رضی الدین رضیکالملکھاری
14 فروری 2012 ء : محبت کے بھگوان اظہر جاوید کا ویلنٹائن ڈے ۔۔ رضی الدین رضی

یہ عجب المیہ ہے کہ جب کسی ادبی رسالے کا مدیر اس جہان سے رخصت ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ہی وہ رسالہ بھی دم توڑجاتا ہے۔صہبا لکھنوی کے ساتھ ’’افکار‘‘،شبنم رومانی کے ساتھ ’’اقدار‘‘،طفیل ہوشیارپوری کے ساتھ ’’محفل‘‘ ،ڈاکٹر وزیرآغا کے ساتھ ’’اوراق‘‘ اور احمد ندیم قاسمی کے ساتھ ’’فنون‘‘رخصت ہو ا۔14فروری 2012 ء کو اظہر جاوید نے اپنے چاہنے والوں کو خدا حافظ کہاتو ان کے ساتھ ہی ’’تخلیق ‘‘ کے 42سالہ دور کا بھی خاتمہ ہوگیا۔اظہر جاوید اور تخلیق ‘‘ ایک ہی نام کے دورُخ ۔اظہر جاوید ایک ایسی شخصیت جس نے خودکو ادب اور صحافت کی خدمت اور دوستوں میں محبتیں تقسیم کرنے کیلئے وقف کررکھا تھا اور تخلیق ایک ایسا جریدہ جس کے ذریعے وہ دوستوں کو یکجا بھی رکھتے تھے اور ان میں محبتیں بھی تقسیم کرتے تھے۔عجیب بات ہے کہ محبتیں تقسیم کرنے کا یہ عمل 14فروری کو اس وقت ختم ہوا جب دنیا بھر میں محبت کا عالمی دن منایا جارہا تھا۔اظہر جاوید نے اپنی رخصتی کیلئے اس دن کاانتخاب کیوں کیا؟ وہ تو اس روز گلاب بھی وصول کرتے تھے ،سرخ ٹائی بھی لگاتے تھے ،دوستوں کو ویلنٹائن ڈے کی مبارکباد بھی دیتے تھے،پھرانہوں نے اس روز دوستوں کو دکھ کیوں دیا۔اپنی ابدی جدائی کا دکھ ۔کہیں ایسا تو نہیں کہ سچی محبت کرنے والا یہ انسان مصنوعی محبتوں سے تنگ آچکا تھا۔
یادوں کا دریچہ کھلتاہے ۔مارچ 1984ء کی ایک صبح ۔پاک ٹی ہاؤس کے قریب میکلیگن روڈ ۔اورمیکلیگن روڈ پر تنگ سی سیڑھیاں چڑھنے کے بعد ایک کشادہ سا کمرہ اور اس کمرے میں ایک دراز زلفوں ،سفید رنگت اور ستواں ناک والی ہنس مکھ شخصیت ۔یہ اظہر جاوید کے ساتھ میری دوسری ملاقات تھی۔اس سے قبل میں ان سے ملتان میں ایک سرسری ملاقات کر چکا تھا جب وہ نسیم شاہد کی کتاب کی تعارفی تقریب میں شرکت کے لئے آئے تھے ۔اب میں اظہر سلیم مجوکہ کے ساتھ انہیں ملنے کیلئے خاص طورپر لاہور آیاتھا اور لاہور بھی میں نے اس ر وز پہلی دفعہ دیکھا تھا۔بلند وبالا عمارتیں ،کشادہ سڑکیں اور اظہر جاوید جیسی خوبصورت شخصیت۔اب لکھنے بیٹھا ہوں تو یاد آیا ہے کہ اس سے پہلے تو میں نے کبھی اس بات پر غور ہی نہیں کیاتھا کہ میں نے اظہر جاوید اور لاہور کوپہلی بار ایک ساتھ دیکھا تھا۔ابتدا میں وہ ایک سرسری ملاقات تھی جیسے کسی دوسرے شہر سے آئے ہوئے نوجوان اپنے کسی سینئر کے ساتھ پہلی ملاقات کرتے ہیں۔ہم ڈرے ڈرے سے تھے ،لاہور کا خوف ،لاہور کے بڑے قلمکاروں کا خوف اور اظہر جاوید کی شخصیت کا رعب ۔لیکن چند ہی لمحوں میں یہ سب خوف ختم ہوگئے ۔انہوں نے انتہائی گرم جوشی کے ساتھ ہمارا استقبال کیا دوپہر کو ہم نے کھانا انہی کے ساتھ کھایا۔زمان کنجاہی بھی وہیں موجود تھے ۔اور جب ہم رخصت ہونے لگے تو اظہر جاوید نے تخلیق کی ایک ایک کاپی ہمارے ہاتھ میں تھما دی ۔کندھے پر ہاتھ رکھا ،دوسرے ہاتھ سے مصافحہ کیا ’’جیوندے وسدے رہو،رب راکھا‘‘۔یہ جملہ انہوں نے صرف پہلی ملاقات میں ہی نہیں کہاتھا ۔بعد کے دنوں میں جب بھی ان سے ملاقات ہوئی رخصتی کے وقت یہ مخصوص جملہ ان کے لبوں سے ادا ہوتا تھا اور روایتی طورپر یاسرسری انداز میں ادا نہیں ہوتا تھا واقعی محسوس ہوتا تھا کہ وہ ہمیں زندگی کی دعا دے رہے ہیں۔شاد وآباد رہنے کی دعا دے رہے ہیں۔رب کے حوالے کررہے ہیں۔
اظہر جاوید ان دنوں ’’امروز‘‘ سے برطرف کئے جا چکے تھے ۔برطرفی کی وجہ یہ تھی کہ اظہر جاوید ،مسعوداشعر،شفقت تنویر مرزاسمیت بہت سے شاعروں اور ادیبوں نے بحالی جمہوریت کی قرارداد پر دستخط کئے تھے۔ضیا آمریت میں جمہوریت کا تحریری مطالبہ بھی نا قابلِ معافی جرم ہوا کرتا تھا ۔آج روشنیوں کی چکا چوند میں کیمروں کے سامنے بیٹھ کر آزادی اظہار کی باتیں کرنے والے جانتے ہی نہیں کہ اس ملک میں صحافیوں نے کیسے کڑے وقت جھیل رکھے ہیں۔ادب اور صحافت کیلئے وہ انتہائی کٹھن دورتھا۔ضیاء الحق کے مارشل لاء کا سورج نصف النہار پر تھا۔مصلحت پسند ادیبوں نے آمر کے ہاتھوں پر بیعت کررکھی تھی۔ایسے میں اظہر جاویدجیسے روشن خیال اور جمہوریت پسند قلمکار غنیمت تھے جو کسی مصلحت کو خاطر میں لائے بغیر اپنی آواز بلند کررہے تھے۔میں نے ان دنوں کارزار صحافت میں ابھی قدم ہی رکھا تھا ۔ان ادیبوں اورشاعروں کی برطرفی کے خلاف روزنامہ سنگ میل میں5 / اکتوبر 1983ء کومیرا کالم ’’بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی‘‘ شائع ہو ا۔شاید اس سناٹے میں یہ واحد کالم تھا جس میں ان برطرفیوں پر احتجاج کیا گیا تھا۔ملتان سے شائع ہونیوالے اس کالم کی آواز لاہور میں اظہر جاوید تک بھی پہنچی۔ان کیلئے یہ کالم حیران کن تھا۔مجھے ایک خط موصول ہوا۔جس میں انہوں نے ایک طرف تو میرا حوصلہ بڑھایا اور دوسری جانب مجھے یہ تلقین بھی کی کہ کیریئر کے آغاز میں مجھے احتیاط سے بھی کام لینا چاہیے۔یہاں سے محبت کا ایک ایسا تعلق قائم ہوا جو 2012 ء میں ویلنٹائن ڈے تک جاری رہا۔اُسی برس 1983ء میں ہی نسیم شاہد کی کتاب ’’آئینوں کے شہر میں پہلا پتھر‘‘ شائع ہوئی۔کتاب کے ناشروں میں میرا اور اظہر سلیم مجوکہ کا نام شامل تھا۔اگست میں کتاب کی تعارفی تقریب منعقد ہوئی تو منو بھائی ،اظہر جاوید اور اصغر ندیم سید اس میں شرکت کیلئے ملتان آئے۔اظہر جاوید نے ماورا ہوٹل میں قیام کیا۔میں اظہر سلیم مجوکہ اور شاکر حسین شاکر کے ہمراہ ان سے ملاقات کیلئے ہوٹل پہنچا تو کمرے میں ان کے چاہنے والے اور چاہنے والیاں موجودتھیں۔اظہر جاوید نے تپاک کے ساتھ ہمارا استقبال کیا اور’’ جیوندے وسدے رہو۔رب راکھا ‘‘کہہ کر کچھ ہی دیر میں رخصت کردیا۔جب چاہنے والیاں موجودہوتیں تو اعتبار ساجد کی طرح وہ الوداعی دعائیں عجلت میں دیا کرتے تھے۔ لیکن خیران کی زندگی کے اس رخ کا ذکر کچھ دیر میں آئے گا۔
1985ء میں جب مجھے تین سال کیلئے لاہور جانا پڑا تو میری فہرست میں ملتان سے روانگی کے وقت جو چند شناسا نام تھے ان میں ایک نام اظہر جاوید کاتھا۔امروز سے برطرفی کے بعد وہ جن مسائل کاشکارہوئے ان کے نتیجے میں تخلیق کچھ عرصے کیلئے بند ہوگیا۔اظہر جاوید ان دنوں صدیقہ بیگم کے رسالے’’ ادب لطیف‘‘ کے شریک مدیرتھے۔داتا دربار کے قریب دربارمارکیٹ میں’’ ادب لطیف‘‘ کا دفتر تھا۔فراغت کے لمحات (اوریہ لمحات ان دنوں عموماً میسر ہوتے تھے) میں دربار مارکیٹ میں اظہر جاوید کے ساتھ ہی گزارتا تھا۔لاہور میں مختلف ادبی تقریبات میں جن شخصیات نے مجھے متعارف کروایا ان میں اظہر جاوید منو بھائی اور ڈاکٹر انور سدید کے نام سرِ فہرست ہیں۔رفتہ رفتہ وہاں دوستوں کا حلقہ بنا ۔طفیل ابن گل،اطہر ناسک اور اختر شماربھی لاہور آگئے اور ہم ملتانیوں نے لاہور کی سڑکیں ماپنا شروع کردیں۔اظہر جاوید کی محبتیں ہم سب کو میسر رہیں۔کبھی کسی تقریب میں شرکت کا دعوت نامہ ان کی طرف سے موصول ہوتا ،کبھی ادب لطیف کے شمارے میں ہماری غزلیں شائع ہوتیں اور کبھی پاک ٹی ہاؤس کی کسی میز پر ان کے ہاتھ کی بنی ہوئی چائے ہمارے سامنے ہوتی۔1988ء میں جمہوریت بحال ہوئی تو اظہر جاوید بھی امروز میں واپس آگئے ۔میں اب ملتان آچکا تھا۔’’ملتان ماء‘‘ کے نام سے میں نے امروز میں ہفتہ وار کالم تحریر کرنا شروع کیا۔اظہر جاوید یہ کالم بہت اہتمام کے ساتھ شائع کرتے تھے۔کالم میں ملتان کے ادبی منظر نامے کا احوال بیان ہوتا اورکچھ چٹکیاں بھی لی جاتیں۔ہرکالم کی اشاعت پر ملتان سے شدید ردعمل سامنے آتا۔میں اس ردعمل سے بے خبر رہتا کہ اظہر جاوید خود ہی یہ دباؤ برداشت کرتے تھے۔1990.91ء کی بات ہے مظفر گڑھ میں ایک مشاعرہ ہوا تو میں نے افشاں عباس کے بارے میں یہ لکھ دیا کہ انہوں نے مشاعرے میں غزل یوں سنائی جیسے موت کے کنویں میں موٹر سائیکل چلارہی ہوں۔اشارہ ان کے والد سردار غلام عباس کی جانب تھا۔اس سے پہلے میں ایک کالم میں یہ بھی لکھ چکاتھا کہ گورنر سجاد حسین قریشی نے دو ہی تو اچھے کام کیے ،ایک دولت گیٹ چوک کو کشادہ کیا اور دوسرا عرش صدیقی صاحب کوملازمت میں توسیع دی ۔مسعوداشعر امروز کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر تھے ۔ان کے نام سردار غلام عباس نے خط تحریر کیا جس میں لکھا تھا کہ’’ رضی الدین رضی بلیک میلر ہے ،بزرگوں کی پگڑیاں اچھالتا ہے ،آپ نے عرش صدیقی صاحب کے گھر کھانے پر وعدہ کیاتھا کہ لاہور جا کر رضی کا کالم بند کردیں گے افسوس کہ یہ وعدہ اب تک پورانہیں ہوا‘‘۔ مطالبہ کرنے والوں میں ڈاکٹر انوار احمد ،فیاض تحسین اورنعیم چودھری صاحب کانام بھی درج کیا گیا تھا۔ مسعود اشعر نے یہ خط اظہر جاوید کے حوالے کردیا ۔اگلے شمارے میں اظہر جاوید نے یہ خط من وعن شائع کردیا اور ساتھ میں مجھے فون کیا کہ آپ کے خلاف خط شائع کررہا ہوں ۔آپ وضاحت ارسال کریں وہ بھی شائع کر دوں گا۔میرے جواب سے پہلے عرش صاحب کی وضاحت آگئی کہ رضی بلیک میلر نہیں ہے۔ میرے گھر کھانے پر اس کی شکایت تو کی گئی لیکن کالم بند کرنے کا مطالبہ نہیں کیاگیاتھا۔دوسری وضاحت ڈاکٹر انواراحمد نے کی ان کی رائے بھی کم وبیش عرش صدیقی والی تھی۔یوں غلام عباس کے خط میں عائد کیے جانیوالے تمام الزامات کی ازخود تردید ہوگئی۔یہ انداز صحافت تھا اظہر جاوید کا اور یہی ان کا انداز محبت تھا۔
اخبار ہو یا رسالہ وہ اظہاررائے کی آزادی پر یقین رکھتے تھے۔ماہنامہ ’’تخلیق ‘‘مجھے جب بھی موصول ہوا میں سب سے پہلے ابتدائی صفحات پر شائع ہونیوالا اظہر جاوید کااداریہ’’اپنی بات ‘‘ پڑھتا اور پھر آخری صفحات میں انجمن خیال کے نام سے شائع ہونیوالے خطوط کا مطالعہ کرتا۔ادبی جرائد میں’’ تخلیق‘‘اب واحد جریدہ تھا جس میں شائع ہونیوالے خطوط دلچسپی کے ساتھ پڑھے جاتے تھے۔انجمنِ خیال کی صورت میں انہوں نے ’’تخلیق ‘‘ میں ایک ہائیڈ پارک قائم کر رکھا تھا ، جہاں ادب ،سیاست سمیت ہر موضوع پر اظہارِ خیال ہوتا تھا ۔اظہر جاوید ریفری کا کردار ادا کرتے ۔جب کوئی بحث کسی نازک موڑ پر پہنچتی تو وہ بہت خوبصورت انداز میں اسے سمیٹ دیتے۔ایسے کہ کسی کی دل شکنی بھی نہ ہو اور سب کی بات رہ جائے ۔ڈاکٹر انور سدید ، اعزاز احمد آذر، کنول فیروز،حسین شاد، محمود شام ، اختر مرزا اور بہت سے دوسرے قلمکار اس محفل کے مستقل لکھاری رہے۔ایک اظہر جاوید کے جانے سے یہ ادبی خاندان بکھر کر رہ گیا ۔ یہ سب لوگ اسی ایک جریدے میں ایک دوسرے سے ملتے تھے ۔اظہر جاوید نے ’’تخلیق ‘‘کی صورت میں ایک شمع روشن کر رکھی تھی اور پروانے اس شمع کے گرد رہتے تھے ۔تخلیق کی اشاعت چار عشروں پر محیط رہی ۔ ادب سے تعلق رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ کسی ادبی جریدے کو تسلسل کے ساتھ شائع کرنا کتنا مشکل کام ہے۔اظہر جاوید نے خود کو تخلیق کے لئے وقف کر رکھا تھا ۔مشکل سے مشکل حالات میں بھی اس کی اشاعت جاری رکھی۔’’اپنی زندگی میں تو اسے مَیں بند نہ ہونے دوں گا‘‘ اپنا کہا انہوں نے سچ کر دکھایا۔تخلیق کی اشاعت کے تیس سال تو ہم نے بھی دیکھے ۔اظہر جاوید کو ہم نے ہمیشہ کسی معاون کے بغیر تنِ تنہا کام کرتے دیکھا ۔رسالے کی ترتیب، تدوین اور اشاعت سے لے کر ترسیل تک کے تمام مراحل میں وہ متحرک رہتے تھے ۔ ہرقاری کے ساتھ ان کاذاتی تعلق تھا ۔رسالے کے لفافے پر نام اور پتہ بھی اپنے ہاتھ سے تحریر کرتے تھے کہ کمپوز شدہ پتوں سے ذاتی تعلق کی مہک نہیں آتی۔7فروری 2012 ء کو مجھے ان کی جانب سے تخلیق کا جو آخری شمارہ موصول ہوا اس کا پتہ بھی انہوں نے سبز مارکر کے ساتھ اپنے ہاتھ سے تحریر کیا تھا ۔شاید 5یا 6فروری کو تحریر کیا ہو گا ۔اور جب میرا نام لکھا ہو گا تو مجھے یاد بھی کیا ہو گا ۔شاید مسکرائے بھی ہوں ۔زیرِ لب ’’جیوندے وسدے رہو‘‘ بھی کہا ہو ۔
تخلیق میں ایک وسیع حلقہ خواتین لکھاریوں کا موجود تھا ۔ بہت سی خواتین اظہر جاوید کے حلقہء ادارت میں شامل تھیں ۔وہ خواتین کو اہتمام کے ساتھ شائع کرتے اور خوشبو دار خطوط کے معطر جواب بھی دیتے ۔تخلیق میں کسی بھی خاتون کے لئے اشاعت کی پہلی شرط یہ ہوتی تھی کہ اس کی تحریر با تصویر ہونا چاہئے ۔یہ ایک لگا بندھا اصول تھا جس پر اظہر جاوید نے کبھی سمجھوتہ نہ کیا۔وہ اس معاملے میں کوئی سفارش بھی قبول نہ کرتے تھے ۔ان کی یہ زندہ دلی آخری دن تک برقرار رہی ۔دو روز قبل بھی انہوں نے ایک لکھار ی سے ویلنٹائن ڈے پر فون کا وعدہ لیا تھا ۔لیکن اس مرتبہ ویلنٹائن ڈے انہو ں نے نئے ڈھب سے منانا تھا ۔سرخ گلاب اوڑھ کر منانا تھا ۔
پرانی انارکلی میں بھگوان سٹریٹ پر ان کا دفتر کئی برسوں سے پاک ٹی ہاؤس کی کمی پوری کر رہا تھا ۔ایک محفل وہاں آباد رہتی اور اس محفل کی مرکزی شخصیت اظہر جاوید ہی ہوتے تھے ۔بھگوان سٹریٹ محبت کے اس بھگوان کی وجہ سے آباد رہتی تھی۔چہار جانب کتابوں ،رسائل اور مسودوں کا انبار اور ایک کرسی پر بیٹھے ہنستے مسکراتے اظہر جاوید۔وہ خود مہمانوں کے لئے چائے بناتے ،کرسی سے اٹھ کر سب کی مدارت کرتے ۔شاعری ،سیاست ، مذہب اور فلسفہ سب کچھ زیرِ بحث آتا اور ساتھ میں خوشبو دار گفتگو بھی جاری رہتی۔
وہ عمر بھر اصولوں پر کار بند رہے ۔روشن خیالی کے علمبردار ۔وہ روایات کے امین تھے ۔اقدار پر یقین رکھتے تھے ۔بہت سے اصول ،بہت سے قواعد اور بہت سی روایات جنہیں ہم ترک کر چکے ہیں اظہر جاوید اور ان کے تخلیق میں دکھائی دیتی تھیں۔یہ سب روایات ،یہ سب اصول ایک ایک کر کے ختم ہو رہے ہیں۔انہوں نے اپنے رسالے کو اپنی ذات کے لئے کبھی استعمال نہ کیا۔نہ اس کے ذریعے کوئی مفاد حاصل کیا۔ان کی اپنی تحریریں بھی ان کے اپنے رسالے میں بہت کم شائع ہوتی تھیں ۔وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ مدیر کو اپنے رسالے میں خود نمایاں نہیں ہونا چاہئے ۔ہم نے انہیں سرکاری مشاعروں میں بھی کم کم ہی دیکھا۔لاہور جیسے شہر میں رہ کر بھی وہ ٹی وی اور فلم سے دور رہے۔محبت ان کا اوڑھنا بچھونا تھا اور یہی ان کی شاعری کا بنیادی موضوع بھی ۔ویلنٹائن ڈے پر سرخ گلاب اوڑھنے والے اظہر جاوید ہمارے دلوں میں ہمیشہ مسکراتے رہیں گے ۔وہ اب ہمارے درمیان نہیں لیکن ان کی یہ محبت بھری آوازہمیشہ ہمارے کانوں میں گونجتی رہے گی ’’جیوندے وسدے رہو۔رب راکھا‘‘