ایک بار پھر وکلا ء کی ملک گیر ہڑتالوں کے سبب عدالتی کام رک سا گیا ہے ۔ پاکستان بار کونسل اور تمام صوبائی بارز ایک پیج پر نظر آرہی ہیں ،معاملہ ہی ایسا ہے کہ سب کو متفق ہونا چاہیے۔ نہ جانے کیوں ملک کو پولیس ریاست بنایا جارہا ہے باوجود اس کے کہ پولیس کے غیر قانونی اقدامات اور ماورائے عدالت’’مقتل‘‘اب ’’سنگ کی دیوار ‘‘ سے نکل کر بھرے بازار تک آگئے ہیں ۔ سائل کو مقدمہ درج کرانے کے لئے پہلے ایس ایچ او کے پاس جاکر اسے ہر طرح سے ’’راضی‘‘ کرنا پڑتا تھا اور اگر اسے راضی کرنا سائل کیلئے مشکل ہوتا تو پھر جسٹس آف پیس کی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جاتا جس کے لئے وکیل کی فیس ادا کی جاتی ۔اب درمیان میں ایک اور مشکل کا اضافہ کردیا گیا ۔ ایس ایچ او اور جسٹس آف پیس کے درمیان ایس پی شکایات کے دفتر کے دھکے سائل کا مقدر بنادیے گئے اور عوام کو یقین دلایا گیا کہ یہ ملک افسر شاہی ریاست ہے ۔ اتنی تاخیر سے اگر مقدمہ درج ہوبھی جائے گا تو وقوعہ اور اندراج مقدمہ کے درمیان ایک طویل وقفہ ملزم کے مفاد میں جائے گا کیونکہ وقوعہ کے وقت سے ایک ماہ بعد درج ہونے والے مقدمات کے ملزمان ہمیشہ ’’باعزت‘‘ بری کردیے جاتے ہیں۔ جب سائل پولیس اسٹیشن سے ناکام لوٹایا جاتا تھا تو پھر وہ جسٹس آف پیس کے پاس دفعہ22-Aاور 22-Bکے تحت اندراج مقدمہ کی درخواست دائر کرتا تھا جسے سماعت کے بعد منظور کرلیا جاتا یا پھر خارج کردیا جاتا تھا ۔ اب سائل جسٹس آف پیس کی عدالت میں مقدمہ کے اندراج کے لئے درخواست دائر نہیں کرسکے گا اور اسے پہلے ایس پی شکایات سیل میں مدعا بیان کرنا ہوگاجس کے لئے کتنا وقت لگے گا اور کب تک ایس پی صاحب درخواست پر فیصلہ کرنے کا پابند ہوگا اس کا تعین نہیں کیا گیا۔ یہ فیصلہ عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ کم کرنے کے لئے کیا گیا جو کہ بعید از قیاس ہے ۔ سول عدالتوں میں پانچ پانچ سال تک چلنے والے فیملی کیسز اور حکم امتناعی کیسز عدالتوں پر اصل بوجھ ہیں اور سامان جہیز کی واپسی ، حق مہر کی وصولی کے لئے عدالتوں میں آنے والی خواتین بالآخر فیصلوں کی تاخیر کی وجہ سے اپنے فیصلے ’’گلی کے ثالثوں ‘‘ سے کروانے پر مجبور ہوجاتی ہیں اور تاریخ پر تاریخ دینے والے عدالتی افسران کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔
سیشن عدالتوں میں پڑی اپیلیں بھی تو عدالتوں پر بوجھ ہیں پھر اس بوجھ کو ختم کرنے کے لئے پنچایت سسٹم نافذ کردیا جائے تو شاید بار ایسوسی ایشنز کو’’ اوقات‘‘ میں رکھنے کا منصوبہ کامیاب رہے کہ لگتا تو یہی ہے کہ اس ساری ’’فیصلہ سازی‘‘ کے پیچھے صرف وکلاء کا مزاج درست کرنا ہی مقصود تھا۔
نیشنل جوڈیشل پالیسی 2009کے بعد سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کردہ نئی پالیسی قانون کے متصادم ہے اور قتل کے مقدمے کا چار روز میں فیصلہ بھی ممکن نہیں ۔ یہ آئین کے آرٹیکل 10-Aاور ضابطہ فوجداری کی مختلف شقوں سے متصادم ہے ۔ 22-A(6)،154ضابطہ فوجداری میں خضر حیات کیس(PLD2005-LRH-470) اور یونس عباس کیس(PLD2016-SC-581) کی موجودگی میں بلا ترمیم ان کے خلاف کوئی پالیسی مرتب نہیں کی جاسکتی اور اسی طرح قانون جانشینی کی موجود گی میں اس کے خلاف کوئی نئی پالیسی نہیں بنائی جاسکتی ۔ وکلاء کے کیا مفادات ہیں ؟ اس سے قطع نظر عام شہری کیلئے مشکلات میں اضافہ کردیا گیا ہے۔
خواص کے رحم و کرم پر رہنے والے بے چارے عوام ۔۔۔۔۔
پولیس کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہونے والے پھر پولیس کے حوالے ۔۔۔۔۔
رشوت کیلئے ایک اور پلیٹ فار م کا اضافہ۔۔۔۔۔
اور ایس پی شکایات کے دفتر سے مایوسی کے بعد ہائیکورٹ میں ڈائریکشن رٹ پٹیشن اور پھر جسٹس آف پیس۔۔۔
وکلاء کو بھی ایک مقدمہ کے اندراج کے لئے ہائیکورٹ جانے کا اضافی فورم اور اس کیس کی نئی فیس مگر عوام اور بے چارے سائل ، وہ پسنے کے لئے چکی کے اک نئے پاٹ کے نیچے آگئے ۔
آسانیا ں تقسیم کرنے والوں کے لئے آسانیاں ان کا مقدر ہوا کرتی ہیں اور لوگوں کو مشکل میں ڈالنے والے اپنے اپنے ’’ مشکل کشاؤں‘‘ کے دروازوں سے خالی جھولی لوٹتے ہیں۔
مختصر وقت کے لئے بااختیار ہونے والے ریاست کو عمر بھر کے لئے بانجھ نہ کریں کہ ہم نے زمینی خداؤں کو عرصہ ملازمت کے بعد ذلیل و خوار ہوتے دیکھا ہے مگر عوام کو شاید معلوم ہی نہیں کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہوگیا کہ صرف وکلاء ہی سراپا احتجاج ہیں کہ ان کے پاس آنے والے سائل اور سائلوں کے ہاتھوں ملنے والی فیسیں بہت کم ہوگئیں ۔ عوام شاید اپنے حقوق سے واقف ہی نہیں اس لئے خاموش ہیں ۔ ہمارے عوام لائن میں لگے ہوئے وہ مزدور ہیں جن کو ان کے سروں پر مارے جانے والے ’’جوتوں‘‘ پر اعتراض نہیں بلکہ وہ جوتے مارنے والوں کی تعداد میں اضافے کے خواہاں ہیں تاکہ وہ جلدی اپنی سزا بھگت کر اپنے اپنے کا م پر جائیں۔ آخر میں احمد فراز کا یہ شعر :
تمام شہر ہے مقتل اسی کے ہاتھوں سے
تمام شہر اسی کو دعائیں دیتا ہے
فیس بک کمینٹ