مارچ کا موسم بھی کیا حسین اور خوشگوار ہوتا ہے، نہ گرمی نہ سردی۔ ایسے میں باہر گھومنے پھرنے اور بہار سے لطف اندوز ہونے کا مزہ بہت آتا ہے۔ آج ہمارے پرچے بھی ختم ہو چکے ہیں اور پلان کے مطابق ہم نو دوست شہر کی سڑک پر کچھ ہلہ گلہ کرنے نکلے ہیں۔ جوشیلی طبعیت ہونے کے باعث سب سے آگے میں ہوں کیونکہ میں نے ہی سب کو اس کھیل کے لیے تیار کیا ہے۔ آزادی پسند، خود مختاری، شوخی اور کچھ کچھ بغاوت کے جذبات بھی ہیں ہم دوستوں میں۔ لیکن کیوں نہ ہوں ہماری عمر ہی ایسی ہے۔ پھر بھی جانے کیوں بڑے ہمیں غلط ہی سمجھتے ہیں۔ آج ہی کی بات لیجئے، تمام کے تمام دوستوں کو ماں باپ سے بحث کرنی پڑی ہے کہ ہمیں باہر نکلنے دیں موٹر سائیکلوں کے ساتھ۔ اور محض ہم میں سے دو کے والدین تھے جو باآسانی مان گئے ۔۔کیوں نہ مانتے آخر ہم نے بات ہی ایسے گھما پھرا کر کی تھی۔ مجھے یقین ہے انہیں سمجھ نہیں آئی ہو گی ورنہ وہ بھی ڈر جاتے۔ خیراس میں ڈرنے والی کیا بات ساری دنیا ہی ون ویلینگ کرتی ہے۔ کوئی وڈیو نکال کر دیکھ لیں سوشل میڈیا پر اور تو اور اب یہ اتنا عام فیشن ہے کہ ٹی وی پر بھی اس کے اتنے اشتہار آنے لگے ہیں۔ افسوس پھر بھی والدین اور بڑے اس سے ڈرتے رہتے ۔۔ ارے بہادری کا کام ہے یہ ۔۔ مگر انہیں کون سمجھائے۔
"یار کیا سوچ رہا ہے؟” رضوان نے جھنجھوڑ کر کہا۔ وہ میرے پیچھے بائیک پر بیٹھا تھا اور میں سوچوں میں اس قدر ڈوب گیا کہ یاد بھی نہیں رہا کہ ہم تو مری روڈ کراس کر کے راول ڈیم کی جانب پہنچ رہے ہیں جب کہ ہمارے تین دوست ابھی پہنچے بھی نہیں۔
"اوئے یار۔۔۔اسد لوگوں کو کال کر۔ پوچھ پہنچے ہیں کہ نہیں”
"اچھا” رضوان نے کہا اور پھر کال پر ان سے پوچھنے لگے،”جگر،کدھر ہے؟کیا مری روڈ پر ہی اٹکا ہے۔جا یار۔۔۔تیرا کوئی حال نہیں۔۔۔۔کٹ مار سیدھے سیدھے۔۔۔ہم تو پہنچ بھی گئے۔۔۔میں ہوں،بلال اور مختار ہیں ساتھ۔ واجد، فرحان اور رفیق دوسرے بائیک پر ہیں۔ہاں وہ بھی ساتھ ساتھ ہی ہیں فکر نہ کرو۔۔۔تو پہنچ بس۔۔۔راول ڈیم چوک پر پہنچو جلدی۔۔”
کال بند کر کے رضوان نے مجھے بائیک کی سپیڈ بڑھانے کا کہا اور ہم لوگ چھلاوے کی طرح روڑ پر بائیک بھگانے لگے۔”چل تیز کر نا۔۔۔اس گاڑی سے آگے نکال۔۔نہ نہ آگے نہ جانے دے اسے۔۔۔نکل تو اسے اوور ٹیک کر۔ تیز۔۔۔تیز تر۔۔۔۔۔”
رضوان کے جوش کا عالم مجھ سے بھی کہیں اوپر تھا۔ میں اس کا لیڈر تھا اور وہ میرا۔جہاں میری رفتار کم ہونے لگتی رضوان کی جوشیلی آواز اسےتیز کر دیتی اور یہ بہت اچھا لگ رہا تھا ایسے جیسے ہم جہاز اڑا رہے ہوں۔آج ہم آسمان پر اڑ رہے تھے۔ ہر گاڑی پیچھے تھی ہم سے،ہر ویگن، ہر ٹرک ۔۔۔واہ! مجھے اپنے بائیک چلانے پر فخر محسوس ہونے لگا تھا۔ لوگ ہمیں غور سے دیکھ رہے تھے۔کچھ خوشی سے کچھ غصے سے۔غصے والوں پر دھیان نہیں گیا کبھی البتہ خوشی والوں پر اپنی پھرتیاں دکھانے کا اور بھی مزہ آتا تھا۔ سو جب بھی کوئی ہمیں نوٹ کر رہا دیکھتا،میں اور بھی جذبات میں آ جاتا اور تیز تر کرکے بائیک ہوا میں لے جاتا۔۔۔۔زندگی کا یہ ہی مزہ تھا!
کچھ دیر میں ہمارے پیچھے رہ جانے والے دوست بھی پہنچ گئے۔اب جب ہم تین موٹر سکوٹروں والے ایک ساتھ جمع ہوئے تو طے یہ پایا کہ ہم آپس میں ریس لگاتے شاہدرہ تک جا کر واپس مری روڑ تک جائیں گے۔ شام کے پانچ بج رہے تھے اورسورج میں وہ تمازت نہ تھی جو دن کے وقت ہوا کرتی ہے۔ہم نے کچھ دیررک کر سگریٹ پی پھر راول روڑ سے اپنے سفر کا دوبارہ آغاز کیا۔ اب کی بار میرے پیچھے اسد اور افختار بیٹھے تھے جب کہ دوسرے دو بائیکوں پر تین تین کر کے میرے اور دوست براجمان تھے۔ہم نے ٹھیک ساڑھے پانچ بجے ریس کا آغاز کیا اوراپنا اپنا سکوٹر دوڑاتے ہوئے شاہدرہ کی جانب بڑھے۔ہمارے جذبے آسمان پر اورمقابلے کی لگن شاید آسمان سے بھی اوپر تھی۔۔۔۔طبعیت میں شوخی تو تھی ہی سو ون ویلنگ کا تماشا بھی شروع کیا۔جب ذرا سڑک خالی دیکھتے بائیک اوپر اٹھا کر دوسرے کو نیچا دکھانا چاہتے۔۔۔یہ ہمارا کھیل تھا۔
‘تیز کر تیز۔۔۔اس گاڑی سے آگے نکال’ ایک دوست چیخا
‘اوئے اشارہ آ رہا ہے۔۔۔توڑ توڑ’ دوسرے نے لقمہ دیا۔
‘چل ٹرک کے آگے کھڑا کریں بائیک۔۔۔۔”تیسرا بولا۔
‘میں بائیک کو اٹھاتا ہوں،تُو باقیوں کو بھی کہہ ایک ساتھ ون ویلنگ کرتے ہیں۔۔۔مزہ آئے گا’ مجھے بھی آئیڈیا آیا۔
‘ہاں۔۔۔چل تُو اٹھا اوپر بائیک یہ راستہ آ رہا خالی ۔۔۔’جواب آیا۔
‘پھر دیکھ جگر آج کرتب۔۔۔۔۔۔’میں نے جوشِ جنوں میں کہا اور ایک دم موٹر بائیک کو ریس دے کر کلچ چھوڑ دیا۔ میرے دوست پیچھے ہی تھے،انہوں نے بھی پیروی کی۔۔دو سیکنڈ تک تو مجھے یاد ہے کہ بائیک ہوا میں معلق رہا، مگر پھر اچانک جانے کیا ہوا کہ مجھ سے پیچھے بیٹھے دو دوستوں کا بوجھ برداشت نہ ہو سکا۔ سامنے خالی جھاڑیاں تھیں اور جھاڑیوں کے اس پار بڑا سا نالہ۔۔۔۔۔بائیک سیدھا جھاڑیوں میں سلپ ہوتا گیا اور نہ صرف میں،میرے پیچھے بیٹھے دو دوست بلکہ میری پیروی میں ون ویلنگ کرنے والے دو اور بائیک والے بھی سیدھے میرے بائیک سے ٹکراتے ہوئے جھاڑیوں سے ہوتے ہوتے مجھ پر چڑھ گئے۔ ایک کرب ناک منظر تھا جب میں نے اپنےآٹھ جگری یاروں کی آہیں ایک ساتھ فضا میں بلند ہوتی سنیں۔اس کے بعد مجھے کچھ یاد نہیں۔یہ اتوار،26 مارچ کا واقعہ ہے اور آج منگل 28 ہے۔ میں دو دن بعد اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں ہوش میں آیا ہوں۔ڈاکڑز کے مطابق میرے بچنے کے کوئی چانس نہیں تھے۔اور میرے دوست۔۔۔ان میں سے 6 اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں، جب کہ باقی کی جانیں بھی خطرے میں ہیں۔ زندہ بچ گئے تو معذوری ہمارا مقدر بن سکتی ہےاور یہ سب دیکھ کر میں اورمیرے دوستوں کے والدین پر کیا قیامت گزررہی ہےیہ میں بیان نہیں کر سکتا!
(اصل واقعہ سے ماخوذ)
فیس بک کمینٹ