ابھی جو مست ہیں اپنی مستیوں میں
بہت طاقت ہے ان کے ہاتھ میں
اور لہوبھر گیا ہے ان کی آنکھوں میں
چہروں پران کے معصوم پھولوں کا
خون رچ سا گیا ہے
جن کو خدا کے قہرسے ڈرنہیں
اور پھر چپ ہے خداکی خدائی بھی
نہیں معلوم اک دن
لرزے گا آسمان بھی
اور پھٹ جائےگی زمیں بھی
کیوں ؟
کیا تم کو معلوم نہیں کیوں
جب کوئی پھول توڑتا ہے
جب کوئی کلی کو نوچتا ہے
جب ان کے خون سے
سکولوں کے صحن
بازارکی سڑکیں
گھروں کے آنگن
جھولتے ہوئے جھولے
بھر جاتے ہیں
ان کے منہ سے آتی
چاکلیٹ کی خوشبو
ہاتھ کی مٹھی میں بند ٹافیاں
فرشتوں جیسے معصوم
چہروں کی چمک
کبھی نہ مٹنےوالی
نیلی نیلی آنکھوں کی روشنی
ماں کے دودھ کی رچی
ان میں خوشبو
کوئی چھین لیتا ہے
اور اب بن گیا ہے
غزہ کربلا کا میدان
تو کیوں نہیں پھٹ جائےگی
یہ زمین
اور لرزے گا آسمان
بس صبر تھوڑا اور صبر
میرے جگر کے ٹکڑ و
لے کر آئیں گی تمہاری
خاموش صدائیں
تم پر برسیں گی
پھر جنت کی ہوائیں
پھر خدا کی خدائی کو جوش آتا ہے
ان کافروں نے ٹکروں میں کٹ جانا ہے
پھرنہ ہوگی زمین ان کی
نہ آسمان ان کا
ارض و سما پہ چاروں طرف
تم ہی تم رہوگے ادھر ادھر
تم اور تماری خوشبو
ہوگی ماں کی گود کی نرمی و گرمی
میرے جگر کے ٹکڑ و
صبر تھوڑا اور صبر