مَیں نے فیس بک پر نشتر میڈیکل کالج کے سابق پرنسپل اور اپنے شعبے کے انتہائی قابلِ صد احترام فرد پروفیسر ڈاکٹر مشتاق احمد کے انتقال کی جب خبر لگائی تو معروف کالم نگار، مترجم اور ماہرِ تعلیم پروفیسر علی سخنور نے اپنے کمنٹ میں صرف ایک لفظ لکھا
”فرشتہ“
مَیں تادیر علی سخنور کے اس لفظ پر غور کرتا رہا اور سوچتا رہا کہ اُن کا ڈاکٹر مشتاق احمد کو فرشتہ لکھنا ”حق بحقدار رسید“ کے مترادف ہے۔ ایک ایسا شخص جو بظاہر ہم سے25 نومبر 2020ءکو بچھڑا لیکن دلوں میں یوں زندہ رہے گا جیسے ہمارے ہاں ہیرو زندہ رہتے ہیں۔ ایک بات مَیں اور بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ڈاکٹر پروفیسر مشتاق احمد کا تعلق اُس نسل سے تھا جس نے خدمت کو اپنا شعار بنا رکھا تھا۔ وہ اس جملے کی زندہ مثال تھے کہ ”ڈاکٹر انسانیت کی خدمت کے لیے یہ تعلیم حاصل کرتے ہیں“۔ وہ اپنے کلینک میں آنے والے ہر شخص کے ساتھ اس طریقے سے ہمکلام ہوتے کہ بیمار کی آدھی تکلیف کم ہو جاتی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے جس زمانے میں پرائیویٹ لیبارٹری کا خیال دیا تب اس شعبے میں کمرشل ازم نہیں آیا تھا بلکہ ڈاکٹرز، ان کے ہسپتال اور دیگر شعبے خدمت کے جذبے سے معمور تھے۔ خود ڈاکٹر مشتاق احمد پہلے نشتر ہسپتال کی سرکاری رہائش گاہ پر لیبارٹری کے ذریعے خدمت کرتے رہے اور جب بطور پرنسپل کے انہوں نے اپنی لیبارٹری کو ہسپتال سے باہر منتقل کیا تو ایک زمانے تک وہ ملتان میں سب سے زیادہ انکم ٹیکس دینے والے مسیحا ٹھہرے۔ وہ اپنی ہر رسید پر انکم ٹیکس درج کرتے تاکہ اُن کے کلینک پر آنے والے ہر شخص کو پتہ چلتا کہ وہ لیبارٹری فیس کے ساتھ انکم ٹیکس بھی ادا کر رہا ہے۔ جب تک ان کی صحت اچھی رہی تب تک وہ تمام ٹیسٹ اپنے ہاتھوں سے کرتے اور صفائی اور احتیاط کا یہ عالم تھا کے ہر ٹیسٹ کرنے کے بعد ہاتھ لازمی واش کرتے۔
قارئین کرام! آپ کو یہ باتیں بظاہر معمول کی لگ رہی ہوں گی لیکن ایک ایسا پروفیسر اور ڈاکٹر جس نے اپنی زندگی میں لاکھوں بچوں کو طب کی تعلیم سے آشنا کیا اور بلاشبہ لاکھوں افراد کے ٹیسٹ اپنے ہاتھوں سے کیے لیکن اُن کی زندگی میں لالچ نام کا کوئی لفظ نہیں تھا۔ اُن کی قائم کردہ لیبارٹری کے ٹیسٹ آج بھی سب سے سستے ہیں۔ لیکن اُن کی اتھارٹی کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ وہ نہ تو کسی ڈاکٹر کو اپنی لیبارٹری میں ٹیسٹ کرانے کا کہتے تھے اور نہ ہی سیلف ٹیسٹ کرنے کے عادی تھے۔ جب تک مصدقہ ڈاکٹر کا نسخہ ساتھ نہ ہوتا وہ کسی بھی شخص کا ٹیسٹ نہیں کرتے تھے۔ البتہ انہوں نے آج سے تیس سال پہلے مجھے یہ کہہ کر پریشان کر دیا تھا کہ آنے والے دنوں میں اس قوم کو جو بیماری سب سے زیادہ متاثر کرے گی وہ شوگر ہو گی کیونکہ وہ بتاتے تھے کہ وہ آج کل بھی نہارمنہ کم از کم سو سے زیادہ لوگوں کے ٹیسٹ کرتے ہیں جن میں سے اسی فیصد لوگوں کی شوگر زیادہ ہوتی ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں پر غریب آدمی کے لیے علاج معالجے کی سہولیات ختم ہو گئی ہوں تو تشخیص کے اعتبار سے اُن کی لیبارٹری کسی نعمت سے کم نہ تھی۔ وہ شہر میں کم پیسوں میں زیادہ سے زیادہ تشخیصی ٹیسٹ کرتے تھے۔ یہ کہا کرتے تھے کہ لوگوں کے پاس اب کھانے کے لیے وسائل نہیں رہے تو علاج کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے۔
دس سال پہلے کی بات ہے کہ انہوں نے اخبار میں اشتہار دیا کہ ڈاکٹر مشتاق احمد پیرانہ سالی کے باعث اپنی لیبارٹری بند کر رہے ہیں۔ جن لوگوں نے اپنی رپورٹ وصول نہیں کی اُن سے گزارش ہے کہ وہ اپنی رپورٹ وصول کر لیں۔ کسی بھی ڈاکٹر کی طرف سے یہ اپنی کا منفرد اشتہار تھا جس کو پڑھتے ہی لوگ ان کے گھر پہنچ گئے۔ اور گزارش کی کہ وہ ابھی لیبارٹری بند نہ کریں اور پھر انہی لوگوں کی خاطر مرتے دم تک انہوں نے لیبارٹری میں معمول کے مطابق آنا جانا رکھا۔ 25 نومبر کو جب وہ اپنے اہلِ خانہ سے گپ شپ کرتے ہوئے اگلے جہان کو روانہ ہوئے تو پوری دنیا میں پھیلے اُن کے شاگردوں کے لیے یہ خبر سال کی سب سے زیادہ دُکھ بھری خبر تھی۔ کہ ملتان شہر سے فرشتہ کوچ کر گیا۔ مَیں جب اُن کے انتقال کی خبر سن کر گیلانی کالونی ملتان میں واقع ان کے گھر گیا تو گھر کے صحن میں اُن کا بیٹا اطہر اُن کے جسدِ خاکی کے ساتھ موجود تھا اور کہہ رہا تھا کہ ابو جان نے اپنے منہ بولے بیٹے پروفیسر ڈاکٹر محمد علی کو حکم دے رکھا تھا کہ اگر بیماری کی شدت کے باعث میرے بچے مجھے وینٹیلیٹر پر ڈالنے کی کوشش کریں تو ان کو منع کرنا اور مجھے اگلے جہان میں جانے سے نہ روکنا۔ پروفیسر ڈاکٹر مشتاق احمد کا بیٹا اطہر نم آنکھوں سے یہ بات بتاتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ ﷲ تعالیٰ نے اُن کی یہ خواہش بھی پوری کی کہ وہ ہاتھ میں کتاب پکڑے اپنے کمرے میں ٹی وی دیکھتے دنیا سے یوں گئے جیسے روزانہ وہ تیار ہو کر اپنی لیبارٹری جایا کرتے تھے۔ شاید فرشتوں کے سفر ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے ڈاکٹر مشتاق نے خواہش کی اور اُس خواہش کی تکمیل بھی احسن انداز سے ہو گئی۔
فیس بک کمینٹ