انتخابات کا ہنگامہ اس قدر شدید رہا ہے کہ میڈیا، سیاست دانوں یا مبصرین کو اس دوران کل کوئٹہ کےایک پولنگ اسٹیشن پر ہونے والے دہشت گرد حملے اور ملک کی سیاست اور سماج پر اس کے مرتب ہونے والے اثرات کا اندازہ کرنے کا موقع بھی نہیں مل سکا۔ ممکنہ وزیر اعظم عمران خان نے انتخاب میں کامیابی کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس میں بجا طور سے اس سانحہ کا ذکر کیا ہے اور بلوچستان کے عوام کے حوصلہ اور بہادری کی توصیف کی ہے کہ اس بزدلانہ اور المناک سانحہ کے باوجود انہوں نے پولنگ میں حصہ لیا اور انتخابی عمل میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کو ناکام بنایا۔ عمران خان کو بطور وزیر اعظم ملک سے دہشت گردی اور انتہا پسندی ختم کرنے کے مشکل اور سنگین چیلنج کا سامنا ہوگا۔ اس حوالے سے اقدام کرتے ہوئے انہیں اپنے ان مذہبی سیاسی ساتھیوں کی طرف سے بھی مزاحمت کا سامنا ہو گا جو بوجوہ ملک میں مذہبی فرقہ پرستی اور انتہا پسندی کا سبب بنتے رہے ہیں۔ اپوزیشن میں رہ کر برسر اقتدار پارٹیوں پر الزامات عائد کرتے ہوئے عمران خان نے ان عناصر سے پینگیں بڑھانا بھی ضروری خیال کیا تھا۔ تاہم مذہبی تعصب کو سیاست کا عنوان بنانے والے یہ لوگ عمران خان کے لئے بطور وزیر اعظم سب سے بڑی رکاوٹ اور دیوار ثابت ہوں گے۔ عمران خان بطور وزیر اعظم ان عناصر سے جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں تو نت نوع الزامات ان کی نئی نویلی حکومت کے آغاز سے ہی اس کا پیچھا کرنے لگیں گے۔
عمران خان کو اس حوالے سے دوسرا چیلنج ملک کی عسکری قوت سے ہوگا۔ پاک فوج اور اس کے انٹیلی جنس ادارے ایک خاص ڈھب سے ملک کا انتظام چلانے یا چلوانے کے عادی ہیں۔ ہر منتخب حکومت کے ساتھ اسی حوالے سے تنازعات کا آغاز ہو تا ہے۔ اگر پرویز مشرف کے آمرانہ دور کے بعد ملک میں دو جمہوری ادوار کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کو اسی قسم کے تنازعات کے باعث میمو گیٹ اسکینڈل میں الجھایا گیا اور اس کے ایک وزیر اعظم کو سپریم کورٹ نے معزول کرکے جمہوری استحکام کی طرف بڑھتے ہوئے پاکستان کے راستے میں پہلی رکاوٹ کھڑی کی۔ اس وقت نواز شریف پیپلز پارٹی کے خلاف اس عدالتی اور فوجی منصوبہ میں کردار ادا کرکے اپنے لئے اقتدار کا راستہ ہموار کررہے تھے۔ 2013 میں نواز شریف کو حکومت کرنے کا موقع ملا اور عوام نے انہیں واضح اکثریت کے ساتھ ملک پر حکومت کرنے کا فیصلہ دیا۔ لیکن نواز شریف نے غیر جمہوری اداروں اور عناصر کو ایک جمہوری حکومت کو عاجز کرنے میں تعاون فراہم کرکے جمہوریت کے راستے میں جو کانٹے بچھائے تھے، وہ خود انہی کو بے دست و پا کرنے کا سبب بنے۔
سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ قائم کرنے کا معاملہ ان کے سفر کی پہلی رکاوٹ ثابت ہؤا اور عمران خان اور علامہ طاہر القادری کی سربراہی میں دھاندلی کے نام پر2014 کا دھرنا شروع کرواکے جمہوری حکومت کو اس کی اوقات یاد دلائی گئی۔ یہ دھرنا کسی سیاسی سمجھوتہ کے نام پر نہیں بلکہ فوج کی مداخلت سے ہی ختم ہو سکا تھا۔ اس کے نتیجے میں ایک منتخب حکومت کی کمر توڑنے کا جو کارنامہ سرانجام دیا گیا تھا، اس کا سلسلہ ڈان لیکس اور پاناما لیکس سے ہوتا ہؤا بالآخر نواز شریف کی نااہلی اور طویل قید کی سزا تک پہنچا۔
جس طرح نواز شریف پیپلز پارٹی کی حکومت کے دور میں جمہوری اور سیاسی انتظام کو کمزور کرنے کا باعث بنے تھے اسی طرح عمران خان گزشتہ پانچ برس میں اس دور کی دوسری جمہوری حکومت کو کمزور اور بے بس کرنے کا سبب بنے۔ مئی میں ختم ہونے والی مسلم لیگ (ن) کی حکومت اس حد تک بے بس اور معذور ہو چکی تھی کہ اس کے وزیر اپنی وزارتوں سے زیادہ عدالتوں کے چکر لگانے پر مجبور تھے اور ایک کے بعد دوسرے لیڈر کو توہین عدالت کے الزام میں طلب کیا جارہا تھا۔ اب دھاندلی کا وہی شور عمران خان کی فقید المثال کامیابی کے بعد سننے میں آرہا ہے۔
ایک بار پھر یہ اندیشہ موجود ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کا پہلا تنازعہ اسی قوت کے ساتھ کھڑا ہو گا جس کی توصیف میں آج عمران خان رطب اللسان ہیں اور ان کے مخالفین جس کے بارے میں یہ الزام عائد کر رہے ہیں کہ عمران خان کو جتوانے کے لئے ہر ناجائز ہتھکنڈا اختیار کیا گیا تھا۔ اب عمران خان نے ان انتخابات کو ملک کی تاریخ کا شفاف ترین انتخاب قرار دیا ہے جس کے بارے میں ملک ہی نہیں دنیا بھر کے مبصرین کی یہ رائے ہے کہ داغدار اور پری پول رگنگ کا شاہکار تھے۔
25 جولائی کو منعقد ہونے والے انتخابات عمران خان کی جدوجہد یا تحریک انصاف کی کوششوں کا نتیجہ نہیں ہیں۔ اور نہ ہی یہ کہنا درست ہو گا کہ الیکٹ ایبلز نے مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی سے تحریک انصاف کی طرف اڑان بھر کر یہ سفر آسان کردیا۔ یہ انتخاب اس ملک کے عوام کی کامیابی ہے جنہوں نے ایک خواب اور خواہش کے لئے نئی سیاسی قیادت کو اپنے اعتماد کے قابل سمجھا ہے۔ عمران خان کو اس پارٹی کی قیادت کرتے ہوئے ملک کا وزیر اعظم بننے کا اعزاز حاصل ہونے والا ہے لیکن اس مرحلہ پر انہیں یہ سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کے راستے میں بھی وہی پتھر حائل ہوں گے جو وہ خود اقتدار تک پہنچنے کے لئے اپنے سیاسی پیشرؤں کی طرف لڑھکاتے رہے ہیں۔
اس سفر میں عمران خان کو حوصلہ دے کر یہاں تک لانے والے ہی ان کے لئے مشکلات کا سبب بھی بنیں گے۔ کیوں کہ قومی مفاد، ملک کی ضروریات اور حکمرانی کے طریقہ کے بارے میں عسکری اداروں نے ایک خاص فارمولا ایجاد کر رکھا ہے جسے عدلیہ کی بالواسطہ تائید و حمایت بھی حاصل ہے۔ منتخب ہوکر معاملات دیکھنے والا ہر لیڈر جب بھی اس طریقہ کی کمزوریوں کو دور کرنے کی خواہش کا اظہارکرے گا، اس کی مشکلات کا آغاز ہوجائے گا۔ اس مشکل میں سیاسی قوتیں باہم دست و گریبان ہو تی ہیں اور برسر اقتدار گروہ سے اپنی ناکامی کا بدلہ لینے کے لئے اس پرانے کھیل میں وہی مہرہ بننے کے لئے آمادہ ہوجاتی ہیں جو ماضی میں ان کی شکست اور ہزیمت کا سبب بنے تھے۔ اس لئے انتخاب کے بعد ایک پارٹی کو ملنے والی واضح اکثریت کے موقع پر یہ کہنا بے حد ضروری ہے کہ ملک میں جمہوری عمل کی کامیابی سیاسی طاقتوں کی یک جہتی میں ہے۔ اگر یہ قوتیں ایک دوسرے کے خلاف آلہ کار بننے کی روش پر قائم رہیں گی تو ملک پر انہی قوتوں کا تسلط رہے گا جو اگرچہ منتخب تو نہیں ہوتیں لیکن خود کو منتخب اداروں اور افراد سے بہتر اور بالا سمجھتی ہیں۔
کامیابی کے بعد عمران خان نے خاص طور سے پولنگ والے دن کوئٹہ دھماکہ، بلوچ عوام کی بہادری اور جمہوریت پسندی کا ذکر کیا ہے اور ان کے حوصلہ کی داد دی ہے۔ لیکن بطور وزیر اعظم جب وہ معاملات کا جائزہ لیں گے اور سب کو قانون کی نظر میں مساوی دیکھنے کا اقدام کرنا چاہیں گے تو انہیں خبر ہو گی کہ بلوچستان میں لوگ کیوں لاپتہ ہو جاتے ہیں اور انہیں انصاف کیوں نہیں ملتا۔ کیا وجہ ہے کہ ملک کے باقی تین صوبوں کے لوگ ایک پارٹی سے تنگ آکر نئی پارٹی کو منتخب کر لیتے ہیں لیکن بلوچستان میں نمائیندگی کا اختیار انہی مہروں کے ہاتھ میں رہتا ہے جنہیں خواہ کوئی نام دے لیا جائے لیکن ان کا کام اور مقصد صرف ایک ہے۔ کہ عوام کی حاکمیت کی بجائے قومی مفاد کا تشکیل شدہ بیانیہ نافذ کرنے میں مدد کی جائے اور بدلے میں اقتدار کی ضمانت حاصل کی جائے۔ منتخب وفاقی حکومت جب بھی اس صورت حال کو تبدیل کرنے اور قانون کو انسانی حقوق سے کھلواڑ کرنے والے عناصر تک دراز کرنے کی کوشش کرے گی اس کا اپنا عرصہ حیات تنگ ہوجائے گا۔ عمران خان کوا س معاملہ میں استثنیٰ حاصل نہیں ہو سکے گا۔
عمران خان نے آج منتخب ہونے کے بعد بھی مغرب میں عدل کے نظام اور پاکستان میں اس کی کمزوری کا حوالہ دیا ہے لیکن انہیں جان لینا چاہئے کہ عدل کا نظام اسی وقت قابل اعتبار بنے گا جب ملک میں قانون سے بالا اداروں کو بھی قانون کے دائرہ میں لانے کا اہتمام ہوسکے گا۔ یہ انتظام صرف بلوچستان کا نعرہ لگانے یا عبدالقدوس بزنجو کی طرح وزیر اعلیٰ بننے اور صادق سنجرانی جیسے شخص کو سینیٹ کا چئیرمین بنوانے سے ممکن نہیں ہو سکے گا۔ اس کے لئے پارلیمنٹ میں سب سیاسی پارٹیوں سے تعاون کا پلیٹ فارم تیار کرنا ہو گا۔ یہ جاننا ہو گا کہ سیاست دانوں کو مطعون کرنے، گالی دینے اور جیلوں میں بھرنے سے نہ انصاف عام ہو گا اور نہ ہی قانون کا بول بالا ہو سکتا ہے۔ اس مقصد کے لئے قانون سے بالا اداروں کو قانون کے دائرے میں لانا ضروری ہے۔ اسی لئے ووٹ کے احترام کی بات کرنا ضروری ہے۔
اسی لئے بدھ کو ہونے والے انتخاب میں عوام کو کامیاب مان لینے میں عافیت ہے اور یہی وجہ ہے کہ دھاندلی ڈرامہ اگر کل غلط تھا تو کہنا ہوگا کہ اس سے آج بھی کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ انتخاب مشکوک تھے لیکن ان میں عوام نے بے لاگ رائے دی ہے اور اس کا اظہار ایک پارٹی کی واضح برتری کی صورت میں دیکھنے میں آیا ہے۔ معلق پارلیمنٹ کی خواہش اور کوشش کرنے والے عناصر کی ناکامی کا کریڈٹ بھلے عمران خان لیں لیکن انہیں جلد یا بدیر یہ ماننا پڑے گا کہ ان ارادوں کو عوام کے سیاسی شعور نے ناکام بنایا ہے۔ اسی عوامی مینڈیٹ کے احترام کے سفر میں جب بھی انہوں نے راست قدم اٹھانے کی کوشش کی تو انہیں اپنے دوش پر لے کر اڑنے والی ہوا کو باد مخالف بننے میں دیر نہیں لگے گی۔
عمران خان کے علاوہ فوج نے خود بھی ملک میں شفاف انتخاب کروانے کے کا سہرا اپنے سر باندھنے میں تاخیر نہیں کی۔ کل ساڑھے تین لاکھ فوجی ملک بھر میں سیکورٹی انتظامات پر تعینات تھے لیکن دن کے شروع میں ہی کوئٹہ دہشت گردی میں تیس سے زائد افراد کی شہادت کے باوجود میجر جنرل آصف غفور کا شام چھ بجے پولنگ ختم ہونے کے فوری بعد جاری ہونے والے ٹویٹ پیغام کا خلاصہ یہ تھا: ’ شکریہ ہم وطنو۔ دنیا نے آج پاک فوج کے لئے آپ کی شیفتگی کو دیکھا۔ آپ نے ہر گمراہ کن پروپیگنڈا کو مسترد کردیا ہے۔ ہم آپ کی غیر متزلزل اعانت کی وجہ سے طاقت ور ہیں۔ ہماری زندگیاں پاکستان اور اس کے عوام کے لئےوقف ہیں۔ پاکستان پھر جیت گیا‘۔
یہ قیاس آرائی بے سود ہوگی کہ کوئٹہ کے المناک سانحہ اور انتخابات کے بارے میں اٹھنے والے شبہات کے باوجود آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل کو یہ بیان جاری کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ تاہم اس بیان کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سیکرٹری بابر یعقوب فتح محمد کے اس بیان کے ساتھ ملا کر پڑھنے سے تصویر مکمل کی جاسکتی ہے کہ’ پولنگ کے دوران سیکورٹی فراہم کرنے پر وزارت خزانہ نے پاک فوج کو 9 ارب روپے ادا کئے ہیں‘۔
عمران خان یا ملک کے کسی بھی نئے وزیر اعظم کو ان دو بیانات کے بیچ سفر کرتے ہوئے انصاف، خوشحالی اور عوامی توقعات پورا کرنے کی کوششوں کا آغاز کرنا ہے۔
(بشکریہ: ہم سب)
فیس بک کمینٹ