افسوس یا خوشی تو اسے ہوتی ہے، جس نے اپنی زندگی میں کسی بھی قسم کی اچھی یا بُری توقعات وابستہ کی ہوتی ہیں۔ ہمارا شمار تو اس طبقے میں ہوتا ہے کہ جہاں لوگوں کو اب کسی اچھی یا بُری خبر کی کوئی توقع ہی نہیں ہوتی۔ بس یہ بہت سی منفی خبریں اور حادثات یا کوئی اکادکا خوشی اچانک ہماری زندگیوں میں وارد ہوتی ہے اور ہم پر کوئی منفی یا مثبت اثر مرتب کیے بغیر گزرجاتی ہے۔گویاہم، اور ہم جیسے بہت سے لوگ اب ایسے فول پروف نظام میں داخل ہوچکے ہیں کہ جہاں ہمیں آگ کی تپش محسوس ہوتی ہے اور نہ ہی ٹھنڈی ہوا فرحت بخشتی ہے۔المیہ یہ بھی ہوا کہ دکھوں کی بہتات کے نتیجے میں ہم نے مسلسل آزردگی اپنے بدن پر اوڑھ لی اور ایسے میں کبھی خوشی کا کوئی بھولا بھٹکا لمحہ ہمیں میسر آ بھی جائے تو ہم اس سے لطف کشید نہیں کرتے ۔
آپ کہیں گے کہ یہ کیسی مایوسی والی گفتگو شروع کردی ہم نے ۔اصل میں تو یہ ان تمام سوالات کا جواب ہے جو سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد کچھ لوگوں نے دانشور یا شاید لال بجھکڑ سمجھ کر ہم سے کرڈالے۔20 اپریل کی صبح بہت سے دوست تسلسل کے ساتھ یہ پوچھتے رہے کہ سنائیے بھلا آج کیا فیصلہ آرہا ہے ؟ عرض کیا کہ فیصلہ جنہوں نے سنانا ہے انہیں بہترمعلوم ہوگا۔یہ بھی کہا کہ دوستو، ہمارا نہ حکمران جماعت سے تعلق ہے اور نہ ہی ہمیں اپوزیشن سے کوئی ہمدردی ہے۔ہم نہ کسی چینل سے وابستہ ہیں کہ اپنی چڑیا کے ذریعے کوئی پیشگوئی کر سکیں۔ یا طوطا فال والے کو اپنے سٹوڈیو میں بلالیں ، یا پھرکسی زائچے والے سے کہیں کہ ہمیں اور ہمارے ناظرین کو ستاروں کا حال توبتاﺅ ، اور پھروہ زائچہ فروش اپنی خواہشات کو پیشگوئی کے طور پر بیان کردے، اور بتائے کہ دیکھئے اگر ستاروں کی گردش ایسی ہی رہی تو نوازشریف کے اقتدار کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا۔اگر فیصلہ ان کے حق میں آیا تو سو بسم اللہ، اور اگر نہ بھی آیا ، تو ستاروں اور شیخ رشید کی چال یہ بتاتی ہے کہ نوازشریف کے اقتدار کو پھربھی کوئی خطرہ نہیں ہوگا، اور وہ وزارت عظمیٰ پر اسی طرح فائز رہیں گے۔
ہم نے یہ بھی گزارش کی کہ دوستو نہ تو ہم ماہرقانون ہیں اور نہ ہی آئینی مو شگافیوں کو جانتے ہیں۔ سوہمارا پانامہ کیس سے بھلا کیا لینا دینا۔اورپھرجب فیصلہ آگیا تو گویا سب کی پیشگوئیاں درست ثابت ہوگئیں۔افسوس صرف انہیں ہوا جنہوں نے کوئی اچھی یا بری توقعات وابستہ کررکھی تھیں۔خوش قسمت تو وہ ہیں کہ جنہوں نے اس دودھاری فیصلے کے نتیجے میں دونوں طرف سے مٹھائیاں کھائیں،ڈھول بجائے اور رقص کیا۔ دودھاری تلوار اگرچہ بے رحمی سے قتل کرتی ہے لیکن یہ عجب دودھاری فیصلہ تھا کہ جس نے کسی کو قتل ہی نہیں کیا۔ہماری کیا مجال کہ فیصلے پر کوئی اعتراض کریں یا حکمرانوں سے استعفے کا مطالبہ کریں۔ ہم تو ان سیاست دانوں میں بھی شمارنہیں ہوتے کہ جو ایک روز تو اس فیصلے پر خوشی کا اظہارکرتے ہیں ،مٹھائی کھاتے ہیں اور پھراگلے ہی روزجب انہیں فیصلہ سمجھ آتا ہے، تو استعفے کا مطالبہ کرکے احتجاج شروع کردیتے ہیں۔حالات و واقعات کس نہج پر جارہے ہیں یا جانے چاہیں۔اس کا ادراک شاید کسی کوبھی نہیں۔
جو سامنے کی چیزیں ہیں وہ خدا معلوم ہمیں دکھائی کیوں نہیں دے رہیں۔اورسامنے کی بات تویہ ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف اس فیصلے کے اگلے ہی روز اسلامی فوجی اتحاد کے سپہ سالار بن گئے اوراب وہ کمان سنبھالنے کے لیے خصوصی طیارے پر سعودی عرب روانہ ہوچکے ہیں۔یہ طیارہ بھی ان کے لیے سعودی حکومت نے ہی بھجوایا تھا اورروانگی ان کی اسلام آباد کی بجائے لاہور سے ہوئی۔یہ سامنے کی بات اگرچہ بہت اہم ہے لیکن اگر اسے کوئی سپریم کورٹ کے فیصلے کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرے تو یہ اس کی حماقت ہوگی۔ وزارت دفاع کی جانب سے جنرل راحیل شریف کے لیے جو این او سی گزشتہ کئی ہفتوں سے جاری نہیں کیا جا سکاتھا ، اس فیصلے کی برکت سے وہ بھی جاری ہوگیا۔سامنے کی ایک اوربات یہ ہے کہ ایک سابق آرمی چیف کی بیرون ملک روانگی کے بعد دوسرے سابق آرمی چیف جنرل پرویزمشرف وطن واپسی کے لیے پرتول رہے ہیں اور شاید ان کی واپسی میں اب کوئی رکاوٹ بھی حائل نہیں ہوگی۔پرویز مشرف کابھلا قصور ہی کیا ہے۔ان پربس اکبر بگٹی اوربے نظیر بھٹو کے قتل اور آئین توڑنے کاہی الزام ہے نا۔اور یہ ابھی صرف الزام ہی ہے۔ان الزامات کو ثابت نہیں کیا جاسکا۔بالکل اسی طرح جیسے پانامہ کیس والے الزامات تادم تحریر ثابت نہیں ہوسکے۔پانامہ کیس کے لیے تو جے آئی ٹی بن گئی لیکن پرویز مشرف کے لیے تو جے آئی ٹی بنانا بھی ممکن نہیں ہوگا۔ہاں ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ جب وہ واپس آئیں گے تو یہ الزامات بھی کسی ٹرائل کے نتیجے میں آخرکار ختم ہوجائیں گے کہ الزامات لگائے ہی اس لیے جاتے ہیں کہ انہیں آخر کار ختم ہونا ہوتا ہے۔سامنے کی ایک تیسری بات بھی تو ہے جسے ہم اورآپ فراموش کررہے ہیں۔گزشتہ ہفتے چینلوں کاسب سے اہم موضوع مشعال قتل کیس تھا۔اس نوجوان کو جس بے دردی سے ہجوم نے قتل کیا اس کی مذمت جاری تھی کہ اچانک پانامہ کیس کی تاریخ آگئی۔گزشتہ چار روز سے مشعال کی جانب کسی نے دوبارہ پلٹ کربھی نہیں دیکھا۔کسی کو یاد بھی نہیں کہ ایک ہجوم نے ایک ایسے نوجوان کو قتل کردیا جو کرپشن کی بات کرتاتھا، خیبرپختونخواہ میں تعلیم کی زبوں حالی پر احتجاج کرتا تھا،کہتا تھا کہ ہمارے پروفیسر کرپٹ ہیں اور ہمارے صوبے میں کہیں بھی وائس چانسلر کاتقرر نہیں ہوا۔ایسے نوجوان کی آواز ختم کرنے کے لیے اس پر الزام بھی تو ایسا لگانا چاہیے تھا کہ اس کے زندہ بچ جانے کاایک فیصد امکان بھی باقی نہ رہے۔سو الزام لگا اور وہ نوجوان ر زق خاک ہوگیا۔
ہمارے ہاں موضوعات اور خبریں اسی طرح ایک آدھ دن میں ماضی کاحصہ بن جاتی ہیں۔اوران خبروں کے ساتھ ایک نہ ایک روزہم سب نے بھی ماضی کاحصہ ہی بننا ہے۔جی ہاں ہمیں ماضی کاحصہ ہی بننا ہے،لوڈشیڈنگ کا مقابلہ کرتے،گرمی میں تڑپتے ،بچوں کی فیسوں کے لیے پریشان ہوتے ،دہشت گردوں کے ہاتھوں مرتے،صبح سے شام تک روزی روٹی کے لیے تگ ودو کرتے، صاف پانی کے لیے قطاروں میں کھڑے ہوتے، سرکاری ہسپتالوں سے جعلی دوائیاں لے کر کھاتے، کسی کلرک کے ہاتھوں ذلیل ہوتے، ملاوٹ شدہ اشیائے خوردونوش کے ذریعے موت کی طرف بڑھتے،کچہریوں میں دھکے کھاتے، پٹواری کو رشوت دیتے، وکیلوں کی فیسیں بھرتے یا معمولی سے الزام پر نیب کی گرفت میں آتے۔
قارئین کرام ہمارے لیے تو یہ معاملات پانامہ کیس سے کہیں زیادہ اہم ہیں۔مانا کہ کرپشن کاخاتمہ بہت ضروری ہے ،مانا کہ ملکی دولت لوٹنے والوں کا احتساب ہونا چاہیے اورمانا کہ خاندانی اجارہ داریاں بھی ختم ہونی چاہیے۔مگر سب سے اہم معاملہ تو دہشت گردی اورانتہا پسندی کا ہے، لیکن حضور اگر دہشت گردی اورانتہا پسندی ختم ہوگئی تو ہماری روزی روٹی بھی تو ختم ہوجائے گی۔اور یہ تو ہم بھول ہی گئے کہ ہماری روزی روٹی تو اب سی پیک سے وابستہ ہے۔گوادر سے پشاورتک خوشحالی کی جولہر آنی ہے اس کے ثمرات سے بھی تو ہمیں اورآپ کو لطف اندوز ہونا ہے۔اور یہ ثمرات کوئی ایک دن میں تو حاصل نہیں ہوں گے۔اس کے لیے ہمیں قربانیاں دینا ہوں گی۔ آپ کو اگر ہماری باتوں میں کہیں کوئی طنز محسوس ہو تو خدارا ہماری نیت پر شبہ نہ کیجئے۔ہمارا تعلق حکمران طبقے سے نہیں ہے کہ ہم کہیں بھی بدنیتی کا مظاہرہ کریں۔بھائیو،ہمارا تعلق تو اس قبیلے یا طبقے میں ہوتا ہے جہاں لوگ جینے کے لیے نہیں ، مرنے کے لیے پیدا ہوتے ہیں۔پانامہ جیسے وی آئی پی فیصلوں کا ہماری زندگی سے بھلا کیا تعلق۔ملک میں تبدیلی خدانخواستہ آبھی گئی تو انہی لوگوں کی زندگیوں میں آ ئے گی جن پر زندگی پہلے بھی تنگ نہیں ہے۔
(بشکریہ ۔۔ روزنامہ خبریں)
فیس بک کمینٹ