پانچ جنوری سے سوشل میڈیا سمیت ہرجانب ہرشخص ایئرمارشل اصغرخان کی شان میں رطب اللسان ہے ۔کہاجاتاہے کہ وہ بہت محب وطن تھے ان کی بہت سی خوبیوں کاتذکرہ جاری ہے اوریقینناََان میں بہت سی خوبیاں بھی ہوں گی ۔ وہ دنیامیں فضائیہ کے سب سے کم عمر سربراہ تھے۔پاک فضائیہ کے پہلے مسلمان سربراہ ہونے کااعزاز بھی انہی کے حصے میں آیا ۔انہوں نے پاکستان کی فضائیہ کو ترقی کی راہ پرگامزن کیا،65کی جنگ میں ہمیں فضائیہ کی جو بہت سی کامیابیاں دکھائی دیتی ہیں ان کا کریڈٹ بھی اصغر خان کو ہی دیا جاتا ہے ۔ایئر مارشل اصغرخان کے بارے میں یہ بھی کہاجاتاہے کہ وہ بہت اصول پسندتھے اوریہ بھی بتایاجارہاہے کہ شایدقائداعظم کے بعد وہی سب سے زیادہ محب وطن بھی تھے۔اس بات پرافسوس کااظہاربھی جاری ہے کہ ملک نے اوراس قوم نے ان کی قدرنہیں کی ،انہیں وہ پذیرائی نہیں ملی جس کے وہ حق دار تھے۔انہوں نے سیاسی جماعت توبنائی لیکن ان کی جماعت کوعوام نے مستردکردیا۔ان کی جماعت کے ذریعے متعارف ہونے والےنواز شریف تو وزارت عظمیٰ کے منصب تک پہنچ گئے لیکن وہ خود جہاں تھے وہیں رہ گئے ۔اس سارے عمل نے انہیں مایوس کردیا۔وہ سیاست سے دورہوگئے اورپھرانہوں نے سوچا کہ کسی طرح اپنے بیٹے کو اس میدان میں متعارف کرایاجائے ۔اقتدار تک پہنچنے کاراستہ عوامی خدمت سے ہوکرگزرتاتھاسوانہوں نے عمراصغرخان کو این جی اوزسیکٹرکے ذریعے لانچ کر دیاکہ اس شعبے میں دولت بھی تھی اورعوام کی فلاح کا راستہ بھی ۔بد قسمتی سے عمراصغرخان پراسرارموت کاشکارہوگئے۔ جس ادارے سے اصغرخان وابستہ تھے اس کے ڈسپلن کاتقاضاتھاکہ بیٹے کی موت پرچپ سادھ لی جائے اوراگرکوئی اس قتل کو خودکشی قراردے رہاہے تواسے بھی تسلیم کرلیاجائے۔یہ اصغرخان کی زندگی کاسب سے بڑاصدمہ تھا۔اس صدمے کوانہوں نے بہت حوصلے کے ساتھ برداشت کیااورجس طرح وہ پہلے اپنے ادارے کے ساتھ وفادار تھے اس واقعے کے بعدبھی وہ اس وفاداری کونبھاتے رہے۔ سیاست میں ان کی ناکامی کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے سیاست کو بھی فوجی اندازسے چلانے کی کوشش کی تھی ان کا خیال تھاکہ جیساوہ سوچتے ہیں وہی درست ہے اورجیسا وہ چاہتے ہیں ویساہی ہوجاناچاہیے ۔لیکن شایدان کے خواب اس طرح سے پورے نہیں ہوسکتے تھے۔سیاست کے اصول بہر حال عسکری اصولوں سے مختلف ہوتے ہیں ۔اصغرخان نے اصول پسندی کی جوبھی باتیں کیں شایدان کی ہدایات بھی انہیں کہیں اورسے موصول ہوتی تھیں۔وزیرخارجہ ذوالفقار علی بھٹو کی مخالفت ہویابعدازاں بھٹو کے خلاف نوستاروں والی تحریک میں شمولیت اصغرخان ہمیں ہرجگہ اپنے ادارے کے وفادار ہی دکھائی دیتے تھے ۔ان کے کریڈٹ میں آئی ایس آئی فنڈزکی تقسیم کاکیس سب سے نمایاں ہے اوران کی موت کے بعد یہ کہاجارہاہے کہ انہوں نے اس مقدمے کے ذریعے غلام اسحق خان ،جنرل اسلم بیگ اورجنرل اسددرانی کی وہ کرپشن بے نقاب کی جس کے ذریعے انہوں نے انتخابی نتائج تبدیل کرنے اورنواز شریف کواقتدارمیں لانے کی کوشش کی تھی ۔اصغرخان اپنے ادارے کے جتنے وفادارتھے ا س تناظرمیں یہ سوچابھی نہیں جاسکتا کہ انہوں نے یہ مقدمہ آئی ایس آئی یافوج کو بدنام کرنے کےلئے دائرکیاتھا۔ بہت سے لوگوں کاخیال ہے کہ وہ اس مقدمے کے ذریعے سیاست دانوں کوبے نقاب کرناچاہتے تھے لیکن اس کے نتائج ان کی منشا کے برعکس نکلے ۔ پھر یوں ہوا کہ اس مقدمے کو سرد خانے میں ڈال دیا گیا ۔کو ہالہ پل پر بھٹو کو پھانسی دینے کا اعلان کرنے والے اصغر خان بھٹو صاحب کے جنم دن پر عدم کے سفر پر روانہ ہو گئے ۔ اصغر خان اب ہم میں نہیں لیکن ان کی حب الوطنی کے حوالے سے کچھ سوالات اب بھی وضاحت طلب ہیں ۔
مارچ 1977ء کے انتخابات میں دھاندلیوں کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کی تحریک جاری تھی کہ 4 مئی 1977ءکو قومی اتحاد کے مرکزی رہنماکی حیثیت سے ایئر مارشل (ر) محمد اصغر خان نے مسلح افواج کے سربراہان اور دفاعی سروسز کے افسران کے نام اپنے دستخطوں کے ساتھ ایک خط تحریر کیا جس میں انہوں نے زور دیا کہ پاکستان کی علاقائی سالمیت کا دفاع پاکستان کی مسلح افواج کا فریضہ ہے لیکن انہیں قانونی اور غیرقانونی احکامات میں تمیز کرنا چاہئے اور انہیں ان کے بقول غیر قانونی حکومت کی حمایت نہیں کرنی چاہئے۔ انہوں نے اپنے پیغام میں مزید کہا کہ انتخابات کے دوران دھاندلی اس سنگین اور بھونڈے طریقے سے کی گئی کہ رائے دہندگان کی جانب سے حکومت کے محاسبہ کے اصول کی بھی نفی کردی گئی۔ ان حالات میں فوج کی کارروائی ایک فرد کو تحفظ دینے اور اس کی حمایت کرنے کے مترادف ہے ان کے خط کا آخری پیراگراف یوں تھا۔
(ترجمہ) ”باوقار لوگ ہونے کی حیثیت سے یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ اپنا فرض ادا کریں اور فرض کی پکار یہ ہے کہ غیرقانونی احکامات کی آنکھیں بند کرکے تابعداری نہ کریں۔ قوم کی زندگی میں وہ وقت بھی آتا ہے کہ ہر شخص کو اپنے آپ سے یہ سوال کرنا پڑتا ہے کہ کیا وہ درست کام کررہا ہے۔ آپ کے لئے وہ وقت آگیا ہے۔ وقت کی پکار کا جواب دیں اور پاکستان کو بچائیں۔ خدا آپ کا حامی و ناصر ہو۔“
حکومت کی جانب سے اصغر خان کے اس خط پر بڑی تنقید کی گئی۔ خود وزارت دفاع کے ایک ترجمان کو وضاحت کرنی پڑی کہ مسلح افواج کسی فرد کی نہیں بلکہ ملک اور آئین کی وفادار ہیں۔ ان کا فرض ہے کہ جب انہیں سول انتظامیہ کی مدد کے لئے طلب کیا جائے تو وہ اس کی مدد کو پہنچیں۔
پاکستان قومی اتحاد کے اس وقت کے سیکریٹری جنرل پروفیسر غفور احمد نے اپنی کتاب ”پھر مارشل لاء آگیا“ میں تحریر کیا ہے کہ ان کے علم کی حد تک اصغر خان نے یہ پیغام بھیجتے وقت قومی اتحاد کو اعتماد میں نہیں لیا تھا۔
( پاکستان کرونیکل ، صفحہ 445)
یہ ایک حقیقت ہے کہ جنرل ضیا کے مارشل لا ءکا محرک اصغر خان کا وہی خط تھا اور پھر اس مارشل لاءکے نتیجے میں پاکستان جس حال کو پہنچا وہ ہم سب کے سامنے ہے ۔ فوج کو آئین کی خلادف ورزی کی دعوت دینے والے کو محب وطن کہنے کے لئے جس حوصلے کی ضرورت ہے وہ حوصلہ کم از کم ہم تو نہیں کر سکتے سو اصغر خان کیس کی طرح ان کی حب الوطنی کا معاملہ بھی سر دست سرد خانے میں ڈ ال دینا ہی بہتر ہو گا
فیس بک کمینٹ