گزشتہ ہفتے کے آخری کالم میں آپ سے کیے وعدے کو نبھانے کے لیے میں نے اسرائیل کا پاکستان اور سعودی عرب کے مابین ہوئے دفاعی معاہدوں کے بارے میں موقف جاننے کی مسلسل کوشش کی ہے۔ وہاں کے جن سیاسی تبصرہ نگاروں کا میں سوشل میڈیا کی بدولت پیچھا کرتا ہوں مذکورہ معاہدے کی بابت مگر ’غافل‘ محسوس ہوئے۔ امریکی اور یورپی میڈیا کے چند نمایاں افراد اسرائیلی حکومت سے براہِ راست رابطوں کے باوجود پاک-سعودی معاہدے کے تناظر میں کوئی تبصرہ حاصل نہیں کرپائے ہیں۔ جو خاموشی دریافت ہوئی ہے یہ نتیجہ اخذ کرنے کو مجبور کررہی ہے کہ نیتن یاہو اس معاہدے کی بابت پہلے سے ’باخبر‘ تھا۔ہمارے ساتھ ہوئے معاہدے نے موصوف کو چونکایا ہی نہیں اور پریشان بھی نہیں کیا۔
یہ دعویٰ کرنے کی وجہ وہ کلمات ہیں جو اسرائیلی وزیر اعظم نے گزرے ہفتے کے آغاز میں پاک-سعودی معاہدہ برسرعام ہونے سے قبل دوبار ادا کیے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ کے اسرائیل میں قیام کے دوران اس نے قطر میں وہاں کی حکومت کی دعوت پر آئے حماس کے رہنماؤ ں کو میزائل بھیج کر شہید کرنے کا سینہ پھلاکر دفاع کیا۔ یہ کہتے ہوئے امریکا کو نائن الیون کے بعد افغانستان پر مسلط کردہ جنگ یاد دلانے کے علاوہ اس آپریشن کا بھی ذکر کیا جو امریکی کمانڈوز نے پاکستان کی فضاؤ ں میں گھس آنے کے بعد اسامہ بن لادن کے خلاف کیا تھا۔ حماس کو اس نے القاعدہ اور اسامہ بن لادن کی طرح اسرائیل کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دینے کے علاوہ دہشت گرد تنظیم بھی ٹھہرایا۔ مصر رہا کہ وہ ان دہشت گردوں کے خلاف کسی بھی ملک میں گھس کر جارحانہ کارروائیوں سے باز نہیں آئے گا۔
اسامہ بن لادن کے حوالے سے اس کی زبان سے پاکستان کا ذکر میری دانست میں یہ پیغام دینا تھا کہ اگر سعودی عرب اپنے تحفظ کے لیے کسی اور ملک یعنی پاکستان کے ساتھ دوستانہ معاہدہ کرے گا تو وہ معترض نہیں ہوگا۔
نیتن یاہو کی پاک- سعودی معاہدے کے بارے میں اختیار کردہ خاموشی نے مجھے رواں برس کے ابتدائی دنوں میں لکھے اپنے ہی ایک کالم کی یاد دلائی ہے۔ بدقسمتی سے مجھے اپنے لکھے کالموں کا ریکارڈ رکھنے کی عادت نہیں۔ رپورٹنگ سے کالم نگاری میں رزق کی مجبوری کی وجہ سے در آئے قلم گھسیٹ کو اپنے لکھے کے بارے میں ہمیشہ ’ہم کہاں کے دانا تھے…‘ والا سوال تنگ کرتا رہا ہے۔ ذہن پر زور دیا تو یاد آیا کہ وہ کالم مشہور امریکی اخبار نویس-باب ووڈورڈ- کی لکھی کتاب ’دی وار‘ میں شائع ہوئے ایک انکشاف پر مبنی تھا۔ مذکورہ کتاب 2024ء میں شائع ہوئی تھی۔ اس کے باب 56میں امریکا کے ایک مشہور سینیٹر لنڈسی گراہم کی سعودی پرنس ایم بی ایس سے ملاقات کا ذکر ہے۔ مذکورہ ملاقات کے دوران لنڈسی گراہم سعودی پرنس کو اس امر پر قائل کرتا رہا کہ وہ بائیڈن انتظامیہ کے ہوتے ہوئے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد امریکا سے اپنے تحفظ کے لیے ’ایٹمی چھتری‘ حاصل کرلے۔
گراہم کا خیال تھا کہ بائیڈن کی صدارتی انتخابات میں ہار یقینی ہے۔ اس کی جگہ ٹرمپ آگیا تو امریکا کے لیے سعودی عرب کو امریکا کے لیے دو مرکزی جماعتوں کے اتفاق کے ساتھ سعودی عرب کو ’ایٹمی چھتری‘ فراہم کرنا ناممکن ہوجائے گا۔
گراہم کے لامتناہی دلائل سے اکتا کر پرنس محمد نے اپنے ایک خادم کو ایک تھیلا لانے کو کہا۔ اس تھیلے میں ’برنر‘ فون تھے۔ یہ ایسے فون ہوتے ہیں جنھیں کبھی کبھار استعمال کرنے کے بعد تاریخی ریکارڈ سے بچانے کے لیے تباہ کردیا جاتا ہے۔ معاون نے تھیلے کو پرنس کے سپرد کردیا تو محمد بن سلمان نے اس میں سے چھان کر ایک فون نکالا جس پر "Trump 45″لکھا ہوا تھا۔ اس فون کو سپیکر پر رکھ کر پرنس نے ٹرمپ سے گفتگو کے لیے بٹن دبایا۔ ٹرمپ نے جلد ہی فون اٹھالیا تو پرنس نے ہنستے ہوئے اس کا حال پوچھنے کے بعد اسے خبر دی کہ لنڈسی گراہم اس کے ساتھ بیٹھا ہے۔
خرانٹ ٹرمپ نے فی الفور پرنس کویاد دلایا کہ لنڈسی ایک Great(عجیب وغریب آدمی) ہے۔ ’یہ تمھارے سخت خلاف رہا ہے اور چاہتا تھا کہ میں تمھارے اقتدار کے خاتمے کو متحرک ہوجاؤ ں‘۔ گراہم نے شرمندہ ہوکر فوراً ٹرمپ کے دعوے کی تصدیق کی مگر اس وضاحت کے ساتھ کہ ٹرمپ کی سوچ ایم بی ایس کے حوالے سے درست تھی اور ’میں غلط تھا‘۔
4اکتوبر2018ء میں اسی سینیٹر لنڈسی گراہم نے ٹرمپ کے ’فوکس اینڈ فرینڈز‘ نامی پروگرام میں یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ جب تک محمد بن سلمان سعودی عرب میں برسراقتدار رہیں گے وہ اس ملک کا کبھی دورہ نہیں کرے گا۔ مذکورہ بڑھک لگانے کے باوجود مگر 2024ء کے مارچ میں وہ پانچویں بار سعودی عرب آکر محمد بن سلمان سے مل رہا تھا۔
ٹرمپ کے ہاتھوں بے نقاب ہوجانے کے باوجود لنڈسی گراہم نہایت ڈھٹائی سے محمد بن سلمان کو قائل کرتا رہا کہ 7اکتوبر2023ء میں اسرائیل کی سرزمین پر حماس کے حملے کے بعد نیتن یاہو بہت جارحانہ رویہ اختیار کرچکا ہے۔ بہتر ہوگا کہ سعودی عرب امریکا سے دفاعی معاہدے کی بدولت خودکو ’محفوظ‘بنالے۔ محمد بن سلمان نے اس کی تجویز کو یہ کہتے ہوئے رد کردیا کہ 7اکتوبر کے بعد نیتن یاہو نے جو رویہ اختیار کررکھا ہے اس کے ہوتے ہوئے وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد امریکا سے دفاعی معاہدہ کرنے کے قابل ہی نہیں رہا۔ اس کے جواز میں سعودی عرب کے فیصلہ ساز شہزادے نے شدت سے گراہم کو احساس دلانے کی کوشش کی کہ عرب عوام کی اکثریت غزہ کے بارے میں بہت فکر مند ہے اور وہ اس کی فکر کو نظرانداز کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
لنڈسی گراہم مگر اپنی تجویز پر ڈٹا رہا اور باتوں باتوں میں یہ ’اطلاع‘ بھی دی کہ امریکا سے معاہدے کے بعد سعودی عرب کو اپنے مخالفین سے محفوظ رہنے کے لیے ’ایٹمی چھتری(یا تحفظ)‘ ملنا بھی یقینی ہوجائے گی۔ لنڈسی گراہم جب ’ایٹمی چھتری‘ کی گاجر کو مسلسل لہراتا رہا تو پرنس محمد نے اکتاکر اسے یہ کہتے ہوئے چپ کروادیا کہ اگر سعودی عرب کواپنے تحفظ کے لیے واقعتا یورینیم (یا ایٹمی اسلحے) کی ضرورت پڑی تو وہ پاکستان سے رجوع کرنے کو ترجیح دے گا۔
مجھے یقین ہے کہ باب ووڈورڈ کی کتاب چھپنے کے چند ہی دن بعد نیتن یاہو نے اسے میرے پڑھنے سے کئی ہفتے قبل ہی پڑھ لیا ہوگا۔ وہ کتاب پڑھنے کے بعد نکما ترین سیاستدان بھی فی الفور یہ طے کرسکتا ہے کہ اپنے دفاع کو یقینی بنانے کے لیے سعودی عرب کس ملک کو ترجیح دے گا۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ماضی کے تعلقات بھی اس تناظر میں صرف پاکستان کا نام ہی اجاگر کریں گے۔ نیتن یاہو کی پاک-سعودی دفاعی معاہدے کے بارے میں خاموشی نے لہٰذا مجھے ہرگز حیران نہیں کیا ہے۔
( بشکریہ : روزنامہ نوائے وقت )