ایک جملے میں کلچر کی اگر تعریف کرنا ہو تو یہی ہو گی ”مین میڈ انوائرمنٹ“ گویا انسان کا تراشا ہوا ماحول۔ فطرت نے بارش برسائی۔ پہاڑوں سے بہہ کر ندی، نالوں، چشموں کی صورت اِدھر اُدھر سے آ کر وہ یک جا ہوئی تو دریا بن گیا جو اپنا راستہ تلاشتا اور تراشتا ہوا سمندر تک پہنچا۔ اسی دریا پر راہ میں جگہ جگہ ہیڈورکس بنا کر انسان نے نہریں نکالیں، ان سے راجباہ اور راجباہوں سے کھالے نکال کر کھیتوں تک پانی کو لے گیا، یہ کلچر ہے۔ فطرت نے پتھر اور مٹی پیدا کی۔ انسان نے پتھر کو تراشا، مٹی سے اینٹ بنائی اور پھر عمارات کھڑی کر کے ان میں رہنے لگا، یہ کلچر ہے۔ علی ہذا القیاس، زمانہ قبل از تاریخ کے انسان سے لے کر آج تک کے انسان کا سفر سوچتے جایئے، آپ کو اپنے اردگرد مادی اور غیرمادی ہر دو شکل میں کلچر بکھرا ہوا نظر آئے گا۔ پہننے اوڑھنے سے لے کر، رقص کرنے، گانے اور کھانے پینے تک سبھی کلچر ہے اور اپنے اپنے علاقے کا نمائندہ۔
میں جس دھرتی کا رہنے والا ہوں، اسے ملتان کی دھرتی کہتے ہیں۔ سندھ کی سرحدوں سے لے کر پنجاب (جغرافیائی تقسیم نہیں، کلچر کی بنیاد پر بات ہو رہی ہے) کی دہلیز تک سارے کا سارا اسی شہرِ عظیم و قدیم کا پھیلاؤہے، لتان اور ملتانی کلچر کا پھیلاؤ، جسے اب سرائیکی کا نام دے دیا گیا ہے۔ نصف صدی سے زائد عرصہ ہوتا ہے جب خطے کے دانشوروں نے مل بیٹھ کر ملتان، ڈیروی، تھلوچی، ریاستی وغیرہ کا ایک متفقہ نام ”سرائیکی“ رکھ دیا۔ کسی کو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ اگر زبانِ فارس رکھنے والے حکمران ماجھی، دوآبی، مالوی وغیرہ بولیوں کو ایک مشترکہ فارسی نام ”پنجابی“ دے سکتے ہیں تو اِس خطے کے مختلف لہجوں کو سرائیکی کا نام کیوں نہیں دیا جا سکتا کہ اب تو یہ قبولِ عام سند حاصل کر چکا ہے۔ خیر! یہ میرا آج کا موضوع نہیں۔
مجھے تو کلچر کا راگ چھیڑ کر اُس میں سے ”آم“ کی تان اٹھانی تھی۔ آم وہ پھل، جو میرے شہر اور میرے خطے کی منفرد پہچان ہے۔ اس کو پیدا تو فطرت نے کیا مگر اس کے باغات نے، پیوندکاری سے نت نئی اقسام نے اور اس کے پھل نے ایک خاص کلچر تشکیل دیا ہے جو ملتان کی شناخت بنا۔ یہ شہر مینگوسٹی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ باغ مالکان، آڑھتی، ٹھیکے دار، خردہ فروش اور باغوں میں کام کرنے والی لیبر ایک پوری چین ہے جو معاشی حوالے سے آم کے ساتھ وابستہ ہے مگر میں عام آدمی کی بات کروں گا۔ آم اور پِنڈ (کھجور) میرے علاقے کی ایسی سوغات ہیں کہ جو روٹی کے ساتھ ایک طرح سے سالن کا کام دیتے ہیں۔ فرض کیجیے گرمیوں میں آپ کے پاس بھاجی دست یاب نہیں۔ چٹنی سے یا اچار کی پھانک سے روٹی کا لقمہ لگا کے منہ میں رکھیے اور اوپر سے نرم کیے ہوئے آم کو لبوں سے لگا کر ایک گھونٹ لیجیے۔ شان دار اور خوش ذائقہ لنچ، ڈنر کا لطف اٹھایئے۔ اگر چٹنی، اچار بھی میسر نہیں تو خیر ہے۔ دہن میں رکھے روٹی کے روکھے پھیکے لقمے کو خوش ذائقہ کر کے حلق سے اتارنے کو آم کافی ہے۔
گرمیوں میں جب آم اتر چکا ہو تو سچی بات ہے کہ خال ہی کوئی کھانا ایسا ہوتا ہو گا جب آم کو میں سلاد کے طور پر استعمال نہ کروں۔ اِن دنوں میں مجھے سالن کے کم ذائقہ ہونے کی کوئی فکر نہیں ہوتی۔ جیسا بھی ہے جب لقمے کو آم کے رس کا تڑکا لگ جائے تو ہر طرح کا سالن خوش ذائقہ ہو جاتا ہے۔ یہاں گرمیوں میں احباب اک دوجھے کی خصوصی دعوتیں کرتے ہیں۔ دھاونڑی (دھاونڑ سرائیکی میں نہانے کو کہتے ہیں) اور ساونڑی (ساون شروع ہونے پر) منائی جاتی ہے۔ دھاونڑی کسی دریا، نہر کے کنارے یا ٹیوب ویل کے حوض پر منائی جاتی ہے۔ احباب اکٹھے ہو کر نہاتے ہیں۔ اٹکھیلیاں کرتے ہیں اور اِس سرگرمی کا اہم ترین جزو آم ہوتا ہے۔ غالب کے طے کردہ معیار کے مطابق یہ آم میٹھے ہوتے ہیں، ٹھنڈے ہوتے ہیں اور بہت ہوتے ہیں۔ ٹھنڈے پانی کے حوض میں بیٹھ کر آم کھانے بلکہ چوسنے کا کیا لطف ہے، یہ اس عمل سے گزر کے ہی جانا جا سکتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ مئی کے وسط سے لے کر اگست تک ایک خاص کلچر ہے جو ملتان اور اس کے گردونواح پر طاری ہو جاتا ہے۔
مگر پچھلے کچھ برسوں سے میرے شہر کا منظرنامہ عجیب ہوتا جا رہا ہے۔ ابھی 80ءکی دہائی کے آخری برسوں کا ذکر ہے جب ہم ایمرسن کالج میں پڑھتے تھے۔ چھ نمبر چونگی پر گل گشت کالونی ختم ہو جاتی ہے اور اس سے آگے بوسن روڈ کے ہر دو طرف آموں کے باغ ہوا کرتے تھے جو یونیورسٹی اور اس سے آگے بندبوسن دریا تک چلے جاتے تھے۔ انہی دنوں شہر پھیلنے لگا تو چھ نمبر سے آگے کے باغ رفتہ رفتہ کٹنے لگے۔ زمینداروں نے اپنے دلوں ایسی تنگ گلیاں چھوڑ کالونیاں بنانا شروع کر دیں۔ پھر نوے کی دہائی کے اوائل میں یونیورسٹی جایا کرتے تھے، تب بھی ینیورسٹی تک بے شمار باغات تھے، گھنے گھنے، بڑے بڑے، قدآور درختوں والے آم کے باغ۔ مارچ اپریل میں ان کے بور کی خوش بو فضا میں بھر جایا کرتی تھی۔ رفتہ رفتہ ملتان کے ان قدیمی باسیوں یعنی آم کے درختوں کو قتل کیا جانے لگا۔ اپنے ہی شہر میں ان کو موت بانٹی جانے لگی۔ اب آپ یونیورسٹی تک 9 کلومیٹر گاڑی بھگاتے ہوئے چلے جایئے، آپ کو بوسن روڈ کے دونوں جانب آم کا کوئی درخت شاید ہی نظر آئے۔
شام کے بعد بوسن روڈپر ایک منظر روزانہ نظر آ رہا ہے اور پچھلے کئی برسوں سے۔ بے شمار بیل گاڑیاں اور ٹریکٹرٹرالیاں بندبوسن کی جانب سے چلی آ رہی ہیں۔ بیل گاڑیوں اور ٹریکٹروں کے پیچھے اٹکی ٹرالیوں کے شکم آم کے درختوں کی لاشوں سے لبالب ہوتے ہیں۔ بڑے بڑے تنوں سے لے کر پتلی پتلی شاخوں تک، یہ سب بیل گاڑیاں اور ٹرالیاں ریلوے لائن سے پرے بنی ٹمبر مارکیٹ (لکڑمنڈی) کی طرف رواں ہوتی ہیں۔ بے زبان دھڑا دھڑ قتل ہو رہے ہیں اور اُن کے لاشے اسی شہر کی سڑکوں سے گزر کر آروں تک پہنچے ہیں، جس کو انہوں نے اپنے پھل کے شیریں رس سے سیراب کیا۔
یونیورسٹی سے آگے، اس کے سامنے، اس کے گرداگرد اور اس سے اِدھر خدا جانے کون سی رزم گاہ ہے۔ کیسا معرکہ گرم ہے اور کون سی جنگ کا طبل بجتا ہے کہ اس شہر کے موسموں کی سختیوں کو خود پر جھیل کر اعتدال بخشنے والے درخت یوں بے دریغ قتل ہو رہے ہیں۔ درختوں کے حوالے سے ملتان شہر پہلے ہی تنگ دست ہے اوپر سے یہ ”قتلِ عام“۔۔!! اس شہر کو کبھی جہاز کی کھڑکی سے جھانک کر دیکھیئے، یہ گنجا شہر ہے۔ وہ شہر جس کی چندیا پر درخت نام کی زلفیں نہ ہونے کے برابر ہےں۔ اب پچھلے کئی برس سے روزانہ میں بوسن روڈ پر آم کے درختوں کے لاشے جاتے ہوئے دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ کوئی ہے جو اس قتلِ عام کا تدارک کرے؟ شہر کا پھیلاؤ اور آبادی کا دباؤ اپنی جگہ مگر کوئی تو طریقہ ہو گا آموں کو کٹنے سے بچانے کا۔ یہ درخت صدیوں سے انسان کے ساتھ رہتے آئے ہیں، انسان کی خدمت کرتے آئے ہیں، انسان کو اپنا شیریں رس پلاتے آئے ہیں۔ ایسی بھی کیا مدنیت کہ اب انسانوں کو بسانے کے لیے اِن کا قتل کیا جا رہا ہے۔ آخر کیوں یہ آم کے درخت اور انسان ساتھ ساتھ نہیں رہ سکتے؟
اے اہلِ نظر….! اے اہل خرد….! اے صاحبانِ دل….! اس درد کا کوئی درماں….؟ اس قتلِ عام کا کوئی سدِباب….؟
(بشکریہ: روزنامہ خبریں)
فیس بک کمینٹ