ہمارے ہاں کوئی کام جو تیز رفتاری کیا جاتا ہے وہ ہے صرف اور صرف perception building….اور اس "پر سپشن "کی تعمیر میں خود لکھاریوں شاعروں ادیبوں اور صحافیوں کا سب سے بڑا کردار ہوتا ہے جسے یہ بڑی محنت مشقت ہنر مندی سے معاشرے کی نظروں میں build کرتے ہیں ان کی مدد سے ہر زمانہ اپنا پرسپشن خود بناتا اور مٹاتا ہے ۔مثلا فی زمانہ صرف ” سیاست دان "سن کر ہمارے perception میں ایک عیار کا خیال آتا ہے ۔اسی طرح ۔۔۔۔ایک صحافی۔۔۔۔ ایک لفافہ خور ۔۔۔ایک شاعر ۔۔چائے نوش ۔۔۔ایک ادیب ۔۔بوریت پسند ۔۔۔ایک استاد ڈگری یافتہ نکما ۔۔ ایک ۔۔۔۔شاگرد ۔۔لاپرواہ گدھا …بجٹ تقریر ۔۔۔ جھوٹ کا پلندہ۔۔۔۔۔سرکاری محکمے ۔۔کرپشن کے گڑھ ۔۔۔۔۔ایک ساس ۔۔۔۔ظلم کا شاہکار ۔۔۔۔ایک بہو ۔۔مظلومیت کی تصویر ۔۔ایک ۔۔بزنس مین۔۔۔۔ مہذب جیب کترا ۔۔ایک بنک سودی نظام ۔۔۔۔حسین لوگ ۔۔۔۔خطرہ جاں ۔۔۔۔۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ
اور یہ تصور ادراک فہم یا وہم ہر دور میں اپنی شکل بھی بدلتا ہے ۔جیسے ۔۔۔۔۔آج سے چند سال پہلے "بابا رحمتے” کے فنڈ نے "پرسپشن تعمیر "کیا تھا کہ ملک سے پانی ختم ہورہا ہے اپنی اپنی جیبوں سے ڈیم کے لیے صرف دس دس روپے نکالیے ۔۔۔دن رات میڈیا نے ملک سے پانی ختم ہونے کا خوف تعمیر کیا اینکروں اداکاروں نے واٹر ٹیپ بند کر کے نصیحتی ماڈلنگ فرمائی ۔شاعروں نے اشتہاری نغمے اور نثر نگاروں نے کالم لکھ لکھ کر ثابت کیا کہ یہ دس روپے ہیں جو ۔۔۔ وہ ڈیم بنائیں گے کہ آ ئندہ دس نسلیں پانی پانی نہیں روئیں گی ۔۔۔۔پھر سب دیکھا کیے ۔۔۔۔اس پرسپشن کی عمارت تبدیلی کے کھوکھلے نعروں کی طرح زمین بوس ہوگئی ۔۔۔آج ہر چینل چیخ چیخ کر کہ رہا ہے کہ ڈیم تو سیلاب کی وسیع پیمانے پر تباہی کا سبب ہیں بھئی
اب کسے رہنما کرے کوئی ۔۔۔۔
۔۔ایسا ہی ایک ایسا ‘پرسپشن "نثر نگار۔۔۔۔ شاعروں کے بارے میں اور شاعر نثر نگاروں کے بارے میں رکھتے ہیں ۔مگر یہ خدا واسطے کا بیر رکھنے والا پرسپشن ڈارون تھیوری سے بھی ز یادہ پرانا ہے ۔۔اور مالتھیس کے نظریہ آبادی جیسا توانا ہے۔
ادبی تاریخ گواہ ہے کہ ایک شاعر یا شاعرہ کو احساس دلایا جاتا ہے کہ۔۔آپ تو خیالی پلاؤ اورتصور جاناں کے لوگ ہیں آپ کہاں کے سچے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔اور
نثر نگاری تو پورے وجود کی مزدوری کے مترادف ہے۔۔۔۔کہاں شاعری جہاں دل کیا دو شعر گھڑ مارے ۔۔اور کہاں نثر نگاری پہلے سوچئیے سمجھیے تحقیق کیجیے تب قلم سبنھالیے۔۔۔۔۔۔۔یہی وار پلٹ کر شاعر نثر نگاروں پر کرتے ہیں ۔۔۔۔کہ ۔۔اچھے بھلے سلیس نثر نگار ہیں۔۔۔آورد کے زور پر قائم ہیں ۔۔۔ آمد کی وارادت قلبی کو کیا سمجھیں گے ۔۔اب بھلا ۔۔۔ شعر کو سپاٹ کرکے آز اد نظم کی صورت شاعری تلنے کی کیا ضرورت تھی ۔۔۔
۔اور سنیے ذرا۔۔۔۔۔۔بات یہاں ختم نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔
کسی مشاعرے کی صدارت کسی نثر نگار کو جس نے زندگی میں خواہ معجزاتی طور یا مطالعاتی طور پر کچھ اچھے شعر کہے ہوں اسے دے کر دیکھ لیجیے یا نثر نگاروں کے خطبات میں کسی شاعر محترم و مخلص کی صدارت رکھ لیجیے ۔۔۔۔پھر ادبی طوفان دیکھیے ۔۔قدیم اردو کا ایک محاورہ تھا ۔۔۔فیل مچانا۔۔۔ معذرت کے بغیر خواتین لکھاری بھی ایسے فیل مچانے میں کم نہیں ۔۔۔۔شاعری ہمارے برصغیر کے تہذیبی مزاج میں گوندھی گئی ہے ۔۔اس لیے اس میں تفاخر و حیرانی کی کوئی ایسی بات بھی نہیں ۔۔۔۔ایک عمدہ نثر نگار ایک عمدہ شاعر بھی ہو سکتا ہے ۔۔۔ایک عمدہ شاعر ایک عمدہ نثر نگار بھی ۔۔۔اور عمدہ بھی نکال دیجیے ۔۔۔تو ایک شاعر ایک نثر نگار بھی ہوسکتا ہے بس رجحانات کے حوالے سے ریاضت اور محنت حوالہ پختگی بنتی ہے۔۔۔۔ کیوں کیسے ؟؟؟؟
کا جواب یہ ہے یہ صلاحیت رب کی عطا ہے ۔۔۔مجھے لکھنے کا” شوق” ہے کہنے والے مجھے یوں لگتے ہیں جیسے کہہ رہے ہوں مجھے وزیر اعظم بننے کا شوق ہے ۔۔۔شوق بنا صلاحیت کے۔۔۔۔۔ صرف ایک خواہش کا نام ہے ۔۔۔اور خواہش بنا محنت کے ایک خواہش ناتمام رہتی ہے ۔۔۔
جناب رضی الدین رضی کے قلم میں ان تمام قلمکاروں کی طرح فکری بے چینی پائی جاتی ہے جنھیں بیک وقت شاعر نثر نگار ہونے کی صلاحیت عطا ہوتی ہے ۔۔اور صحافت ان کا پروفیشن ہے لہذا اب یہ کبھی شاعر کبھی کالم نگار کبھی صحافی بن کر خود اپنی تحریروں کے ایڈیٹر ٹھہرتے ہیں ۔۔کبھی خاکہ نگار اور کبھی ۔۔۔۔۔مزاح نگار بن کر خود پہ ہنستے ہیں اور دوسروں کو بھی ہنساتے ہیں ۔۔۔۔اور یہی ایک اچھے اور سچے مزاح نگار کی خوبیاں ہیں ۔۔۔۔۔”۔کالم کہانیاں اور خاکے "۔۔۔۔۔ایک مزاح نوشت ہے جس میں بہت سے نئے پرانے دل چسپ کردار آپ کو کچھ اس طرح ملیں گے جیسے لتا جی کے گانے کی پیروڈی میں
تو جہاں جہاں چلے گا
میرا سایہ ساتھ ہوگا ۔۔۔میں سایا کی بجائے تایا ۔۔۔شاید وہ تایا کا سایہ بن کر بھی آپ کے ساتھ ساتھ چلیں یہ آپ کے اپنے پرسپشن پر مبنی ہے ۔۔۔
۔۔ایک سو چھتیس صفحات کی اس کتاب فکاہ کی قیمت صرف پانچ سو روپے ہے ۔۔۔۔جو پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ مہنگائی کا رونا روتے ہوئے پیزے کھانے والے غریبو کبھی ادبی کتاب بھی خرید کر پڑھ لیا کرو ۔۔۔۔اردو مزاح نگاری کے فی زمانہ شہنشائے اعظم ۔۔۔۔
جناب عطاالحق قاسمی صاحب کی رائے میں
” رضی الدین رضی کی یہ کتاب اردو کے فکاہی ادب میں ایک خوشگوار اضافہ ثابت ہوگی”
۔۔۔۔اور مزاح نگاروں کے شہنشائے اعظم جونیر جناب گل نوخیر اختر صاحب نے گلوں میں کچھ اس طرح رنگ بھرے ہیں کہ "مزاح نگاری کے میدان میں ایک اور ملتانی کی دھواں دھار دار انٹری ۔۔۔۔۔اور انہوں نے اپنی اس الہام کا ذکر ببانگ دہل کیا ہے ۔۔۔ اور کیا ہی عمدہ لکھتے ہیں ملاحظہ کیجیے۔۔۔۔۔۔۔
۔”مجھے ہمیشہ سے لگتا ہے کہ ایک اچھا شاعر اچھا مزاح نگار بھی ہوسکتا ہے ۔۔۔۔۔اس کی بنیادی وجہ ہے ۔۔۔۔۔۔
ندرت خیال ۔۔۔۔۔
"صفحہ نمبر 9۔۔ کالم کہانیاں خاکے
اور محترم احباب ۔۔۔۔۔میرے ناقص خیال میں ہم خواتین لکھاریوں کا”اوور آل پرسپشن "یعنی انجمن ۔ کم عقل مصنفین” ہے سو اسی تناظر میں لکھ رہی ہوں کہ اس شگفتہ کتاب کے آنے سے رضی صاحب کے اپنے پرسپشن یعنی” کھڑوس اور تلخ مزاج” ہونے کی بلڈنگ مسمار ہوگئی ہے۔۔۔۔اور میرا یہ پرسپشن درست اس لیے ہوسکتا ہے کہ
جو رضی سر کو پڑھتے ہیں یا جانتے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ان کے قلم میں ایک ایسا عمدہ مزاح نگار موجود ہے جو اپنے مسائل اپنے غموں اور معاشرتی آلام کا حل مسکراتے ہوئے نکالنا جانتا ہے نفسیاتی آلام کے سیلاب میں یہ مسکراتی ہوئی کتاب باعث رحمت ہے۔۔۔۔۔
بلیک کامیڈی اور زرد صحافت سے بچتی بچاتی ہوئی یہ مزاح نوشت ۔۔دل چسپ عنوانات کے ساتھ دس سالوں کے دل چسپ واقعات اورکرداروں کا احاطہ بھی کرتی ہے ۔۔۔ یہ مزاح نوشت میں نے ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالی ۔۔پوچھیے تو وہ کیسے ۔۔۔؟وہ ایسے کہ جب قارئین و شائقین ادب اس کتاب کو خریدیں گے۔۔۔۔۔۔
تو آپ کو خود ہی معلوم ہو جائے گا ۔۔۔
۔۔رضی صاحب نظریاتی لکھاری ہیں اور جس خوبی سے ہمارے معاشرے کے کباڑیوں دیکھتے ہیں اور جس مہارت سے لکھتے ہیں وہ امر کی دلیل ہیں کہ انہیں ان کی نفسیات پہ عبور حاصل ہے ۔۔۔۔
آخر میں ایک دل چسپ اقتباس "بے نظیر کباڑیہ اور سرے محل کے نوادرات "صفحہ نمبر 30
بے نظیر کباڑیے نے اعتراف کرتے ہوئے بتایا ۔
۔۔باؤ جی ۔۔۔میں اچھا بھلا محب وطن ہوں ۔۔میرے والد صاحب کو تحریک پاکستان میں خدمات کے عوض تمغہ ملا تھا ۔۔۔اور وہ تمغہ بھی میں نے خود تیار کیا تھا ۔۔۔۔ہم نوادرات تیار کرنے میں ماہر ہیں آج آرڈر دیں اور پرسوں مجھ سے شاہجہاں کی زرہ بکتر لے لیں ۔۔۔۔۔کونے میں اس کا چھوٹا بیٹا ایک کاغذ پر آڑی ترچھی لکیریں لگا رہا تھا۔۔۔۔۔
ہم نے پوچھا یہ کیا کر رہا ہے ؟؟؟؟؟
جواب آیا ۔۔۔۔دیوان غالب کا قلمی نسخہ تیار کر رہا ہے۔۔۔
فیس بک کمینٹ