تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے گرفتاری دے کر اور کسی پر احسان کیا یا نہیں لیکن اس کی یہ گرفتاری براہ راست ہماری ذات پر احسان ضرورہے، کہ وہ جب بھی کسی واردات، کسی دھماکے،کسی اغوا یا قتل کے بعد دہشت گردوں کے ترجمان کی حیثیت سے ویڈیو یا کسی پریس ریلیز کے ذریعے واردات کی ذمہ داری قبول کرتاتھا تو ہمارے ایک ”شاعر دشمن“ دوست کا پہلا فون ہمیں ہی موصول ہوتاتھا۔ہمارا وہ دوست ایک روز دار قہقہہ لگاتا اور کہتا لوجی آج پھر تمہارے شاعر بھائی نے ایک اور واردات کی ذمہ داری قبول کرلی۔ ہم نے بارہا اس کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اگر کسی نے اپنے نام کے ساتھ کوئی تخلص نما سابقہ لگا رکھا ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ شاعر بھی ہے۔ ہم اسے سمجھاتے تھے کہ شاعر تو انسان دوست ہوتے ہیں۔ کسی کا قتل نہیں کرتے۔ کسی کی جان نہیں لیتے۔ وہ تو محبتوں کا پیغام عام کرتے ہیں۔ کوئی شاعر کسی خودکش دھماکے، اغوا، قتل یا ایسی ہی کسی گھناﺅنی واردات کی ذمہ داری بھلا کیسے قبول کرسکتا ہے۔لیکن ہمارا وہ دوست ہماری کسی وضاحت کو تسلیم ہی نہیں کرتا تھا۔ اس کاکہنا تھا کہ تم چونکہ خود شاعر ہو اس لیے احسان اللہ احسان کو معاصرانہ چشمک کی بنیاد پر شاعر تسلیم نہیں کر رہے اور خوامخواہ اس کے شاعر نہ ہونے کے من گھڑت جواز پیش کر رہے ہو۔ تمہیں کیا معلوم احسان اللہ احسان شاعر ہے یا نہیں۔ کیا تم وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہو کہ وہ شاعر نہیں ہے؟ وہ شخص جو بہت سی وارداتوں کی ذمہ داری قبول کرتا ہے اور کبھی کبھار آکر کسی واردات سے لاتعلقی کا اعلان بھی کردیتا ہے اور کہہ دیتا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کا اس واردات سے کوئی تعلق نہیں، اگر وہ بقول تمہارے شاعر نہیں ہے تو کسی روز اسے یہ بیان بھی دے دینا چاہیے کہ جناب میں نے تخلص صرف شوبازی کے لیے اپنے نام کاحصہ بنا رکھا ہے ورنہ میرا شاعری واعری سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم مزید کوئی دلیل دیتے تو ہمارا وہ دوست کج بحثی پر اتر آتا۔پھر مثالوں سے ثابت کرنے کی کوشش کرتا کہ شاعر سنگ دل بھی ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے ہیں مخالفین کی زندگی اجیرن کرتے ہیں، جس سے اختلاف ہو وہ اگر بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت نہیں کرتے اور اگر مر جائے تو جنازے میں شرکت سے بھی احتراز کرتے ہیں ۔طالبان کی طرح یہ بھی کسی اور کو تسلیم نہیں کرتے، وغیرہ وغیرہ۔ اب جو احسان اللہ احسان نے گرفتاری دی اور طالبان رہنماﺅں کے بارے میں سنسنی خیز بیانات داغے تو خودہمیں یہ شبہ ہوا کہ کہیں احسان اللہ احسان کا واقعی شاعری سے کوئی تعلق تو نہیں۔ سچ پوچھیں تو آئی ایس پی آر نے اس کا جو اعترافی بیان جاری کیا اس میں موصوف کے انکشافات و ارشادات جان کر خود ہمیں بہت حیرت ہوئی۔ یہ سوال بے معنی ہے کہ ترجمان طالبان کو ہتھیار کیوں ڈالنا پڑے اور یہ کہ وہ اگر اسلام کو دل وجان سے امن اور سلامتی کامذہب سمجھتا ہے اور اگر واقعی اسے طالبان کے طریقہ کار سے اختلاف تھا تو اس پر سچائی کا یہ لمحہ پہلے کیوں نہیں آیا؟ افغانستان اور بھارت بھی اگرچہ ہمارے دوست نہیں لیکن وہ جو اس نے بتایا کہ خراسانی کہتا تھا کہ ہمیں پاکستان کے خلاف اسرائیل سے بھی مدد لیناپڑی تو گریز نہیں کریں گے اس نے ہمیں حیران ہی نہیں پریشان بھی کر دیا۔ ابھی ہم احسان اللہ احسان کے بیان سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور مولوی فضل اللہ کی اپنے استاد کی بیٹی کے ساتھ جبری شادی کا احوال بھی مکمل طورپر نہیں پڑھ پائے تھے کہ ہمارے اسی دوست کا دوبارہ فون آ گیا۔اس مرتبہ اس نے طنز کے لیے نہیں احسان اللہ احسان کی گرفتاری پراظہارافسوس کے لیے ہمیں فون کیاتھا۔کہنے لگا افسوس اس لیے کررہا ہوں کہ تمہاری شاعر برادری کا دہشت گردآخر شکنجے میں آ گیا۔یقیناً تمہیں اس پر صدمہ ہوا ہوگا۔اسے تو ہم نے بھلا کیا جواب دینا تھا لیکن چشمِ تصور میں ایک بار یہ ضرور سوچا کہ اگریہ دہشت گرد واقعی شاعر ہوتا تو کیا منظر نامہ بنتا۔لیکن ٹھہریں پہلے ہم آپ کو مظفرگڑھ کے ایک شاعر کا احوال سناتے ہیں ۔نام ہمیں اس کا یاد نہیں لیکن یہ ضرور یاد ہے کہ اس کی ایک ایس ایچ او کے ساتھ دوستی تھی۔ لوگ اسے مشاعروں میں نہیں بلاتے تھے۔ ایک روز ایک مشاعرہ جاری تھا کہ وہ شاعر کچھ پولیس اہلکاروں کے ساتھ پنڈال میں پہنچ گیا۔ پولیس والوں نے ناظم مشاعرہ کو حکم دیا کہ شاعر صاحب سے مشاعرے میں ان کا کلام ضرور سنا جائے۔ سٹیج سیکرٹری نے مزاحمت کی کوشش کی تو اسے بتایاگیا کہ حکم عدولی کی صورت میں سنگین نتائج بھی برآمد ہو سکتے ہیں۔ چاروناچار شاعر محترم کو مشاعرہ روک کر سٹیج پر بلایاگیا ۔انہوں نے پہلے اس بات پر معذرت کی کہ انہیں ناظم مشاعرہ کی ہٹ دھرمی کے باعث پولیس کی نفری کو مشاعرے میں لانے کا ناخوشگوار فریضہ سرانجام دینا پڑا، ان کا کہنا تھا کہ اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں رہا تھا، میں تو شرافت سے انہیں درخواست کرتارہا کہ مجھے مشاعرہ پڑھوا دو لیکن جب انہوں نے میری ایک نہ سنی تو مجھے مجبوراً ایس ایچ او صاحب کی خدمات حاصل کرناپڑیں۔ شاعر نے مشاعرے میں اپنی تین بے وزن غزلیں سنائیں ۔اس دوران سامعین کی خاموشی دیکھ کر کچھ پولیس اہلکاروں کو غصہ آ گیا ۔وہ فوری طور پر حاضرین کی جانب لپکے اور انہیں داد دینے کے احکامات صادرکر دیئے۔ بس پھر کیاتھا پنڈال واہ واہ اورتالیوں سے گونج اٹھا۔ اب اگر احسان اللہ احسان واقعی شاعر ہوتا تو کچھ اسی قسم کا منظر نامہ ترتیب پاتا۔ ایسی صورت میں بعض منتظمین تو خوفزدہ ہوکر احسان اللہ احسان کو خود ہی مشاعرے میں بلا لیتے بالکل اسی طرح جیسے اب بھی بعض مشاعروں میں فساد کے ڈر سے منتظمین کچھ ”دہشت گردشعرا“ (جن کا شاعر ہونا بھی ضروری نہیں) کو ازخود مدعو کرلیتے ہیں تاکہ شور شرابے اور منفی کالموں سے بچا جا سکے۔ دوسری صورت یہ بنتی کہ کسی بھی مشاعرے سے پہلے منتظمین کو احسان اللہ احسان کا نام شعرا کی فہرست میں ڈالنے کے لیے گمنام خطوط بھی موصول ہوتے اور جب احسان اللہ احسان مشاعرے میں پہنچتا تو اس کے ساتھ یقیناً اس کے دہشت گرد محافظ بھی ہوتے۔ منتظمین کی مزاحمت کی صورت میں مشاعرے کو بم سے اُڑانے کی دھمکی بھی دی جا سکتی تھی۔ اور سٹیج پر موجود کمزور دل شعرا دہشت گرد کو مشاعرے میں دیکھ کر افراتفری کا شکار بھی ہو سکتے تھے۔بہر حال اس بات پر اطمینان کا اظہار ہی کیا جا سکتا ہے کہ احسان اللہ احسان شاعرنہیں ہے اور اس سے بڑی اطمینان کی بات تو یہی ہے کہ وہ جوکوئی بھی ہے، جیسا بھی ہے اب قانون کی گرفت میں آ چکا ہے، اور اب کسی ادبی میلے یا کانفرنس میں اس کی شرکت کا کوئی امکان باقی نہیں رہا۔
(بشکریہ:روزنامہ خبریں)
فیس بک کمینٹ