یہ سطریں آپ کی نظروں کا التفات پائیں گی تو رمضان اپنا اسباب سمیٹ کر رخصت کی تیاری میں ہوگا۔ ایک اور رمضان گزرگیا اور میں اپنے گریبان کا تکمہ (بٹن) کھولے اندر جھانکتا ہوں۔ یہ سینہ کبھی بے بال تھا‘ پھر اس کے مساموں سے بال پھوٹے اور اب تو ان بالوں کو وقت کی دھوپ سہتے اتنی مدت ہوگئی کہ ان میں سے اکثررنگ چھوڑ کر سفید پڑگئے ہیں مگر اس ڈھیر سارے دورانیے میں آنے والے اتنے سارے رمضان ہائے کی وہ قدر مجھ سے نہ ہوسکی جو ان کا حق تھا۔ میں تو بی بی رابعہ بصریؒ کے مخاطبین میں سے بھی نہیں۔ ان کی مشہور حکایت ہے نا، کہ ایک روز عالمِ جلال میں ایک ہاتھ میں آگ اور دوسرے میں پانی تھامے چلی جاتی تھیں۔ پوچھا گیا ”بی بی! کدھر کا قصد ہے“۔ فرمایا ”اس آگ سے جنت کو بھسم کردوں گی اور پانی سے نارِ جہنم بجھاڈالوں گی۔ لوگوں میں بہشت کا لالچ اور دوزخ کا خوف ختم ہو تو شاید وہ رب سے محبت کرنے لگیں۔ اب تو ان کے اچھے اعمال محض اس لالچ اور خوف کی بنیاد پر ہوتے ہیں“۔ اللہ جانتا ہے کہ کبھی یہ لالچ یا خوف بھی دامن گیر نہیں ہوا۔ میں تو بس روایت میں پھنسا ہوا شخص ہوں اور اب شرمندگی کا مارا۔ اس کیفیت کو سمجھنے کے لئے آپ کو میرے ساتھ دو زمانوں سے گزرنا ہوگا۔
یادش بخیر! میرے بچپن کا رمضان ہمارے گھر میں ذرا الگ ڈھنگ سے اترا کرتا تھا۔ میری ماں دیہاتی عورت تھیں، نصابی تعلیم سے ناآشنا مگر پنجابی لہجے میں قرآن خوب پڑھا کرتیں۔ نماز روزے کی بھی سختی سے پابند۔ مجھے نہیں یاد کہ رمضان کے دوران دن کے اوقات میں کبھی ہمارے گھر میں چولہا جلا ہو۔ ہم جب بہت چھوٹے تھے یعنی روزے کی فرضیت سے کم عمر کے‘ تب بھی میری ماں سحری کے وقت ہی اضافی پراٹھے بناکے ر کھ دیتی۔ صبح آٹھ نو بجے اٹھ کے انہی پراٹھوں کا ناشتہ ہمیں مل جاتا ۔ دوپہر میں بھی اگر کسی کو بھوک لگتی تو یہی سحر کے بنے پراٹھے کھاتا۔ دن میں آگ جلانا شاید میری ماں کی نظر میں غیرشرعی کام تھا۔ عصر کے وقت، افطار کی تیاری کو ہی چولہا جلتا۔ اول تو ہمارے ننھیالی، ددھیالی مہمان بھی سبھی روزے دار ہوتے لیکن کبھی شاذ کوئی دور کا مہمان بلاروزہ آگیا تو اس کے لئے چولہا جل گیا ہوگا۔ میرے سارے بچپن اور لڑکپن میں ایسا شاید دو تین بارہی ہوا۔
ایسے میں جوں جوں بڑا ہوا‘ روزہ کسی ثواب و اجر کے پیش ِ نظر نہیں بلکہ ایک ثقافت اور روزمرہ (رمضان کے دوران) کی طرح عادت کا حصہ بن گیا۔ یہ احساس کبھی نہ ہوا کہ نہ رکھا تو جہنم کی تپش سہنی ہوگی۔ بس چوں کہ سارا گھرانہ روزے سے ہے تو میں نے بھی رکھنا ہے۔ میری ماں چلی گئی تب بھی یہ عادت برقرار رہی۔ جو روایت وہ چھوڑ گئی تھیں، سارا گھرانہ اس پر کاربند رہا۔ بھابیاں آئیں تو وہ بھی ایسے ہی گھرانوں ہی سے تھیں۔ پھر میری اہلیہ بھی اپنے گھرانے سے یہی ورثہ لے کر آئی۔ نوکری اور جگہ جگہ پوسٹنگ کی وجہ سے میں شادی کے چند ہی ماہ بعد مرکزی گھر کے دھارے سے الگ ہوگیا تھا مگر بیگم چوں کہ روزے کی پابند تھی سو مجھے بھی اسی معمول کا حصہ بنا رہنا پڑا۔
روزہ کبھی گراں بھی ہوجاتا ہے۔ ایسے میں بچوں کو ڈانٹنا، بیگم سے لڑنا وہ ردعمل ہے جس پر اختیار نہیں رہتا۔ پھر سوچتا ہوں ایسے روزے کا کیا فائدہ اور ارادہ کرتا ہوں کہ اچھا کل نہیں رکھوں گا لیکن افطاری کے بعد ارادہ بدل جاتا ہے۔ پچھلے آٹھ دس برسوں میں کئی روزے چھوڑے بھی۔ میری بیگم، میری والدہ کی طرح سخت نہیں ہیں، وہ بچوں کے لئے دوپہر کو کچھ بنایا کرتی تھیں۔ سو میں بھی اس لنگر سے فیض یاب ہوجاتا۔ پھر سوچتا کتنی غلط بات ہے، سارے گھرانے میں صرف ایک خاتونِ خانہ روزہ دار ہواور شام کو افطار میں کوئی اہتمام دیکھنے کو نہ ملے۔ سو ان کا ساتھ دینے کو روزہ رکھ لیتا۔ اب دوسرا سال ہے کہ اک اور عنصر آن شامل ہوا۔ گزشتہ سال تو اتنا نہیں تھا مگر اب کے رمضان زیادہ ہے۔
میری بڑی دونوں بیٹیاں خیر سے اس عمر میں داخل ہوگئی ہیں جب روزہ فرض ہوجاتا ہے۔ چناں چہ اب کے برس میں زینب اور زہرا کی وجہ سے روزے رکھ رہا ہوں۔ میں سوچتا ہوں، وہ ابھی تربیت کے مراحل میں ہیں۔ اپنے شوق سے ماشاءاللہ روزے رکھ رہی ہیں۔ اگر وہ دیکھیں گی کہ ہٹا کٹا باپ روزے نہیں رکھتا تو رفتہ رفتہ وہ بھی باپ کی سی ڈگر اپنالیں گی۔ میں چاہتا ہوں ان کی بھی عادت بن جائے اور وہ روزہ رکھنے کی کلچر میں ڈھل جائیں۔ ہاں! یہاں آکر تھوڑی لالچ کا عنصر بھی میری اس خواہش میں شامل ہوجاتا ہے۔ اولاد والدین کے لئے صدقہ جاریہ ہوتی ہے۔ کل کو میرے بعد عبادات میں مشغول ہوں گی تو تھوڑا حصہ مجھے بھی پہنچتا رہے گا۔ گرمیوں کے طویل روزے میں اس مرتبہ میں نے دو ایک روزے چھوڑے بھی مگر سچی بات ہے، افطاری کے وقت اور سارا دن شرم ساری محسوس ہوتی رہی کہ چھوٹی چھوٹی بیٹیاں روزے سے ہیں اور میں….. پھر ابا جی کا خیال آتا رہاکہ ماشاءاللہ چوراسی برس کی عمر میں بھی روزہ رکھ رہے ہیں تو مزید شرم آتی۔ سو میں پھر روزے کی طرف لوٹ آتا ہوں۔
روزے کے حوالے سے میری گھریلو تربیت کا حال تو آپ کو معلوم ہوگیا۔ بچپن، لڑکپن میں جن دنوں مری ذہن سازی ہورہی تھی، ان دنوں ملک کا عمومی ماحول بھی خاصا اسلامی تھا۔ رمضان المبارک میں کوچہ و بازار ایک مخصوص رنگ اوڑھ لیتے۔ اخبارات میں روزہ خوروں کو سزاﺅں کی خبریں شائع ہوتیں۔ سرِراہ کھانے پینے میں لوگوں کو فطری جھجک تھی اور جن کو جھجک نہ تھی وہ قانون کے ڈر سے باز رہتے۔ چناں چہ ایک کریلا اور دوجا نیم چڑھا والا معاملہ ہوا۔ یہ دُہری تربیت مجھ سے روزے رکھواتی ہے پھر بھی میں بھوک پیاس برداشت کرنے کے باوصف ایک احساسِ جرم کا شکار رہتا ہوں جو رمضان کو رخصت کرتے وقت سِوا ہوجایا کرتا ہے۔ وہ خشوع و خضوع پتہ نہیں کہاں ہے جو روزے جیسی اہم عبادت کا خاصہ ہونا چاہیے۔ محبت کا وہ غرور معلوم نہیں کدھر ہے جو محبوب کے لئے جسمانی تکلیف برداشت کرنے والے محب کے مزاج کا حصہ ہوتا ہے۔ محب والی بے تابیاں نہیں ہیں، ڈر اور لالچ کا بھی کوئی گزر نہیں۔ بس ایک عادت ہے، مزاج کا ایک حصہ اور گھر کے بچوں سے شرم، جس کے ہاتھوں مجبور ہوکر دن بھر بھوک پیاس اوڑھے رکھتا ہوں۔
اب بھی رمضان کے دمِ رخصت یہی سوچ رہا ہوں۔ ندامت ہے اور پچھتاوا۔ مگر ایسے میں اُس کا فرمان یاد آتا ہے ”روزہ میرے لئے ہے اور اس کا اجر میں خود دوں گا“۔ اے بارِ الہ! یہ عادت ہے، مزاج یا پھر لوگوں سے شرم ساری ،مگر ہے بہرحال روزہ۔ وہی روزہ جو بقول تیرے‘ تیرے ہی لئے ہے۔ خشوع و خضوع اور عشق و وارفتگی کے بغیر جیسا بھی ہے، تیرے حضور، تیری ہی نذر ہے۔ اپنی بارگاہ میں قبول فرما۔گر قبول افتد، زہے عِزوشرف۔
فیس بک کمینٹ