار کردہ نسخہ لہذا من وعن استعمال ہوتا رہا۔ سنا ہے اس کی بدولت ’’مریض‘‘ یعنی مصری معیشت اب ICUسے باہر نکل آئی ہے۔ مریض مگر کامل شفا پاکر دوڑنے کے قابل نہیں ہوا۔اسد عمر کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے بھی اپنے تئیں پاکستانی معیشت کو ICUسے باہر نکال لیا تھا۔ دیکھنا ہوگا کہ رضا باقر کے نسخے اسے چلنے پھرنے کے قابل بناتے ہیں یا نہیں۔ پاکستانی روپے کی قدر بھی امریکی ڈالر کے مقابلے میں اسد عمر کے زیر نگرانی ’’معقول اور حقیقت پسندانہ‘‘ ہوگئی تھی۔ برآمدات اس کی وجہ سے پاکستان کی مگر اب تک تقریباََ اُسی سطح پر کھڑی ہیں جہاں روپے کی قدر گرنے سے قبل تھیں۔ مجھے خبر نہیں کہ رضا صاحب اس قدر کو مزید ’’معقول اور حقیقت پسندانہ‘‘ بنانا لازم تصور کرتے ہیں یا نہیں۔بہرحال جو بھی فیصلہ ہوگا وہ ڈاکٹر حفیظ شیخ اور ڈاکٹر رضا باقر کریں گے۔ وہ ٹیکنوکریٹ ہیں۔دونوں کو ووٹ مانگنے کی ضرورت نہیں۔’’ پروفیشنل‘‘ لوگ ہیں۔ سماجی میل ملاقاتوں میں وقت ضائع نہیں کرتے۔ وقت مل جائے تو خود کو فٹ رکھنے کے لئے اپنے ہی گھر میں بنائے جم میں چلے جاتے ہیں۔ہوا خوری کو جی چاہیے تو گالف کلب میں وقت گزاری۔ ان کی بنائی پالیسیوں کا دفاع مگر قومی اسمبلی اور سینٹ میں مراد سعید جیسے جواں سال وفاداروں کو دل وجان سے کرنا ہوگا۔عمر ایوب بھی اس ضمن میں اب کافی متحرک ہوچکے ہیں۔یہ دونوں جہاں ’’کمزور‘‘ نظر آئیں وہاں راولپنڈی کے بقراطِ عصر ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کے خلاف ایک ایمان افروز خطاب فرمادیں گے۔ میڈیا میں رونق لگی رہے گی۔ شاید کبھی بازار اور منڈی میں بھی نظر آجائے۔
(بشکریہ:روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ