میرا نام اللہ دتہ ہے مگر میرے چاہنے والے مجھے مولوی دتہ کے نام سے جانتے ہیں ۔میں خاندان کا واحد فرد ہوں جو مذہبی ہونے کی وجہ سے اپنی برادری سے کٹ چکا ہے ۔اس معاشرتی علیحدگی کا سبب ہوسکتا ہے خود میں ہی ہوں مگر میرا خاندان بھی بری الذمہ نہیں ۔ لوئر مڈل کلاس میں پیدا ہونے والا میں اپنے والدین کا پانچواں بیٹا تھا ۔ میری عمر تقریباً دس برس تھی جب کبوتر اڑاتے ہوئے گھر کی چھت سے گر کر ٹانگ تڑوا بیٹھا اور ریڑھ کی ہڈی بھی چوٹ سے شدید متاثر ہوئی ۔ گھروالے ہسپتال کے بجائے گاﺅں کے ایک پہلوان کے پاس لے گئے ، پٹی بندھ نے اپنی نیم حکیمی سے مجھے عمر بھر کےلئے معذور کردیا اور وہیل چیئر میرا مقدر بن گئی ۔ معذوری کے بعد سب سے پہلے مجھے میرے گھر والوں نے نظر انداز کرنا شروع کیا جس کا احساس مجھے تب ہوا جب انگلش میڈیم سکولوں میں پڑھنے والے میرے چاروں بھائیوں کے برعکس مجھے قصبے کے ایک مدرسہ میں داخل کروادیا گیا ۔ اس انفرادی سلوک پر لاہور میں رہنے والے میرے ماموں نے ابا سے احتجاج کیا تو انہوں نے اس کی واحد وجہ میری معذوری اور ذہنی کمزوری بتائی ۔ میں مدرسے میں زیر تعلیم رہا اور رفتہ رفتہ اپنے بھائیوں ، رشتہ داروں سے دور ہوتا گیا۔ مدرسے کی اقامت گاہ میں شادیوں کا بچ جانے والا کھانا ، عیدین اور ربیع الاول پر آنے والی مٹھائی میری تفریح بھی تھی اور عیاشی بھی۔ سال میں دو تین بار ہی مجھے گھر لے کر جایا جاتا تو اپنے ماں باپ سے ملاقات ہوتی ۔ میرے چاروں بھائی بڑے شہروں میں زیر تعلیم تھے اسلئے ان کی شکلیں بھی بھولتی گئیں۔ جب میں نے قرآن مجید حفظ کرلیا تو میرے ابا کو مدرسہ میں بلایا گیا ۔ مدرسے کا مہتمم طویل رفاقت اور مسلسل حاضری کی وجہ سے سارا حساب کتاب میرے حوالے کرچکا تھا ۔ انہوں نے میرے ابا سے مجھے ہمیشہ کے لئے مانگ لیا اور میں خوشی خوشی ”دین “ کےلئے وقف ہوگیا۔ جس دن میرا ابا مجھے مدرسے کےلئے وقف کرنے آیا اسی دن مجھے بتایا گیا کہ میرا ایک بھائی انجینئر اور دو ڈاکٹر بن چکے ہیں جبکہ چوتھا اعلیٰ تعلیم کے حصول کےلئے ولائت جارہا ہے ۔ ابا نے میرے حصے کی زمین بھی بیچ کر چاروں بھائیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی مگر میرے حصے میں کبھی کپڑوں کا ایک سوٹ بھی نہ آیا۔
مدرسہ کا ہیڈ معلم بننے کے بعد میں نے مختلف بیماریوں کے علاج کےلئے عملیات بھی کرلیے تھے اور میرا دم درود بھی شفایابی کی سند سمجھا جانے لگا ۔میں جب اپنے ارد گرد زمین پر بیٹھے مریضوں اور مریدوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے ہڈی جوڑ والا پہلوان اپنا مرشد لگنے لگتا ہے۔ میں اپنی عمر کے دوسرے بچوں کی طرح کھیل کود اور شرارتوں سے تو محروم ہوہی گیا مگر گاﺅں میں لگنے والے میلے ، ٹی وی پر چلنے والے میچ، ریڈیو ، ڈرامے اور فلم سے بھی ناواقف رہا کہ جب بھی کبھی فلم دیکھنے کی کوشش کی تو ”اوئے مولوی لنگڑے شرم کر “ کی آواز نے مجھے واپس کھینچ لیا ۔ میرے اندر کا بچہ اور اب جوان بھی مر چکا، رشتہ دار صرف ختم شریف پڑھوانے ، دم کرانے ، قل خوانی پر تقریر کرانے یا پھر صدقہ خیرات دینے تک میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں ۔ میں نے اپنے ہم جماعتوں سے لے کر شاگردوں تک کا بغور مشاہدہ کیا تو اس نتیجہ پر پہنچا کہ سب کے ساتھ میری کہانی دہرائی گئی ہے ۔ بہن بھائیوں میں سب سے نکمے یا کسی بیماری کے شکار بچے ہی مذہبی تعلیم کیلئے مدرسے میں بھجوائے جاتے ہیں ۔ وہ بچے جو میڈیکل ، قانون، انجینئرنگ کے معیار پر پورا نہ اترتے ہوں انہیں مذہبی تعلیم کے لئے وقف کرکے دین کی خدمت کی جاتی ہے۔ میں معاشرتی سلوک کے اس پہلو کا شکار تھا مگر اب اپنے شاگردوں ، مریدوں اور پیرو کاروں کی طرف سے ملنے والی عزت نے مجھے جینا سکھا دیا۔ زندگی سے محبت اور اطمینان اپنی جگہ مگر مجھ سے الٹرا ماڈرن خواتین، جدت کے وہم میں مبتلا مرد ، فیشن ایبل لڑکیاں ، گاڑیوں کے اگلی سیٹوں پر بیٹھے جوڑے اور ہنستے مسکراتے لوگ برداشت نہیں ہوتے ۔ میں جس ماحول سے محروم رہا اور جومحبتیں مجھے نہ مل سکیں وہ کسی اور کا مقدر ہوتے مجھ سے دیکھی نہیں جاتیں اسلئے میں اپنے اندر کے دائمی اندھیرے کم کرنے کیلئے اپنے اردگرد کی تمام روشنیاں گل کردینا چاہتا ہوں ۔ میں اپنے ساتھ ہونیوالی زیادتیوں کا انتقام اب ہر ہنستے مسکراتے گھرانے کو کسی نہ کسی طرح روتے ہوئے دیکھ کر لیتا ہوں اور اس مقصد کےلئے میں اکیلا نہیں بلکہ ہر محلے ، قصبے اور گاﺅں کا مولوی دتہ میرا ہمنوا ہے کیونکہ اس سے بھی اس کا بچپن چھین لیا گیا تھا ۔ ہر خاندان کا کمزور اور بیمار ذہن اب میرا دست و بازو ہے ، ہم سب مولوی دتہ ہیں جو اپنے اپنے ساتھ ہونیوالی زیادتیوں کا بدلہ توڑ پھوڑ ، جلاﺅ گھیراﺅ ، کافر کافر کے نعروں اور اپنی رائے سے اختلاف رکھنے والوں کے خلاف قتل کے فتوﺅں سے لے رہے ہیں ۔ ہمیں اب وطن ، مذہب اور دین سے زیادہ سروکار اس معاشرے کومشکلات میں ڈالنے سے ہے اس لئے ہم کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ہمارے پیروکاروں کی بھی کمی نہیں اسلئے ایک بلاوے پر جب لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہم سے سنبھالا نہیں جاتا اور ہمارے اوپر مسلط ریاستی بدمعاشوں کو بے بس دیکھتے ہیں تو ہمارے انتقام کی آگ کچھ کم ہوتی ہے ۔
سرکار کے لوگ جب ہم لولے، لنگڑوں ، اندھوں اور کند ذہنوں سے امن کی بھیک مانگتے ہیں تو محرومی کی آگ میں ازل سے سلگنے والے کلیجوں میں ٹھنڈ ک محسوس ہوتی ہے ۔ ہم سب اپنی زندگی میں متحد اور خوش ہیں جو کچھ معاشرے نے ہمیں دیا وہی لوٹا رہے ہیں ۔ اس قوم نے ہمارا بچپن چھینا ہم ان سے مستقبل چھین رہے ہیں۔
رات بیت چکی تھی اور مولوی دتہ نے فجر کی اذان کےلئے مسجد جانا تھا ۔ میں بوجھل وجود کے ساتھ احساس جرم لئے اٹھا اور گھر پہنچنے تک یہی سوچتا رہا کہ کاش ہم نے مذہبی تعلیم کےلئے صحت مند اور ذہین بچے مدرسے بھیجے ہوتے ، کاش ہم نے ان پر بھی برابر کی توجہ اور پیار نچھاور کیا ہوتا تو وہ اپنی محرومیوں کا بدلہ آنے والی نسل سے نہ لیتے ۔ کاش ہم نے کالج، یونیورسٹی اور مدرسہ میں تفریق نہ کی ہوتی تو مولوی دتوں کا ہجوم آج ہمیں یرغمال نہ بناتا۔
فیس بک کمینٹ