دوسال قبل ڈاکٹر قرۃ العین ہاشمی کی کتاب’’مَن کُن ‘‘شائع ہوئی تو ہم نے لکھا تھا کہ ’’مَن کُن ‘‘ ڈاکٹر قرۃ العین ہاشمی کے من کی آواز ہے۔من کی آواز کی ایک اپنی دھن ہوتی ہے اور اس دھن کا آغاز کُن سے ہوتا ہے۔اوریہ تو آپ کو بھی معلوم ہے کہ اس کائنات کا آغاز بھی کُن سے ہوا تھا۔ ’’مَن کُن ‘‘ کے عنوان پر غور کریں تومعلوم ہوتا ہے کہ یہ ہونے اور نہ ہونے کی کہانی ہے۔سوآپ اسے محبت اور جیون کی کہانی بھی کہہ سکتے ہیں۔محبت اور جیون کو ہم اگر ایک دوسرے سے الگ کردیں تو پھر کچھ بھی باقی نہیں بچتا، سب کچھ فنا ہوجاتا ہے اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ اصل بقا تو فنا کوہی حاصل ہے۔یہ جیون دراصل ہونے اور نہ ہونے کا کھیل ہے۔یہ ایک ایسا بھید ہے کہ جسے سلجھانے کی کوشش میں ہم اپنا پورا جیون گزاردیتے ہیں یا گنوا دیتے ہیں۔ہونے ،نہ ہونے کے اس کھیل میں ہمیں یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ہم کہاں ہیں اور کہاں نہیں ہیں۔ہمیں کہاں ہونا ہے اور کہاں نہیں ہونا۔ہم جہاں ہوتے ہیں دراصل وہاں نہیں ہوتے اور جہاں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم وہاں نہیں ہیں، بسا اوقات ہم وہیں ہوتے ہیں۔غالب نے کہا تھا
’’ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتامَیں توکیا ہوتا‘‘
غالب کا یہ شعربھی تو دراصل کُن فیکون کی کہانی ہے۔اورجب ہم محبت کو آفاقی جذبہ کہہ رہے ہوتے ہیں تو ہم بھی لاشعوری طورپر کُن فیکون کی تشریح ہی کررہے ہوتے ہیں ، اور یہ تسلیم کررہے ہوتے ہیں کہ محبت تو اس وقت بھی تھی جب کچھ بھی نہیں تھا اور اس وقت بھی ہوگی جب کچھ بھی نہیں ہوگا ۔ہم نہیں ہوں گے ،ہماری دھڑکنیں نہیں ہوں گی، یہ زمان و مکاں نہیں ہوں گے اوریہ اس وقت بھی ہوگی جب ہم بقول غالب خاک میں پنہاں ہو کر کہیں لالہ و گل کی صورت میں نمایاں ہوں گے ۔ اورجب ہم لالہ وگل میں نمایاں ہوں گے تو شاید ہمیں کوئی محبت کرنے والا کسی ٹہنی سے توڑ کر محبت بھرے جذبے اوردھڑکتے دل کے ساتھ کسی اور کے حوالے کرے گا اوریوں محبت ہمارے بعد بھی ہمارے ہی کسی روپ میں کسی اور زمانے کے سفر پر روانہ ہوجائے گی۔ محبت کی شاعری کو اور محبت کے جذبوں کو اسی لیے تو آفاقی کہا جاتا ہے کہ ان کی وسعت کسی ایک دل میں نہیں سما پاتی اور محبت کی شاعری بیک وقت بہت سے دلوں میں سما کر لفظوں اور جذبوں کو امر کردیتی ہے۔
’’مَن کُن ‘‘ بھی ایسے ہی جذبوں کی کہانی ہے ۔ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ اس کتاب میں جو کچھ شامل ہے انہیں نظمیں کہا جاسکتا ہے یانہیں؟ ہم اس بحث میں بھی نہیں پڑتے کہ نثری نظموں کا شاعری کے ساتھ کوئی تعلق بھی ہے یا نہیں؟ ہم یہ سوال بھی نہیں اٹھاتے کہ اگر نظم اور نثردو الگ الگ اصناف ہیں تو پھر یہ نثری نظم بھلا کیا ہوتی ہے ؟ اور مردانہ تعصب کے زیراثر سوچنے والے بعض شاعروں کی طرح ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ عورت تو شعر کہہ ہی نہیں سکتی، جو خود مجسم شاعری ہو اسے بھلا شعر کہنے کی کیا ضرورت ہے؟ لیکن ان تمام سوالات کو ایک جانب رکھ کراب ’’مَن کُن ‘‘ کا جائزہ لیتے ہیں کہ اس کتاب میں شامل نظموں یا جذبوں میں ہمیں جابجا بہت خوبصورت اور اچھوتے خیالات دکھائی دیتے ہیں۔ان میں بظاہر بہت سی کہانیاں ہیں لیکن دراصل ان سب کہانیوں میں ایک ہی کہانی سفر کرتی اور رقص کرتی دکھائی دیتی ہے اور وہ کہانی محبت کی کہانی ہے۔محبت کی کہانی میں بہت سے شکوے بھی ہوتے ہیں، بہت سی شکایتیں بھی، انتظار کی مسلسل کیفیت ،گمان اوربدگمانی ،یقین اور بے یقینی،وصل کی خواہش اور بچھڑ جانے کا دھڑکا۔ محبت ہرموسم کا جذبہ ہے اور یہ سارے موسم ہمیں اس کتاب میں دکھائی دیتے ہیں اورمحسوس بھی ہوتے ہیں۔بہت سی چھوٹی چھوٹی نظمیں ،دودو لائنوں اور چار چار مصرعوں کے خیالات اوران میں مسلسل اداسی اور سرشاری کی کیفیت۔اس کتاب میں بہت سی تتلیاں ،جگنو اورخواب ہیں ۔بہت سے مہتاب ہیں، بہت سے مہینے ہیں اور مہینوں کے سندیسے ہیں جوکتاب میں شامل بہت سی نظموں کو ہائیکو کے قریب کردیتے ہیں۔ڈاکٹر قرۃ العین ہاشمی کی شاعری ایس ایم ایس ،لیپ ٹاپ ،کی بورڈ اور ای میل کے زمانے کی شاعری ہے اور اس زمانے کی شاعری ہے جب نفرت بھی پوری توانائی کے ساتھ محبت کے مقابل آچکی ہے، جب سچ اور جھوٹ کی تمیز ختم ہوچکی ہے ،غدار اور محب وطن میں کوئی فرق نہیں رہا۔قاتل اورمقتول ایک ہی صف میں آ چکے ہیں۔یہ نئے زمانوں کی کہانی ہے اوراِن زمانوں فرعون بھی نئی سج دھج کے ساتھ مظالم ڈھارہے ہیں۔آج کے فرعون کو بچوں کے قتل کے لیے مکتب کی تو سوجھتی ہے لیکن وہ بچوں کے قتل سے بدنام ہرگز نہیں ہوتا۔محبت کے مقابلے میں تقسیم کی جانے والی بہت سی نفرتوں کے نتیجے میں بہت سی سسکیاں ،آہیں اور بین بھی ڈاکٹر قرۃ العین ہاشمی کی شاعری کا حصہ بن چکے ہیں۔آج کی تقریب میں ہم ڈاکٹر قرۃ العین ہاشمی کو من کُن کی اشاعت پر نہ صرف یہ کہ مبارکباد پیش کرتے ہیں بلکہ اس امید اور یقین کااظہاربھی کرتے ہیں کہ ’’مَن کُن ‘‘ کے بعد ان کی اور بہت سی کتابیں بھی ہمیں پڑھنے کوملیں گی اوروہ کتابیں حیران کن بھی ہوں گی اوراس لیے حیران کن ہوں گی کہ زندگی اور محبت کے سفر میں ڈاکٹر قرۃ العین کو اسرارچودھری جیسے محبت کرنے والے انسان کی رفاقت میسر ہے جوان کے راستے کے کانٹے اپنی پلکوں سے چننے پر یقین رکھتا ہے۔ اورآخری بات یہ کہ ڈاکٹر قرۃ العین ہاشمی نے اپنی ایک نظم میں سوال کیا ہے کہ کیا زندگی میں محبت کے لیے ڈیلیٹ کا بٹن نہیں ہوسکتا۔ہمارا جواب یہ ہے کہ محبت کے لیے ڈیلیٹ کابٹن تو زندگی کے بعد بھی نہیں ہوتا کہ اس کے بعد محبت لالہ و گل میں نمایاں ہوکرکسی ٹہنی پر لہلہاتی ہے اورکوئی دھڑکتے دل کے ساتھ اسے اس ٹہنی سے توڑ کرکسی اور کے حوالے کرتا ہے اور یوں محبت کا سفراگلے زمانوں میں شروع ہوجاتا ہے۔
(ڈاکٹر قرۃ العین ہاشمی کی کتاب ’’مَن کُن ‘‘ کی تعارفی تقریب میں پڑھاگیا)
(بشکریہ:روزنامہ خبریں)
فیس بک کمینٹ