سفر طویل ہو یا مختصر، مَیں نے اگر سفر کو آسان بنانا ہو تو گاڑی میں اپنی پسندیدہ آوازوں کے گیت سن کر سفر خوشگوار کر لیتا ہوں۔ وہ جو ایک بات نامور افسانہ نگار احمد داؤد نے مرنے سے قبل لکھی تھی ”موسیقی اور شاعری موت کا سفر آسان بنا دیتے ہیں۔“ مَیں بھی یہی کہتا ہوں کہ ہم سب زندگی میں جو بھی سانس لیتے ہیں ہمارا ہر سانس ہمیں موت کے قریب لے جاتا ہے یعنی جس سانس کو ہم زندگی کی علامت کہتے ہیں اصل میں وہی سانس موت سے آشنا کراتا ہے۔ سانسوں کی اس ڈور کے ہجوم میں اگر کانوں کو مسحور کرنے والی آواز سنائی یا آنکھوں کے سامنے دل موہ لینے والے اشعار یا الفاظ ہوں تو زندگی کا مشکل سفر بھی کتنا آسان ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر چند اشعار دیکھیں اور تصور کریں یہ اشعار پڑھتے ہوئے ہماری کیفیت کیا ہو جاتی ہے:
زندگی اس سے زیادہ تو نہیں عمر تری
بس کسی دوست کے ملنے سے جدا ہونے تک
….٭….
میرے یوسف تیری بھرپور زیارت کے لیے
مانگ لایا ہوں زلیخا سے ادھاری آنکھیں
….٭….
عرب لہو تھا رگوں میں، بدن سنہرا تھا
وہ مسکراتی نہیں تھی دیئے جلاتی تھی
….٭….
مَیں کہاں دیکھنے سے تھکتا ہوں
تیری تصویر تھک گئی ہو گی
….٭….
اسی طرح دوسری طرف ہم موسیقی کو روح کی غذا سمجھتے ہوئے عابدہ پروین، نورجہاں، مہدی حسن، غلام علی، مہناز، نیرہ نور، ریشماں، طفیل نیازی، شاہدہ پروین اور پٹھانے خان سمیت بے شمار گلوکاروں کی آوازوں کو اپنے مَن میں بساتے ہیں تو بے چین روح کو قرار مل جاتا ہے۔ اس فہرست میں جب آپ نے پٹھانے خان کا نام پڑھا ہو گا تو یقینا آپ کے ذہن میں خواجہ فرید کا کلام ”میڈا عشق وی توں“ آیا ہو گا۔ لیکن پٹھانے خان کی پہچان صرف یہ کلام ہی نہیں ہے ان کی خوبصورت گائیکی نے ہمیں ایسے ایسے لازوال گیت دیئے ہیں کہ جب بھی ان کی آواز کو سنتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے پہلی مرتبہ یہ آواز میرے کانوں میں رس گھول رہی ہے۔ زندگی کی تلخیوں کو کم کرنے والی یہ آواز اگرچہ 9 مارچ 2000ءکو خاموش ہو گئی لیکن یہ آواز خاموش نہیں ہوئی بلکہ خاموش ہونے کے بعد پٹھانے خان کی آواز زیادہ توجہ سے سنی گئی۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ایک آواز جب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہوتی ہے تو کوئی کوئی آواز ہوتی ہے جو خاموشی کے قبرستان میں اس طرح الاپ بلند کرتی ہے تو جی چاہتا ہے آواز کانوں میں رَس گھولتی رہے۔
چینڑاں ایں چھنڑیندا یار
چینڑاں ایں چھنڑیندا یار
وجے اﷲ والی تار
وجے مرشد والی تار
وجے سائیاں والی تار
چینڑاں ایں چھنڑیندا یار
10 مارچ 2000ءکی صبح مَیں ڈاکٹر عباس برمانی، رضی الدین رضی اور مستنصر حسین تارڑ ڈیرہ غازی خان جا رہے تھے۔ گاڑی کے ریڈیو میں پٹھانے خان کی تدفین کی خبر نشر ہوئی تو ہمیں یوں محسوس ہوا جیسے پٹھانے خان کے مرنے کی ”پھوڑہی“ ہم نے اپنی گاڑی میں بچھا رکھی ہے۔ کبھی مستنصر حسین تارڑ کا ہاتھ آنکھوں کی طرف جاتا تو کبھی گفتگو سے پرہیز کرنے والا ڈاکٹر عباس برمانی پٹھانے خان کی گائیکی کے قصے شروع کر دیتا۔
قارئین کرام ہمیں آج پٹھانے خان اس لیے یاد آ رہا ہے کہ گزشتہ ہفتے ہماری لائبریری میں نامور افسانہ نگار، دانشور، محقق، ڈرامہ نگار اور کالم نگار حفیظ خان کی نئی کتاب ”پٹھانے خان گائیکی اور شخصیت“ کا اضافہ ہوا۔ اس کتاب کے آنے سے مجھے جون ایلیا کی یہ نظم یاد آ گئی:
میرے کمرے کو سجانے کی تمنا ہے تمہیں
میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
حفیظ خان کی یہ کتاب کبھی خاکے کا لطف دیتی ہے تو کبھی افسانہ لگتی ہے۔ یہ ہنر بھی حفیظ خان کے قلم کا ہے کہ پٹھانے خان پر کتاب میں کہیں ”کافی“ کی تاریخ ملتی ہے، کہیں گائیکی کے حوالے سے بے شمار معلومات قارئین کی منتظر ہیں تو کسی صفحے پر حفیظ خان کی تحریر پٹھانے خان کی گائی ہوئی غزل لگتی ہے تو کہیں پر ان کی تحریر پٹھانے خان کے گائے ہوئے مختلف سُر لگتے ہیں۔
یہ کتاب اپنے اسلوب کی بنا پر تا دیر پڑھنے والوں کو مسحور رکھے گی۔ مَیں عام طور پر کتاب پر لکھتے ہوئے اقتباسات نہیں دیا کرتا لیکن حفیظ خان کی تحریر نے مجبور کر دیا ہے۔ کہ کالم کے اختتام پر آپ کو کتاب کا اقتباس پڑھایا جائے:
”مَیں 10 جون 2007ءکی وہ گرم ترین دوپہر کبھی نہیں بھلا سکوں گا کہ جب پٹھانے خان کی کالک زدہ کوٹھڑی میں کچے فرش پر بچھی چٹائی پر بیٹھ کر مَیں نے پیلے رنگ کے میلے کپڑے کی گٹھڑی کی گرہیں کھولیں جن میں پٹھانے خان کو ملنے والے میڈلز کی باقیات رکھی ہوئی تھیں۔ کھرچی ہوئی شیلڈز اور اکھڑے ہوئے نقش و نگار کے درمیان کسی کسی جگہ پر پٹھانے خان کا نام دکھائی دیتا تھا۔ عاشق نے مجھے بتایا کہ ”تمغہ حسن کارکردگی“ اُسی روز ہی چوری ہو گیا تھا جس روز خان صاحب کا انتقال ہوا۔ چٹائی پر بکھرے ہوئے اعزازات کی باقیات دیکھ کر مَیں سوچ میں پڑ گیا کہ وہ کون سا ایوارڈ یا کون سا میڈل ہے جو پٹھانے خان کو نہیں ملا۔ حکومت کی طرف سے دیا گیا تمغہ حسن کارکردگی ہو یا پی۔ٹی۔وی کا ایوارڈ۔ شاہ حسین ایوارڈ ہو یا بابا بلھے شاہ اور خواجہ فرید ایوارڈ۔ اس نے سب کچھ اپنی محنت کے بل بوتے پر حاصل کیا۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی اب اس حالت میں نہیں کہ اسے کسی قبر سے برآمد ہونے والی مردہ ہڈیوں کے ڈھیر سے زیادہ اہمیت دی جا سکے۔ مگر میرے نزدیک پٹھانے خان کی زندگی کا سب سے بڑا ایوارڈ سب سے بڑا اعزاز ایک ایسے عہد کی بازیافت ہے جو صرف پٹھانے خان کے نام سے عبارت ہے اور رہے گا۔“
حفیظ خان نے پٹھانے خان کی موت کے 17 برس بعد ان کا پورٹریٹ لکھا ہے۔ اصل میں یہ پٹھانے خان کی نئی زندگی کا آغاز ہے جسے ہم سب نے مل کر مرحوم کر دیا یہ کتاب خرید کر ہم اسے زندہ رکھ سکتے ہیں کہ یہ کتاب ہر گھر کی شیلف میں دکھائی دے تو پھر پٹھانے خان کو نئی زندگی مل سکتی ہے۔ آئیے گائیکی کے علاوہ ان پر لکھے گئے حرفوں کو زندہ کریں اور یہ کتاب اپنے پیاروں کو تحفہ میں دیں کہ 2017ءمیں لوک موسیقی کے عشاق کے لیے اس سے بہتر کوئی تحفہ نہیں۔
(بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس)