عمران خان بطور وزیر اعظم انتہائی عجلت میں ہیں لیکن 22 کروڑ آبادی کے ایک ایسے ملک میں جہاں وسائل محدود اور بدعنوانی عروج پر ہو، سب کچھ اکھاڑ کر ’نیا پاکستان ‘ تعمیر کرنے سے مزید خرابیوں کے آثار نمایاں ہونے لگے ہیں۔ یوں تو وزیر اعظم ہر دوسرے تیسرے دن کسی نئے تعمیراتی منصوبہ کا افتتاح کرکے اعلان کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ وہ پانچ برس کی مدت میں 50 لاکھ گھر تعمیر کرنے کا وعدہ پورا کرکے رہیں گے۔ لیکن اس وعدہ کی تکمیل کے لئے درکار وسائل کی دستیابی کا اہتمام ہونے میں دقت پیش آرہی ہے۔
اسی مشکل کی وجہ سے عجلت میں اپنی ہی پارٹی کے وفادار اور ذہین ترین کہے جانے والے اسد عمر کو وزارت خزانہ سے ایک ایسے وقت میں فارغ کیا گیا جب وہ آئی ایم ایف سے مالیاتی پیکیج کے کامیاب مذاکرات کے بعد نیویارک سے وطن واپس پہنچے تھے۔ اب اس مایوس ساتھی کو راضی کرنے کے لئے اسے کابینہ میں واپس لانے کی کوششیں ہورہی ہیں اور عمران خان خود یہ اعلان کرچکے ہیں کہ اسد عمر جلد ہی دوبارہ کابینہ کا حصہ بن جائیں گے۔ البتہ وزیر اعظم کو سوچنا چاہئے کہ جو شخص وزیر خزانہ کے طور پر ’کامیاب‘ نہیں ہؤا جو اس کا شعبہ تھا اور جس کام کو کرنے کے لئے تحریک انصاف کم از کم پانچ برس سے انہیں تیار کرتی رہی تھی تو وہ کسی دوسری وزارت میں کیا کارکردگی دکھا سکیں گے۔ ایک طرف یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ٹیم کا کپتان صرف کارکردگی دینے والوں کو ساتھ لے کر چلے گا۔ کپتان عمران خان کا واحد مقصد پاکستان کو کامیاب کروانا ہے۔ پھر ایک ’ناکام‘ وزیر کو کسی دوسری وزارت میں فٹ کرکے سیاسی مقصد تو حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن اس سے اہلیت و صلاحیت کے اصول کی بالادستی ممکن نہیں ہے۔
اسد عمر کی کابینہ میں واپسی سے یہ تاثر بھی قوی ہو جائے گا کہ عمران خان سوچے سمجھے بغیر فیصلے کرتے ہیں اور پھر ان سے ہونے والے نقصان سے نمٹنے کے لئے مزید غلطیاں کرتے ہیں۔ حکومت کی فنانشل ٹیم تبدیل کرنے کے لئے کئے جانے والے سارے اقدامات اس رویہ کا منہ بولتا ثبوت دکھائی دیتے ہیں۔ نہ اس بات کا جائزہ لیا گیا کہ کسی شخص کو کیوں اور کن وجوہ کی بنا پر اس کے عہدہ سے ہٹایا جائے اور نہ ہی نئے لئے جانے والے لوگوں کے بارے میں سو فیصد اطمینان کیا گیا کہ وہ ان اہداف کو پورا کرلیں گے جو ان کے پیشرو حاصل نہیں کرسکے۔ عام طور سے یہی قیاس کیا جاتا ہے کہ اسد عمر کو مارکیٹ میں بے چینی اور سرمایہ داروں کی تشویش کے سبب ان کے عہدے سے ہٹایا گیا تھا تاکہ ملک کی معیشت کو اچانک لاحق ہونے والے تعطل سے نجات دلائی جا سکے۔ لیکن یہ فیصلہ کرتے وقت بھی پورا ہوم ورک کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔
پاکستانی معیشت کی بنیادی مشکلات اور خامیوں کو اسد عمر کی ناکامی قرار دینا ان کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ وہ اپنے کام میں سو فیصد کامیاب نہیں ہو سکے لیکن اس کی وجہ ان کی پیشہ وارانہ نااہلی سے زیادہ ملکی معاشی حالات کے بارے میں تحریک انصاف کے دعوے اور ملک کو درپیش مالی عوارض کے بارے میں تجویز کیا گیا حل تھا۔ اسد عمر نے وزیر خزانہ بننے کے باوجود ’تحریک انصاف‘ کا جیالا ہونے کا کردار ادا کرنے سے گریز کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اسی وجہ سے وہ ماضی میں وزارت خزانہ کے امید وارکے طور پر اعداد و شمار اور مالی معاملات کا جو غیرحقیقت پسندانہ تجزیہ پیش کرتے تھے، اس کی اصلاح کرنے میں ناکام رہے۔ بلکہ وہ پارٹی کے مقبول سیاسی سلوگن کو زندہ رکھنے کے لئے ماضی کی حکومتوں کومورد الزام ٹھہرانے کے علاوہ عالمی مالیاتی اداروں پر استحصال کرنے کا الزام عائد کرتے رہے۔ پھر انہی اداروں سے معاملات طے کرنے پر مجبور بھی ہوئے۔ اسد عمر کو اسی دوہرے کردار کی وجہ سے وزارت سے ہاتھ دھونا پڑے۔ عمران خان کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا اس کا سارا بوجھ اسد عمر پر ڈالا جاسکتا ہے یا وہ خود بھی اسی رویہ کو عام کرنے کا سبب بنے ہیں۔
اسد عمر کی علیحدگی کے حوالے سے متعدد افواہیں پاکستان میں موجود ہیں جس سے منتخب حکومت کی اتھارٹی چیلنج ہوتی ہے لیکن وزیر اعظم نے ان افواہوں کا راستہ بند کرنے کے لیے قومی اسمبلی میں جا کر اپنی پوزیشن واضح کرنے اور اپنے فیصلوں کی دلیل دینے کی بجائے گزشتہ دنوں ’قومی اسمبلی میں بیٹھنے کو ہی ’باعث شرمندگی‘ قرار دیا۔ اس طرح دراصل وہ اپنی جمہوری استعداد اور سند کو مشکوک بنانے کا باعث بنے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ اب انہوں نے فرمایا ہے کہ وہ اپنی کابینہ میں زیادہ غیر منتخب لوگوں کو شامل کریں گے تاکہ ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔ سوال کیا جا سکتا ہے کہ 23 برس کی سیاسی جدوجہد اور گزشتہ چند برس میں پیشہ ور سیاسی مسافروں سے مفاہمت کے باوجود اگر وہ مختلف شعبوں کے ماہرین کو اپنے ساتھیوں میں شامل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے تو وہ کس منہ سے ملک پر حکومت کرنے اور عوام کی تقدیر بدلنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ یہ دعوے ماضی کی حکومتوں کو گالیاں اور ان کی بدعنوانی کو الزام دینے سے تو پورے نہیں ہو سکتے۔
اسد عمر کو تبدیل کرتے ہوئے جو غلطی کی گئی تھی، اس سے سبق سیکھنے کی بجائے اسٹیٹ بنک کے گورنر اور فیڈرل بورڈ آف ریوینو کے سربراہ کو اچانک تبدیل کرکے اس غلطی کو دہرایا گیا ہے۔ ایف بی آر کا سربراہ، حکومت اپنی مرضی سے تبدیل کرسکتی ہے لیکن اسٹیٹ بنک ایک خود مختار ادارہ ہے اور حکومت کے پاس اس کے گورنر کو ہٹانے کا اختیار نہیں ہے۔ گزشتہ سال کے آخر میں جب ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی شروع ہوئی تھی تو براہ راست تنقید سے بچنے کے لئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ ’انہیں بھی یہ خبر ٹیلی ویژن کی رپورٹ سے پتہ چلی۔ وہ اسٹیٹ بنک کی خود مختاری پر یقین کرتے ہیں اور اس کے فیصلوں پر اثرا انداز نہیں ہوتے‘۔ حیرت ہے وہی عمران خان اچانک اسی گورنر اسٹیٹ بنک سے استعفیٰ مانگتے ہوئے خود کو اس کی وضاحت دینے کا پابند بھی نہیں سمجھتے۔
طارق باجوہ نے میڈیا پر واضح کیا ہے کہ وہ حکومت سے کسی تنازعہ کو ملکی مفاد کے خلاف سمجھتے ہیں۔ اس لئے انہوں نے وزیر اعظم کی طرف سے استعفیٰ دینے کی درخواست کو قبول کرلیا اور عہدہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ تاہم ان دونوں عہدوں پر کام کرنے والے اعلیٰ افسروں کو ایک ایسے موقع پر اچانک تبدیل کیا گیا ہے جب وہ آئی ایم ایف کی پاکستان آئی ہوئی ٹیم کے ساتھ مالی پیکیج کی تفصیلات فائنل کرنے میں مصروف تھے۔ اس وقت ایسی ہائی پروفائل تبدیلیاں ان عہدیداروں کی نااہلی یا ناقص کارکردگی کی بجائے حکومت کی کوتاہ نظری پر دلالت کرتی ہے۔
حکومت نے آئی ایم ایف کے تجربہ کار مالی ماہر اور مصر میں اس کے نمائیندے ڈاکٹر رضا باقر کو گورنر اسٹیٹ بنک مقرر کیا ہے۔ امریکہ میں تعلیم پانے کے بعد ڈاکٹر باقر نے صرف غیر ملکی بنکوں اور مالی اداروں کے لئے کام کیا ہے۔ وہ پاکستان کے مالی معاملات اور سماجی معاشیات کے بارے میں عملی تجربہ نہیں رکھتے۔ ورلڈ بنک سے وابستہ رہنے کے بعد سے وہ 2000 سے آئی ایم ایف کے لئے کام کررہے ہیں۔ وہ انہی اصولوں اور مالی قاعدوں کو کسی بھی معیشت کو ٹھیک کرنے کے لئے تیر بہدف مانتے ہوں گے جنہیں پاکستان میں متعدد ماہرین، معاشی احیا کے کام میں رکاوٹ قرار دیتے ہیں۔ بیرونی مداخلت اور عالمی اداروں کی دست نگری سے ملک کو بچانے کی دعوے دار حکومت اب معیشت کو انہی اداروں کے تیار کردہ ماہرین کے سپرد کررہی ہے۔ ان اقدامات سے سماجی بہبود یا معاشی ارتقا کے نتائج حاصل کرنا ممکن نہیں ہو گا۔
پاکستان کی معیشت کو ذرائع آمدنی میں کمی جیسے سنگین مسئلہ کا سامنا ہے۔ اس کے لئے قومی پیداوار میں اضافہ اور عوام میں محاصل اور ٹیکس ادا کرنے کا شعور پیدا کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ لیکن حکومت اگر عوام کو سیاسی مقاصد کے لئے بدعنوانی اور سابقہ حکومتوں کی نااہلی کا چورن بیچتی رہے گی تو یہ شعور پیدا کرنے کا کام نہیں ہوسکے گا۔
پاکستان کی معیشت ایک بڑی آبادی کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔ اس کے علاوہ غیرمحفوظ سرحدوں کی وجہ سے اسے بڑی فوج کے مصارف برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ ان حقائق کو تسلیم کرنے اور عوام کو ان سچائیوں کو ماننے کے لئے تیارکرنا ہی معاشی احیا کے قومی منصوبے میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اس مقصد کے لئے عمران خان کو جذبات اور خود پسندی کے خول سے باہر نکل کر حقائق کا سامنا کرنا ہوگا۔ انہیں متلون مزاج اور جذباتی لیڈر کی بجائے بردبار اور متین رہنما کا کردار نبھانا چاہیے۔
عمران خان کو سمجھنا چاہئے کہ عجلت میں وزیر اور افسر تبدیل کرنے سے تبدیلی نہیں آئے گی۔ مستقل مزاجی اور گہرے غور و فکر سے کئے گئے غیر متعصب فیصلے ہی تبدیلی کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔
(بشکریہ:کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ