اچھا ہوا ناصر درانی مستعفی ہوگئے ،ورنہ نئے پاکستان میں جو ذمہ داری ان کے سپرد کی گئی تھی وہ ناکام ٹھہرتے اور اپنا ماضی بھی داغدار کربیٹھتے ۔ جتنے خلوص سے وزیر اعظم عمران خان نے انہیں پولیس ریفارمز کمیٹی کا سربراہ بنایا عین اسی وثوق سے وہ اپنی جان چھڑوا گئے کہ پنجاب پولیس میں ریفارمز اب کسی کے بس کی بات نہیں۔ پہلے جو ہمارے لیے صرف افسانے تھے اب وہ حقیقت بن چکے کہ واردات خود ہمارے ساتھ ہوئی ۔ فوجداری قانون کے ماہر ضیاءالرحمن رندھاوا کی گاڑی انیس ستمبر کو چوری ہوئی مگر ان کا موبائل فون اتفاق سے گاڑی میں ہی رہ گیا ۔ حساس ادارے میں ان کے ایک مہربان نے موبائل فون تک پہنچنے کی ایپلیکیشن ان کے موبائل میں بھیجی اور ہم سب ان کے ہمراہ وہاڑی کی طرف روانہ ہوگئے۔ 22ستمبر کو اسی ایپلیکیشن نے ہمیں ڈی پی او وہاڑی کے دفتر کے عقب میں قائم کچی آبادی تک پہنچا دیا کہ اندھیرا ہمیشہ چراغوں تلے ہی ہوتا ہے اوریہ فلسفہ بھی حل طلب نہیں رہاکہ پولیس کی سرپرستی اور رسہ گیری کے بغیر تو ایک جیب کترا اپنی واردات نہیں ڈال سکتاکار چوری تو پھر بھی بہت بڑا کرائم ہے۔ مختلف کچی سڑکوں اور راہداریوں سے گزر کر ہم وہاں پہنچے جہاں ہمارے موبائل پر پیغام آرہا تھا کہ آپ کا ہدف صرف 10میٹر کی دوری پر ہے ۔ اپنی مدد آپ کے تحت اپنی مسروقہ گاڑی تک پہنچ گئے مگر پھر ہم نے پنجاب پولیس کی مدد لی ، یہی ہماری غلطی تھی کہ اس کی پاداش میں ہم اپنی مسروقہ کار سے دور ہوتے گئے ۔ کچی آبادی میں کھڑے ہوکر پولیس کو اطلاع دی تو وہاڑی پولیس کے اے ایس آئی رﺅ ف گجر جو سی آئی اے میں تعینات ہے نے فون کرکے ہمیں اپنے پاس وہاڑی بلالیا اور کہا کہ آپ چوروں تک پہنچ گئے ہیں آپ کی گاڑی محلہ قصائیاں کے رہائشی امجد، افضل ، کاشی ، عرفان صابر اور خالدی نے چوری کی ہے وہ اس شرط پر گاڑی واپس کرنے پر تیار ہیں کہ مقدمہ نہ کروایا جائے۔ رندھاوا صاحب نے وعدہ کرلیا اور ہم واپس چلے آئے۔ پھر لمحہ بہ لمحہ صورت حال تبدیل ہوتی رہی ۔ پولیس نے گاڑی کی واپسی کے لئے دو لاکھ روپے طلب کئے یا پھر گاڑی چھوڑنے کے عوض تین لاکھ ادائیگی کا وعدہ کیا مگر ہم مسروقہ گاڑی کی واپسی پر بضد رہے ۔ پھر پولیس نے ہمارے ساتھ ہاتھ کیا اور ملزم امجد کو ساتھیوں سمیت گرفتار کرلیا۔ ملزم کو حبس بے جا کی رٹ دائرکرنے کا مشورہ دے کر اپنا حصہ وصول کیا اور ہمیں اطلاع دی گئی کہ چور گاڑی واپس کرنے سے انکاری ہوگئے ہیں۔ پولیس نے حبس بے جا کی رٹ پر ملزم چھوڑ دیے اور ان سے برآمد ہونے والی پانچ کاریں خود رکھ لیں ۔ ریکارڈ گواہ ہے کہ کسی ایک مدعی کو بھی کار واپس نہیں کی گئی کیونکہ کارواپسی کے لئے مانگی جانے والی ”مٹھائی “ نئی کار کی قیمت کے برابر ہے ۔ حیرت کی بات ہے کہ فوجداری وکالت کرنے والے قانون دان کے ساتھ ایسا رویہ رکھنے والی پولیس عام شہریوں کے ساتھ کیسا برتاﺅ کرتی ہے۔ اسی بے بسی کا روناا ب ہائیکورٹ ملتان بنچ میں دائر کردہ رٹ پٹیشن میں رویا گیا ہے ۔ نئے پاکستان میں پرانا ہاتھ یہی پولیس کررہی ہے کبھی پاکپتن پولیس کے ذریعے اور کبھی منشابموں کے پالتو پولیس افسران کے ہاتھوں نئے پاکستان کا سفر کھوٹا کیا جارہا ہے۔ اگر عدل کی زنجیرتک ہمارے ہاتھ پہنچ گئے تو یہی قصہ درد زنجیر ہلا ہلا کر سنائیں گے ۔ ڈراموں اور فلموں میں فلمائے جانے والے کردار ہمیں تو مجسم شکل میں ملے ہیں جو چوری بھی سینہ زوری سے کرنا جانتے ہیں اور کر بھی رہے ہیں۔ مدعا بس یہی ہے کہ ایک کمیشن ان کار چور گروہوں کے سربراہ سرکاری محافظوں کیلئے بھی بنا دیا جائے ۔ پہلی بار پنجابی محاورے کا مفہوم سمجھ آیا کہ کتی چوروں سے کیسے ملی ہوتی ہے ۔ شاید اب رندھاوا ایڈووکیٹ کو گاڑی نہیں چاہیے بلکہ وہ صرف اس ”طاقت “ کی کھوج لگانا چاہتے ہیں جو ایک اے ایس آئی کے سامنے ڈی پی او کو لاچار کرکے رکھ دیتی ہے۔
فیس بک کمینٹ