اچھا ہوا بانو قدسیہ چلی گئیں ان کی مشکل آسان ہو گئی ویسے تو وہ خان صاحب کے ساتھ ہی چلی گئی تھی دس سال ایک زندہ لاش کی صورت اپنا وقت پورا کرتی رہیں ۔ جو لوگ اس جوڑے سے مل چکے ہیں وہ جانتے ہیں کہ جب کوئی کونج اپنی ڈار سے جدا ہو جائے تو کتنی کرب ناک زندگی گذارنا پڑ جاتی ہے ۔اشفاق احمد ایک جادوگر تھا اللہ نے انہیں گفتگو کا فن عطا کیا تھا اتنی بھرپور اور دلچسپ گفتگو کرتے تھے کہ مخاطب ان کی باتوں کے سحر میں کھو جاتا تھا اور ایسے الفاظ استعمال کرتے تھے کہ سامنے خواہ ایک فرد بیٹھا ہو یا مجمع سب کسی اور دنیا میں چلے جاتے تھے ۔ اور ان کی محفل سے اٹھ کر جب اپنی زندگی میں شامل ہوتے تو کئی روز تک اشفاق احمد کی گفتگو کی خوشبو کے حصار میں رہتے ۔اور بانو آپا کا سارا وقت اس جادو گر کے ساتھ گزرتا تھا جب وہ چائے بنا کر لاتیں تو کبھی صرف چائے نہ لاتیں ساتھ کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا کبھی پکوڑے کبھی کباب کبھی بسکٹ ۔ایک دن داستان سرائے کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے کسی نے پوچھ لیا کہ بانو آپا آپ ہر وقت کی مہمان نوازی سے تنگ نہیں آجاتیں ۔اس سے پہلے کہ بانو قدسیہ بولتیں داستان گو فوری طور پر بولا ارے میاں آنے والا مہمان اپنے کھانے پینے کے سامان کی لسٹ اپنے ساتھ لے کر آتا ہے بانو تو بس اس کے سامنے پیش کر دیتی ہے اور جب مہمان بے دلی سے کھاتا ہے تو بانو دکھی ہو جاتی ہے اور جب آپ خوش دلی سے کھاتے ہیں تو بانو خوش ہو جاتی ہے ۔یہ سارے لفظ ادا کرنے میں داستان گو دو منٹ لگا دیتا اتنی دیر میں بانو آپا اپنا جواب تیار کر لیتیں ۔اتنا خیال رکھتے تھے اشفاق احمد ۔ ایسا ساتھی جب ساتھ نہ رہے تو پیچھے رہ جانے والے ایک زندہ لاش کی صورت اپنا وقت پورا کرتے ہیں
میں ہمیشہ اس بات کا قائل رہا ہوں کہ بانو قدسیہ ، اشفاق احمد سے کہیں زیادہ بڑی تخلیق کار تھیں بہت بڑی عورت تھیں جب اشفاق احمد فوت ہو گئے تو بہت سے دن ہمت نہیں ہوئی کہ بانو آپا سے جا کر افسوس کر آؤں لیکن جانا تو تھا کوئی ایک ماہ بعد ہمت جمع کر کے 121 سی ماڈل ٹاؤن (جس کے گیٹ پر داستان سرائے لکھا تھا) کی گھنٹی بجاتے ہوئے آنکھیں نم ہوگئیں کہ ایک بیوہ سے کن الفاظ میں افسوس کریں گے اس جادوگر کے ساتھ ہمارا تو تھوڑا سا وقت گذرا اور جس کی زندگی کی طویل مسافت کا ہمراہی نہیں رہا اس کے دل پر کیا گزری ہو گی ۔بہرحال الفاظ کا انتخاب نہ کر سکا یہ ہی فیصلہ ہوا کہ بس چپ چاپ بیٹھا رہوں گا ۔اس دوران اپنی بے بسی کا احساس آنکھوں سے چھلک چکا تھا ۔ گلے کو کھنگارہ اس وقت تک اسی کمرے میں داخل ہو کر بیٹھ گیا تھا جہاں بانو آپا سات آٹھ لوگوں سے محو گفتگو تھیں اور وہ بالکل ویسے ہی بول رہی تھیں جیسے ایک ماہ پہلے داستان گو بولتا تھا ۔وہی وجاہت وہی وضع داری ۔وہی مادرانہ مسکراہٹ ۔ادھر ادھر کی باتیں کئے جارہی تھیں ۔اصل موضوع کی طرف کوئی بھی نہ آیا ۔دل کو کچھ تسلی ہوئی ۔لیکن کافی عرصہ بعد بانو قدسیہ کی وہ تڑپ یاد آرہی ہے جب وہ انتہائی کرب ناک انداز میں بتا رہی تھیں کہ دیکھو میرے بیٹے اس داستان سرائے کو کرایہ پر دینا چاہتے ہیں کہتے ہیں کہ ملٹی نیشنل کمپنی ہے اچھا کرایہ دے رہے ہیں ان کو بھلا کیسے سمجھاؤں کہ کیسے کیسے ایک ایک اینٹ جوڑ کر ہم نے اس کو مکان سے گھر بنایا ۔ایک ایک انچ سے بے شمار یادیں وابستہ ہیں ۔کیسے کیسے لوگ یہاں آتے رہے ۔کرایہ دار تو سب برباد کر دیں گے ۔لیکن اب بانو آپا کی تڑپ سمجھنے والا کوئی نہیں رہا تھا ۔اور اسی کرب میں مبتلا ہو کر دکھی رہی ۔اپنی اٹھاسی سالہ زندگی میں بہت سے اُتار چڑھاؤ دیکھے ہوں گے لیکن جو وقت اشفاق احمد کے جانے کے بعد گھر میں گزارہ اور پھر ان یادوں سے بھی دور چلی گئیں خالد سنجرانی کی بارات میں میرے ذمہ تھا کہ اس خوبصورت جوڑے کو گھر سے لے کر یو ای ٹی کے پاس واقع شادی ہال میں لے کر آؤں اشفاق صاحب گاڑی چلا رہے تھے بانو آپا اگلی نشست پر ساتھ بیٹھی تھیں جیسے ہی گاڑی نہر پر آئی دونوں بھول گئے کہ پیچھے کوئی اور بھی بیٹھا ہے بہت سی باتیں کیں گورنمنٹ کالج کی، لاجیا کی، پھولوں کی، درختوں کی، نئی بننے والی بلڈنگز کی۔ بہت بار جادو گر کی باتوں پر وہ گلال سی ہو گئیں۔ بارات میں ابھی دیر تھی اشفاق احمد نے گاڑی دائی انگہ کے مقبرے کے سامنے کھڑی کر دی ہم تینوں نیچے آ گئے اور جادوگر کے علوم کی باتیں داستان گوئی کے انداز میں جاری رہیں وقت کا پتہ ہی نہیں چلا ۔آج جب بانو قدسیہ کی تدفین ہو رہی ہوگی تو یقینی طور پر اشفاق احمد اس عظیم عورت کے استقبال کے لئے بے چین ہوں گے ۔بانو آپا آج کا دور آپ سے محروم ہو گیا لیکن چلو آپ آج سکھی ہو گئیں ۔وہ دیکھیں سامنے داستان گو آپ کے استقبال کے لئے موجود ہے ۔
فیس بک کمینٹ