رضی الدین رضیسرائیکی وسیبکالملکھاری
خشک پتے کی سرسراہٹ اور ضیغم شمیروی ( وفات ۔ 17 فروری 2005 ء ) ۔۔ رضی الدین رضی

سترہ اور اٹھارہ فروری کی درمیانی شب ہوا بہت تیز اور یخ بستہ تھی۔ سردی بدن کو چیرتی ہوئی ہڈیوں میں سرایت کرتی تھی۔ لوگ گھروں میں دبکے ہوئے تھے سڑکیں اور گلیاں 3 بجے شب تویوں بھی ویران ہوتی ہیں مگر اس روز کوئی اکا دکا راہ گیر بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ گلی محلوں میں سائیکلوں پر گھومنے والے چوکیدار اس پہر ایک آدھ سیٹی بجا کر یا ڈنڈا سڑک پر مار کر سناٹے کو کبھی کبھار توڑ دیا کرتے ہیں، مگر اس روز وہ بھی شاید کسی چائے خانے کی انگیٹھی پر ہاتھ تاپ رہے تھے۔ خدا معلوم کیوں تیز ہوا بھی گھٹن کا احساس بڑھا رہی تھی۔ ایک ویران اور تاریک سڑک پر ایک اجنبی کے قدموں کی چاپ گونجتی تھی اور ایک خشک پتے کی سرسراہٹ تھی۔ تیز ہوا کی زد میں آیا ہوا وہ پتہ جب سڑک پر گھسٹتا تھا تو فضا میں پھیلی ہوئی اداسی مزید بڑھ جاتی تھی اور پھر اجنبی کے قدموں کی چاپ اس پتے کی سرسراہٹ کے ساتھ ہم آواز ہوجاتی تھی۔ کبھی تویوں محسوس ہوتا کہ پتے کی سرسراہٹ اجنبی کے قدموں کی چاپ جیسی ہے اورکبھی یوں لگتا کہ جیسے وہ اجنبی خود ایک خشک پتے کی طرح ہوا کی زد میں ہے جو اسے اُڑائے لئے جارہی ہے۔ خشک پتے اور ہوا کی آنکھ مچولی اجنبی کیلئے ایک تماشا تھی وہ اس تماشے کو دیکھتا تھا بہت غور سے دیکھتا تھا کہ اس تاریک سڑک پر دیکھنے کے لئے اورکوئی منظر تھا بھی نہیں۔ خشک پتا اُ ڑ کر کبھی سڑک کنارے گھاس میں الجھتا کبھی سڑک کے دائیں کنارے کی جانب جاتا اورکبھی ہوا اسے سڑک پار کراکے بائیں کنارے پر لے جاتی۔ پتا کبھی کسی جھاڑی میں الجھتا تو کافی دیر الجھا رہتا۔ اجنبی کاجی چاہتا کہ وہ اسے آگے بڑھ کر جھاڑی سے نکلنے میں مدد دے، اسے آگے بڑھنے کا حوصلہ دے مگر پھر اجنبی خود بھی رک جاتا۔ سڑک پہ قدموں کی چاپ اور سرسراہٹ دونوں ختم ہوجاتے۔ سناٹا اور بھی گمبھیر ہوجاتا ۔کچھ دیر کیلئے یوں محسوس ہوتا کہ جیسے خشک پتے کو جھاڑیوں نے ہوا کی زد سے بچالیا ہے پناہ دیدی ہے ،مگر ہوا بہرحال خشک پتے کیلئے تو زور آور ہی ہوتی ہے۔ ایک قدرے تیز جھونکا اسے پھر سڑک پر گھسیٹ لاتا۔ پتے کی سرسراہٹ اور اجنبی کے قدموں کی چاپ ایک بار پھر سڑک کو آباد کردیتی۔ یہ آنکھ مچولی کافی دیر تک جاری رہی اور پھر ایک جھونکا اتنا شدید آیا کہ وہ خشک پتے کو یکدم اُڑا کر دور لے گیا۔ دور بہت دور۔ اتنی دور کہ اجنبی کوششوں کے باوجود اس خشک پتے کو دوبارہ تلاش نہ کرسکا۔ خشک پتے کی یہ روداد ہم ہرگز بیان نہ کرتے اگر 18 جنوری کو قمر رضا شہزاد فون پر ہمیں یہ نہ بتاتا کہ شاعر، ادیب اور دانشور پروفیسر ضیغم شمیروی 17 جنوری کودل کا دورہ پڑنے سے خانیوال میں انتقال کر گئے۔ انہیں اسی روز سپردخاک بھی کردیا گیا اور اہلِ ملتان کو ان کے انتقال کی خبر ہی نہ ہوسکی۔ اخبارات کے اندرونی صفحات پر ایک آدھ خبر شائع بھی ہوئی مگر ایسی کہ کسی کی نظر سے بھی نہ گزری۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ شاعر، ادیب اور دانشور جن کا عمر بھر کاغذ، قلم اور اخبارات و رسائل سے تعلق رہتا ہے ان کی موت اتنی غیر اہم کیوں ہوتی جارہی ہے؟ اتنی غیر اہم کہ جب وہ رخصت ہوتے ہیں تو قدموں کی چاپ تو دور کی بات خشک پتے جیسی سرسراہٹ بھی سنائی نہیں دیتی۔ ضیغم شمیروی عمر بھر شعبہ تعلیم سے وابستہ رہے۔ شاعری ان کا اوڑنا بچھونا تھا۔ شعبہ تعلیم سے وابستہ اِس عہد کے اصحاب مالی طور پر مستحکم ہوتے ہیں مگر ضیغم شمیروی اس عہد کے معلم نہیں تھے ان کیلئے دنیاوی آسائش کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ انہوں نے اپنے لئے وہ راہ اختیار کی کہ جس میں آسائشیں کم ہی میسر آتی ہیں۔ کبیروالا کے معروف شاعر وفا حجازی کا انتقال ہوا تو ان کا شعری اثاثہ جمع کرکے شائع کرنے والوں میں ضیغم شمیروی شامل تھے۔ مگر کیسی عجیب بات ہے کہ وہ عمر بھر اپنا شعری مجموعہ شائع نہ کرسکے۔ ان کی غزلیں کمپوزنگ اور پروف ریڈنگ کے مراحل تو طے کرگئیں مگر اس کے بعد کتاب شائع کرانے کے لئے سرمائے کی ضرورت تھی اورجس کے پاس شعری سرمایہ موجود ہو اس کے پاس کوئی اور سرمایہ بھی کہاں سے آسکتا ہے ۔سو کوشش کے باوجود ان کی زندگی میں انکی کتاب شائع نہ ہوسکی۔ قمر رضا شہزاد نے ہی بتایا کہ مرحوم نے اپنی موت سے چند ماہ قبل ایک مضمون میں اپنی کتاب کی عدم اشاعت پر ملال کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اگر میری کتاب میری زندگی میں شائع نہ ہوسکے تو میری موت کے بعد اسے شائع کرانے کی ضرورت نہیں، میرے مرنے کے بعد بے شک میرا کلام نذر آتش کردیا جائے۔ ظاہر ہے اپنی کتاب کی اشاعت کی مسرت ایک شاعر ہی حاصل کرسکتا ہے اور اگر وہ اپنی زندگی میں یہ مسرت حاصل نہ کرسکے تو اسے پھر اس سے کوئی غرض ہی نہیں رہتی کہ اس کا کلام شائع ہوگیا یا جلا دیا گیا۔ افسوس کہ ہم ضیغم شمیروی کو ان کی زندگی میں مجموعہ کلام کی اشاعت کی مسرت عطا نہ کرسکے۔ تو اے اہلِ ادب کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ اب ان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے ان کا کلام نذر آتش ہی کردیا جائے؟ اور اسے جلانے کے لئے اگر خشک پتے بھی کہیں سے میسر آجائیں تو زیادہ بہتر ہوگا کہ خشک پتے آگ بھی جلدی پکڑتے ہیں اور جب ضیغم شمیروی کے کلام کے ساتھ خشک پتے بھی بھسم ہوجائیں گے تو سردیوں کی ٹھٹھرتی راتوں کو تیز ہوا سے پیدا ہونے والی سرسراہٹ کسی اجنبی کو اپنے تعاقب میں مجبور بھی نہیں کرے گی۔
25 فروری 2005 ءروزنامہ جنگ ملتان