گزشتہ ماہ ہم نے مناظرحسین نظرکے اعزازمیں برپاہونے والی اس ادبی تقریب کاذکرکیاتھاجس کااہتمام انجمن ثقافت پاکستان نے کیااورجس کے لئے سامعین کاانتظام خودمناظرحسین منظرکوکرناپڑا،یوں تقریب میں ادیب اورشاعرکم نظرآرہے تھے لیکن محکمہ اوقاف کے ملازمین کی تعدادزیادہ تھی۔آج مناظرصاحب کاتذکرہ دوبارہ کرناپڑاتووجہ اس کی یہ ہے کہ شہر میں ایک سرکلرمختلف شاعروں ادیبوں میں تقسیم ہواہے جس میں مناظرصاحب پرکم اوردیگرادیبوں پرزیادہ الزامات عائد کئے گئے ہیں ہمیں افسوس ہے کہ ہم وہ سرکلرخودنہیں دیکھ سکے لیکن شہرکے مختلف علاقوں میں مختلف حلقوں میں زیربحث اس سرکلر کے بارے میں ہمیں خاصی معلومات حاصل ہوگئی ہیں ۔یہ سرکلردراصل ایک درخواست کی شکل میں ہے جوانٹی کرپشن کے سربراہ کے نام تحریرکی گئی ہے ۔درخواست دہندہ کے طورپرسکندرخان کانام درج ہے اوراس کاپتہ کمہارمنڈی ملتان ہے ۔ظاہرہے یہ نام جعلی ہے اس نام کاکوئی شاعریاادیب اس شہرمیں موجودنہیں ہم نے بہت سے ادیبوں اورشاعروں سے یہ درخواست حاصل کرنے کی کوشش کی تاکہ ہمارے اس کالم کوچارچاندلگ جائیں مگرافسوس کہ ہمیں ناکامی کاسامناکرناپڑا۔جن ادیبوں اورشاعروں کے نام اس درخواست میں درج تھے انہوں نے شرمندگی کے باعث اس کی زیارت نہ کرائی اورجن کے نام درج نہیں تھے انہوں نے اسے یادگارکے طورپراپنے پاس محفوظ کرلیا۔ بہت سے ادیبوں شاعروں کویہ درخواست حاصل کرنے اوراس کی زیارت کااشتیاق ہے مگرافسوس کہ یہ درخواست اب سینہ بہ سینہ ہی سفرکررہی ہے ہم تک جومعلومات پہنچیں ان کے مطابق سکندرخان کے فرضی نام سے درخواست لکھنے اوراس کی فوٹوکاپیاں تقسیم کرنے والا دراصل محکمہ اوقاف کاکوئی ملازم ہے جس نے مناظرحسین نظرسے کوئی بدلہ لیاہے۔درخواست میں مناظرحسین نظرصاحب کورشوت خورافسرقراردیاگیاہے اوربتایاگیاہے کہ وہ اس سے پہلے کتنی مرتبہ رشوت لینے کے الزام میں نوکری سے برطرف اورپھربحالی کی منازل طے کرچکے ہیں۔درخواست میں مناظرصاحب کے اعزازمیں ہونے والی تقریب کابھی ذکرہے جس کے (درخواست دہندہ کے بقول )تمام اخراجات مناظرصاحب نے خود برداشت کئے اورمقالہ نگاروں کو دو،دوہزارروپے بھی ادا کئے ۔درخواست دہندہ نے ڈاکٹرفرحت عباس پرمناظرصاحب سے کلینک بنوانے اور ناصربشیرراٹھورپرپندرہ سوروپے ماہانہ وظیفہ لینے کابھی الزام لگایاجس کی ان دونوں حضرات نے پرزورتردیدکردی ہے ۔ ہم تو ان کی تردید سے پہلے بھی اس الزام کو محض دروغ ہی سمجھتے تھے ۔سکندرخان کی درخواست میں لکھاہے کہ مناظرحسین نظراپنی شہرت کے لئے ادیبوں اورشاعروں کی دعوتیں کرتے ہیں اورپھران سے اپنے لئے معاوضے پرمضامین بھی لکھواتے تھے۔درخواست میں پروفیسرعاصی کرنالی کاذکرباربارکیاگیاہے اورالزام عائد کیاگیاہے کہ انہوں نے مناظرحسین نظرسے سب سے زیادہ ” وصولیاں“ کیں ۔اس کے علاوہ بھی بعض ادیبوں پرالزامات عائد کئے گئے ہیں جواس حدتک شرمناک ہیں جوہم ضبط تحریرمیں بھی نہیں لاسکتے۔مناظرصاحب کی دعوتیں ہم نے ہی نہیں اوربھی بہت سے شاعروں ادیبوں نے کھائی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ خودہمارانام بھی اس درخواست میں موجودہے لیکن ہماری مجبوری یہ ہے کہ اگرکوئی شخص اپنی ایک غزل سنانے یااپنے فن پرمضمون لکھوانے کے لئے کوئی دعوت کرہی دیتاہے توہم سے بھی عاصی کرنالی اوردیگراحباب کی طرح انکارنہیں ہوتا، ویسے بھی ہمارے نزدیک ایسے مواقع پرانکارکرنابدتہذیبی کی علامت ہے ۔سکندرخان نے یہ درخواست لکھ کربہت زیادتی کی اب ہم جیسوں کودعوتیں کون کھلائے گا۔؟مناظرصاحب کی دعوتوں کافائدہ یہ تھاکہ وہاں عاصی کرنالی ،حز یں صدیقی ،ہلال جعفری جیسی بلندپایہ ہستیوں سے ملاقات ہوجاتی تھی اورمناظرصاحب کی شاعرانہ صلاحیتوں کے بارے میں ان کے بصیرت افروزخیالات بھی سننے کومل جاتے تھے۔واہ میاں سکندرخان آپ نے توہمیں مستقل تفریحی سے محروم کردیا۔
ہم یہ کالم سمیٹنے ہی والے تھے کہ ملتان میں ہونے والے نعتیہ مشاعرے کی خبرموصول ہوگئی۔یہ مشاعرہ بہاﺅالدین زکریاملتانی کے عرس کے موقع پرمحکمہ اوقاف کے زیراہتمام منعقدہوا ملک بھرسے شعراءکرام تشریف لائے میزبانی چونکہ محکمہ اوقاف نے کی تھی اس لئے شعراءکواگلے روز مناظرحسین نظرکی کتاب ”شہرسخن“کی تعارفی تقریب میں بھی شرکت کرناپڑی۔تقریب کی صدارت مخدوم سجادحسین قریشی نے کی ،مہمان خصوصی علی نوازگردیزی اورغضنفرمہدی تھے ،سٹیج سیکرٹری کے فرائض حسین سحرنے انجام دیئے مقررین میں انورجمال ،عاصی کرنالی،حسن رضوی ،عطاءالحق قاسمی ،عارف عبدالمتین اورمحشربدایونی کے نام شامل ہیں۔
روزنامہ جسار ت کراچی14اکتوبر1988
فیس بک کمینٹ