عزیز میاں کو ہم سب بطور قوال کے جانتے ہیں اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ مرحوم اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے علاوہ بہت سی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ وہ اپنی طرز کے منفرد قوال تھے جو قوالی کی گائیکی کے مختلف انگوں کو ملا کر اپنا ایک منفرد انگ بنانے میں کامیاب ہوئے۔ قوالی میں مختلف شعراءکے منتخب کلام کی گرہیں لگانے سے اس کی خوبصورتی میں اضافہ ہو جاتا۔ جبکہ عزیز میاں کے ہاں گرہیں، سوال جواب کے انداز میں ہوتی تھیں۔ وہ قوالی میں اپنے پیشرو عظیم پریم راگی کے انگ کو اپنی تبدیلی کے ساتھ دوبارہ زندہ کرنے کے ساتھ ساتھ اسے مزید آگے بڑھاتے رہے۔ اسی وجہ سے ان کی قوالی اپنے ہم عصر قوالوں سے مختلف ٹھہری۔ اس کے علاوہ ان کی شخصیت بھی اب تک جو قوال ہمارے ہاں گزرے ہیں ان سے بالکل مختلف ہے۔ وہ تصوف کی راہ کے مسافر تھے اور تصوف کے الجھے راستوں کو آسان بنانے کے لیے وہ ہر وقت کسی نہ کسی صاحبِ کشف بزرگ کی تلاش میں رہتے تھے۔ اسی تلاش میں وہ کبھی ہند گئے تو کبھی سندھ۔ ملتان میں جب ان کو اپنے من کی مراد مل گئی تو پھر عزیز میاں نے وصیت کر دی کہ وہ ملتان میں اپنے مرشد صوفی ناظر حسین بابا توتاں والی سرکار کے قدموں میں دفن ہونا پسند کریں گے۔
عزیز میاں کی یہ وصیت ان کے گھر والوں نے سنبھال کر رکھ لی۔ کچھ عرصہ بعد عزیز میاں کو اپنے فن کے اظہار کے لیے ایران بلایا گیا۔ حکومتِ ایران نے ان کے لیے تہران میں خصوصی نشست کا اہتمام کر رکھا تھا۔ تہران جانے سے قبل بھی ان کی طبیعت ناساز تھی۔ لیکن اپنے فن کے اظہار کے لیے وہ ایران چلے گئے۔ وہاں جانے کے بعد بیماری نے شدت پکڑی اور وہیں انتقال کر گئے۔ وصیت کے مطابق ان کے جسدِ خاکی کو ملتان میں وہاڑی چوک کے قریب نوبہار نہر کے کنارے سیتل ماڑی قبرستان لایا گیا۔ ان کے مرشد صوفی ناظر حسین المعروف بابا توتاں والی سرکار کے قدموں دفن کیا گیا۔ اور پھر ایک دن مَیں راشد اشرف کی مرتبہ کتاب ”آفتاب علم و عرفان مولانا عبدالسلام نیازی“ کا مطالعہ کر رہا تھا کہ کتاب میں طارق مسعود کا تحریر کردہ مضمون ”مولانا عبدالسلام نیازی اور عزیز میاں قوال“ پڑھنا شروع کیا تو عزیز میاں کی شخصیت کے ایسے باب سامنے آئے جو نہ صرف حیرت انگیز تھے بلکہ کسی حد تک انتہائی پُراسرار تھے۔ طارق مسعود کا یہ مضمون 1995ء میں لکھا گیا۔ جبکہ عزیز میاں کا انتقال دسمبر 2000ء میں ہوتا ہے۔ اگر عزیز میاں کو اس مضمون کے مندرجات سے اختلاف ہوتا یا مضمون نگار کسی غلط روایت کا امین ہوتا تو عزیز میاں خود ہی اس مضمون میں موجود واقعات سے لاتعلقی کا اظہار کر دیتے۔ چونکہ عزیز میاں اس مضمون کی اشاعت کے پانچ سال بعد انتقال کرتے ہیں اس لیے طارق مسعود کا مضمون حرف بحرف درست دکھائی دیتا ہے۔
عزیز میاں کے متعلق یہ باتیں ہم اس لیے کر رہے ہیں کہ 17 اپریل ان کی پیدائش کا دن ہے۔ سوچا کہ ان کی سالگرہ کے موقع پر اپنے قارئین کرام سے کچھ ایسی باتیں شیئر کر لی جائیں جو اس سے قبل آپ کی نظر سے نہیں گزری ہوں گی۔ ذکر ہو رہا تھا طارق مسعود کے اس مضمون کا جس میں عزیز میاں کی شخصیت کے متعلق حیران کن انکشافات ملتے ہیں۔ عزیز میاں تو اپنی جگہ پر اہم ہیں لیکن ان کے ساتھ جس شخصیت کا تذکرہ ہے وہ عزیز میاں سے بھی زیادہ پُراسرار واقع ہوئی ہے۔
مولانا عبدالسلام نیازی کے پاس بھارت جانے سے قبل عزیز میاں کے زیرِ مطالعہ فتوحاتِ مکیہ تھی۔ جب عزیز میاں ”فتوحاتِ مکیہ“ کے عشق میں گرفتار ہوئے۔ تو تب انہیں کسی ایسے عالمِ دین کی تلاش ہوئی جو انہیں یہ کتاب سمجھا سکے۔ شیخ اکبر محی الدین کی تحریر کردہ فتوحاتِ مکیہ میں فلسفہ وحدت الوجود کو موضوع بنا کر مباحث کے کئی دَر وا کیے گئے ہیں۔ ایک طرف عزیز میاں فتوحاتِ مکیہ کے عشق میں مبتلا تو دوسری جانب کسی ایسے عالمِ دین کی تلاش تھی جو انہیں یہ کتاب پڑھا سکے۔ عزیز میاں نے میاں محمد یٰسین سے مشورہ کیا تو انہوں نے مولانا عبدالسلام نیازی کے پاس جانے کا مشورہ دیا اور حکم دیا اگر تم حقیقی معنوں میں شیخ اکبر محی الدین کی فتوحاتِ مکیہ کو فتح کرنا چاہتے ہو تو دہلی چلے جاؤ۔
مولانا عبدالسلام نیازی کا مختصراً تعارف یہ ہے کہ ان سے ڈاکٹر ابواللیث صدیقی، جوش ملیح آبادی، بھارت کے سابق صدر ڈاکٹر ذاکر حسین وغیرہ بھی استفادہ کرتے تھے۔ شاہد احمد دہلوی ان کے بارے میں اپنے ایک خاکے میں لکھتے ہیں ”ریواڑی میں مولانا ایک گانے کی محفل میں شریک ہوئے۔ ایک پڑھی لکھی طوائف گا رہی تھی۔ مولانا نے اس سے فرمائش کی تمہیں زیادہ سے زیادہ اشعار کی جو غزل یاد ہو سناؤ۔ اس نے کہا حضور غزل تو یاد نہیں ہاں ایک خمسہ یاد ہے۔ فرمایا سناؤ۔ اس نے چالیس بند کا ایک خمسہ سنایا۔ جب اس نے گانا ختم کیا تو مولانا نے تعریف کی اور فرمایا جو چیز مجھے پسند آ جاتی ہے وہ میرے حافظے میں محفوظ ہو جاتی ہے یہ کہہ کر پورا خمسہ اُسی ترتیب سے سنا دیا۔
میاں محمد یٰسین نے عزیز میاں کو دہلی روانہ کرتے ہوئے ہدایت کی کہ ”مولانا عبدالسلام کی کسی بات کو بے معنی اور بے مغز نہ جاننا اور ان کے کسی بھی رویہ سے بد دل نہ ہونا اور اگر مولانا سے تعلیم حاصل نہ کر سکو تو پھر لاہور واپس آتے ہوئے راستے میں جمنا بھی آتا ہے۔“
عزیز میاں لاہور سے پہلے امرتسر گئے۔ وہاں سے جنتا ٹرین میں بیٹھ کر دہلی پہنچے۔ قانون کے مطابق چاندنی محل تھانے میں اپنی آمد کا اندراج کرایا۔ نماز مغرب کے بعد حضرت مولانا عبدالسلام نیازی کے گھر جا پہنچے۔ عزیز میاں کے ہاتھوں میں دری، چادر اور تکیے کے علاوہ اک بریف کیس تھا۔ نیازی صاحب تو ویسے ہی مردم بے زار تھے خاص طور پر نئے آنے والوں کے ساتھ ان کا رویہ بہت سخت ہوتا تھا۔ انہوں نے حسبِ عادت سخت انداز میں عزیز میاں ”استقبال“ کیا۔ عزیز میاں ساری صورت حال کے لیے اس لیے تیار تھے کہ عین اُس وقت ان کے ذہن میں میاں یٰسین کے وہی الفاظ گونج رہے تھے جو لاہور سے چلتے وقت انہوں نے کہے تھے کہ مولانا عبدالسلام نیازی عشاء کے بعد کسی کو اپنے ہاں ٹھہرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ ایک طرف عزیز میاں کی رہائش مسئلہ اور دوسری جانب مولانا نیازی کا رویہ۔ اب عبدالسلام نیازی نے عزیز میاں سے آنے کا مقصد پوچھا۔ جواب دیا ”فتوحاتِ مکیہ پڑھنے آیا ہوں۔“ کیا پاکستان میں فتوحاتِ مکیہ پڑھانے والا کوئی نہ ہے؟ عزیز میاں نے کہا مَیں صرف آپ سے پڑھنا چاہتا ہوں۔ یہ سنتے ہی مولانا نے خاموشی اختیار کر لی۔ دوسری طرف عزیز میاں دل ہی دل میں سوچ رہے تھے اگر مولانا نے آمادگی کی بجائے انکار کر دیا تو پھر اگلا ٹھکانہ کون سا ہو گا؟(جاری ہے)
(بشکریہ ۔۔ روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ