اب جب کہ دو ماہ سے بھی کم مدت میں ستر برس کا ہو جاﺅں گا،اپنی دانست میں’باقی ماندہ ایام ‘ میں دو تین تنقیدی کتب کے علاوہ یادداشتیں لکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں( شایدیہ ملک الموت کے روبرو ایک طرح کا مکرِ شاعرانہ ہو) ۔ دوستو! یادیں اچھی یا بری ہوں،یاد کرنے والا اس پر ایک رومانوی یا طلسمی خول چڑھائے رکھتاہے ،خاص طور پر جب آپ نے اپنی زندگی کے کم و بیش دو عشرے اپنے شہر اور اس کے اداروں اور پیاروں سے دور گذارے ہوں۔
مجھے یاد ہے کہ اوساکا یونیورسٹی ( جاپان) کے قیام کے آخری مہینے میں مجھے مسلم سکول کا ایک بہت سنجیدہ کلاس فیلو اللہ رکھا ضیا،بے اختیار یاد آنا شروع ہوا،جو سکول کے زمانے میں ہی غلام احمد پرویز کی عقلی ،منطقی اور اجتہادی بصیرت کا ذکر بہت کرتا تھا۔غالباً و ہ ہم سب میں پہلا تھا جس کے مضامین نفسیات سے متعلق ایک میگزین میں دسویں جماعت پاس کرنے سے پہلے ہی چھپنے شروع ہوئے ۔پھر وہ میرے ساتھ باغ لانگے خان لائبریری کا رکن بنا اور تب سے ہم ہر تین یا چار سال کے بعد ہونے والے انتخابات میں انتظامیہ کا تختہ الٹنے کا منصوبہ بناتے تھے،پر ہمیشہ ایسے انتخابات میں سیون اپ فیکٹری سے دو،تین سو نئے ارکان کا چندہ جمع کرا دیا جاتا اور مجھے اور اے آر ضیا کو اٹھا کر باہر سڑک پر پھینک دیا جاتا۔ بعد میں اس نے ایم اے اسلامیات کیا،لا سال ہائی سکول میں برسوں پڑھایا ،پھر سول لائینزکالج میں آ گیا( میری کتاب میں سید صفدرامام مرحوم کے خاکے میں ضیا کا ذکر بھی ہے) سو میں ملتان پہنچا تو میں اضطراب اور اشتیاق میں اے آر ضیا کے گھر پہنچا،وہاں پتہ چلا کہ چند ماہ پہلے وہ تو فوت ہو گیا۔ پھر ایک عرصہ تک میں اپنے پرانے دوستوں کی تلاش میں والہانہ پھرا، اندرون بوہڑ گیٹ رہنے والا اور اپنی ایک دل دادہ طوائف کا ذکر کر کے ہمارے دل کو مسوسنے والا جہانگیر تو بہت جلد چل بسا، چوک شہیداں اور بعد میں الرحیم کالونی کے ساکن عمر حیات کے بارے میں بھی پتہ چلا کہ وہ بھی چل بسا ہے،عمر دین اور محمد یٰسین کا بھی یہی حال ہوا کہ چپکے سے شہر خموشاں کی نذر ہوئے ،ایسے میں شاید کوئی دو برس کے بعد ایمرسن کالج ملتان میں مجھ سے ایک برس جونیئر یعنی اصغر ندیم سید اور محسن نقوی کا کلاس فیلو سید مسعود کاظمی مجھ سے ملنے آیا تو میں اس سے بڑے تپاک سے ملا مگر عجیب بات یہ تھی کہ ذہن میں ایک انتباہی بتی جلنے لگی،یہی بتی ایک مرتبہ پروفیسر فتح محمد ملک صاحب کے ساتھ بیٹھے ایک مانوس اجنبی کی جانب سے مجھے بہت شناسا سلام کرنے اور یہ کہنے پر جلی تھی’سر،میں نے زکریا یونیورسٹی سے ایم اے انگریزی کیا اور تب آپ کے کمرے میں بھی کبھی کبھار رہنمائی اور تبادلہ خیال کے لئے آ جاتا تھا‘ مگر میں اس سے یہ کہے بغیر نہ رہ سکا کہ یار مجھے آپ جیسے عزیز سے مل کر جوخوشی ہونی چاہیئے،وہ نہیں ہو رہی کہ کوئی مجھے آپ کے بارے میں انتباہ کرتا رہا ہے کہ آپ طاقت وروں کے لئے کام کرتے ہو،اس لئے بات چیت میں احتیاط، احتیاط!‘ اس نوجوان کے چہرے کا رنگ بدل گیا،ملک صاحب نے بھی شاید میرے تبصرے یا یادداشت کو اونٹ کی یادداشت خیال کیا،مگر ملک صاحب کے صاحبزادے طاہر ملک نے بعد میں میری قیافہ شناسی کی داد دی اور کہا ’آپ نے خوب پہچانا،آج کل انہیں ایک ابھرتے ہوئے نئے سیاسی قائد کے ساتھ نتھی کیا گیا ہے‘ ۔ میری یاد میں ایسی جلتی بجھتی بتیوں کا تعلق ضیا الحق کے دورِ عقوبت سے ہے،سو بعض دوست مشورہ دیتے ہیں کہ اچھی آپ بیتی کی خاطر میں ضیا الحق دور کو بھول جاﺅں اور جماعتِ اسلامی کے ساتھ اس کے جائز اور ناجائز تعلق کو بھی،مگر ماجرا یہ ہے کہ ایسا ممکن نہیں۔ ضیا الحق [دورِ اقتدار 1977۔1988]سے بھی پہلے دو ڈکٹیٹر پاکستان کے حکمران ِ مطلق رہے تھے مگر پاکستان کو منشیات ،کلاشنکوف،متشددانہ مذہبیت اور ریاکاری کی طرف دھکیلنے میں جو کردار ضیا کا ہے،وہ اب اس کے ایک وقت کے سرکاری، درباری حاشیہ نشیں بھی ماننے لگے ہیں۔ جس تشدد اور منافرت کا آج پاکستان کو سامنا ہے، اس کے لئے اسی دور میں پاکستان کے ہر علاقے میں بارودی سرنگیں بچھاکر تخم ریزی کی گئی ۔ ماجرا صرف بھٹو کے عدالتی قتل کا بھی نہیں،اس کی پھانسی کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے اس نے ہر حربہ آزمایا مگر اس ’مجاہدِ اسلام ‘ کو یہ جرات نہ ہو سکی کہ دائیں اور بائیں بازو کے بھٹو دشمن ’بے مثال اتحاد‘ پر بھروسہ کر کے پاکستانی عوام کے ووٹ کی تائیدسے ہی اپنے ضمیر کے بوجھ کو ہلکا کر لیتا بلکہ اسے ریفرنڈم جیسے دھوکے کی کالک ملنا پڑی۔
میں مانتا ہوں کہ بعض اوقات ہماری درسی کتاب،درس گاہ اور معلم کسی بھی تاریخی سچائی کے مقابل لرزہ بر اندام ہو جاتے ہیں کہ مردانِ آہن نے قانون اور انصاف کو ہی بازیچہء اطفال نہیں بنایا بلکہ، دستورِ پاکستان اور قوم کے اجتماعی مقاصد کے تعین کے سلسلے میں اپنے من چاہے ہدف تک پہنچنے کی جلدی میں ماضی کو اس کی تاریخیت سے بھی محروم کیا ہے، مگر کیا کریں دنیا سرپھرے’ولیوں‘ سے خالی نہیں۔جدید سیاسی تاریخ میں نیلسن منڈیلا کے دو کارنامے ہم ایسے ملکوں کے لئے روشن مثال بن سکتے تھے مگر افسوس ہمارے جرنیل، سیاست دان،جج ،دانشور اور صحافی اس کا ذکر تو کرتے ہیں،مگر عمل نہیں کرتے۔ایک تو یہ کہ کُرسی کو اس وقت ہی چھوڑ دینا چاہیئے،جب
آس پاس کھڑے خوشامدیوں کے علاوہ بعض’ مخلص‘ بھی یقین دلا رہے ہوں کہ آپ جیسا مقبول یا معقول حاکم ’قوم‘ کے لئے ناگزیر ہے اور اسی منصب سے تا حیات چِپکے رہ کر اور بھی’ قومی خدمت‘ کر سکتے ہیں اور دوسرے بشپ ٹوٹو کی سربراہی میں ایک کمیشن بنا کر سچے’ عیسائیوں ‘ یا سچے انسانوں کو آمادہ کرنا کہ آﺅ اپنے مذہب کی سب سے بڑی قوت یعنی اعترافِ خطا کا برملا اور بر وقت اظہار کرو۔ سب کے سامنے آکر کم از کم یہ تو تسلیم کرو کہ ہم نے نسل پرستی کو عقیدہ بنا کر کب اور کہاں، جنوبی افریقہ کے اصل وارثوں کے ساتھ زیادتی کی تھی۔ ،منڈیلا کا خیال تھا کہ اس اعتراف کے بعد شاید گورے ظالم بھی مظلوم کالوں کے ساتھ اس وطن کے باشندے ہی نہیں،وارث بھی بن جائیں گے۔ہمارے ہاں شاید ایک صدی کے بعد ہی کوئی ایسا معجزہ رونما ہو جائے،جب اقتدار کے کھیل کا کوئی بے ایمان کھلاڑی برملا کہے کہ میَں اپنی غلطی پر قوم سے معافی بھی مانگ رہاہوں اور نصابی کتابیں لکھنے والے بھی کہیں کہ اس قوم کو سیاسی،سماجی اور تاریخی شعور سے محروم کرنے میں ہمارا کردار بھی طالع آزماﺅں سے کم نہیں تھا۔ اس تناظر میں ان آپ بیتیوں کو توجہ سے پڑھا جا رہا ہے،جن کے لکھنے والوں نے آمرانہ دور کی سفاکی کے روبرو ایسی جدوجہد کی جو اس تاریخِ جمہوریت میں بار پائے گی،جو ابھی لکھی جانی ہے۔
اس تکلیف دہ تمہید کی ضرورت پیش نہ آتی،اگر میَں کل رات ہمیشہ کے لئے آنکھیں موند لینے والے اپنے ایک ہم درس مسعود کاظمی کے حوالے سے اپنی یادوں کی زنبیل کو الٹ پلٹ نہ رہا ہوتا ۔میَں نے کہا کہ کاظمی تمہیں مل کر اور دیکھ کر بہت خوشی ہو رہی ہے،مگر میں تم سے اپنی یاد کے عقوبت خانے میں جلنے والی اس بتی کے انتباہ کو چھپانا نہیں چاہتا ، چلو مختلف منصبوں اور مشغلوں کے بعدتم ہی یہ بتاﺅ کہ اسلم بیگ کے ساتھ تمہیں کسی نے نتھی کیا یا اپنی مرضی سے گئے؟ سید مسعود کاظمی نے کہا’ میں ملتان کے 195 رفتگاں میں سے بیشتر کے بارے میں مواد جمع کر چکا ہوں،صرف دو یا تین کے سلسلے میں میری مدد کرو،کتاب کا نام ’دبستانِ ملتان‘ ہو گا اور تم نے اس کا دیباچہ لکھنا ہے، سمجھو سید محسن نقوی کا سندیسہ لایا ہوں،میرے پاس وقت کم ہے،موت پوری طاقت سے میرے تعاقب میں ہے‘۔میَں نے اسے ایک مرتبہ پھر گلے سے لگایا اور دیباچے میں لکھنا شروع کیا’ سید مسعود کا ظمی بہت بڑا شاعر ہے یا کم بڑا شاعر ہے، قومی منظرنامے میں اجتماعی سانحات کے حوالے سے اس کا اضطراب والہانہ اور
بے ساختہ ہے یا اسے متحرک کرنے یا اس کے تخلیقی شعور کو انگیخت کرنے والے کچھ اور عوامل بھی ہیں، مجھے اس سے غرض نہیں، کیونکہ میں اس سے محبت کرتا ہوں کہ وہ میرا ہم مکتب اور ہم درس رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘
فیس بک کمینٹ