گوگے چاچو مجھے بچپن میں بہت پسند تھے کیونکہ جب بھی وہ آتے ہم مل کر ڈھیر ساری باتیں کرتے جیسے ایک سہیلی دوسری سے کرتی ہے۔مجھے کبھی نہ محسوس ہوتا تھا کہ وہ مجھ سے کئی سال بڑے ہیں ہوتا بھی کیسے ان کی باتیں ہی ایسی تھیں۔ اور ان میں سب سے خاص بات یہ تھی کہ وہ میں جو چاہتی وہ کر ڈالتے۔ اسی لیے میں ان کے آنے کا ہمیشہ بے صبری سے انتظار کرتی۔ ایک دن چاچو آئے تو ان کی انگلی میں بہت خوبصورت سی انگوٹھی تھی۔ قیمتی پتھر اور وہ بھی گہرے سرخ رنگ کا۔۔۔۔پانچ چھ سالہ بچی کے لیے وہ کسی کرشماتی چیز سے کم نہیں تھا۔ پوری شام میں ان کے ہاتھوں کو گھورتی رہی۔آخر جب صبر نہ ہوا تو بولی،”چاچو یہ کیا ہے؟” میں ان کے ہاتھوں کو اپنی چھوٹی چھوٹی انگلیوں میں دباتے ہوئے پوچھنے لگی۔
"بیٹا یہ انگوٹھی ہے۔۔”
"انگوٹھی؟ کیسی انگوٹھی؟”میں نے حیرانی سے پوچھا۔
میرے سوال پر چاچو تھوڑا مسکرائے پھر سر کھجاتے ہوئے بولے۔”وہ جو عینک والا جن میں جن نے پہنی ہوتی ہے نا ویسی انگوٹھی۔”
"اور یہ لال رنگ اتنا چمکتا کیوں ہے؟” میں نے انگوٹھی پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا۔
چاچو نے دو منٹ کچھ سوچا پھر بولے،”یہ۔۔۔۔اس۔۔۔لئے۔۔۔چمکتا۔۔۔ہے۔۔۔۔نا۔۔۔کہ۔۔۔اس۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔جادو۔۔۔ہے”
"جادو؟” میں نے آنکھیں پھیلاتے ہوئے پوچھا۔”کیا واقعی یہ جادو ہے؟”
"ہمممم۔۔۔ہاں،جادو کی انگوٹھی ہے۔۔۔”چاچو کو شرارت سوجھی۔
"کیا واقعی؟” میں نے انگوٹھی سے ہاتھ ایک دم دور کرتے ہوئے کہا۔
"ہاں،دیکھو یہ جو کالا سا رنگ نظر آ ریا ہے نا سرخ رنگ کے اندر۔۔۔یہ جن ہے۔۔۔میرا غلام جن!”
جن کا نام سن کر میں بمشکل یہ کہہ پائی۔۔۔”ہو۔۔۔۔۔”
"ڈر کیوں گئی۔۔۔یہ تو میرا پالتو جن ہے۔ یہ کچھ نہیں کہتا بلکہ میں جو کہتا ہوں کرتا ہے۔”چاچو نے میری حالت بھانپتے ہوئے کہا۔
"سچی؟”
"سچ۔۔۔بلکل سچ!” چاچو نے سینہ چوڑا کرتے کہا۔”آپ بتائیں کیا چاہئے گڑیا،بھالو،کھلونے،ٹافیاں،ببل۔۔۔کیا چاہئے آپ کو،میں ابھی اپنے جن کو حکم دیتا ہوں،وہ لا کر دے گا”
"کیا سچ؟”میں نے خوشگوار حیرت سے کہا۔
"ہاں ہاں بتائیں۔۔۔۔”
"اچھا۔۔۔سوچتی ہوں۔۔۔”میں نےایک انگلی گال پر رکھتے ہوئے کہا۔
"بتائیں بتائیں۔۔۔ابھی دیکھنا آپ جو کہو گی ملے گا۔ دیکھیں یہ سرخ رنگ کا نگ اب چمک رہا ہے۔۔۔اس کا مطلب میرا جن بھی سن رہا ہے۔”
"اوہ ۔۔۔واہ۔۔۔یہ تو کمال ہے۔کیا یہ میں جو مانگوں گی دے گا؟”
"ہاں، ہاں۔۔۔۔دے گا نا۔کیا چاہئے گڑیا یا "چیز”(کھانے پینے کی چیز)۔۔۔”
ارے اتنی اہم مخلوق سے اتنے چھوٹے چھوٹے کام۔میں نے سوچا چیز یا گڈی تو مجھے ملتی ہی رہتی ہے کچھ ایسا مانگنا چاہئے جو عام نہ ہو۔”ہاں یاد آیا۔۔۔۔چاچو جن کو بولو۔۔۔۔مجھے پاپا اور پاپا کو میں بنا دیں۔”
"ہیں۔۔۔کیا؟ چاچو نے بے یقینی کے عالم میں کہا۔
"ہاں چاچو۔۔مجھے پاپا بننا ہے۔۔۔۔اور پاپا کو پوزی بنا دیں۔میں چھوٹی سی ہوں اور پاپا اتنے بڑے ہیں۔۔۔روز دفتر جاتے ہیں۔۔میرے لئے گڈی،ٹافیاں،پھل،کپڑے لاتے ہیں۔۔۔۔مجھے سیر کرواتے ہیں۔۔۔پیسے دیتے ہیں۔۔اور وہ اتنے لمبے ہیں۔۔۔۔دیوار پر بھی چڑھ سکتے ہیں۔۔۔اور وہ ہمیشہ میں انگلی پکڑ کے راستہ دکھاتے ہیں۔۔۔اور نانی کے گھر لے کر جاتے ہیں۔۔۔۔کبھی کبھی ڈانٹے بھی ہیں۔۔میں تو بہت چھوٹی ہوں۔۔۔میں یہ سب نہیں کر سکتی۔۔۔۔آپ جن کو کہیں پاپا کو پوزی اور مجھے پاپا بنا دیں۔۔۔”میں نے سنجیدگی سے کہا اور پھر جن کی طرف دیکھنے لگی۔
چاچو نے پہلے تو میری خواہش بڑے غور سے سنی پھر سر کھجاتے ہوئے بولے۔۔۔۔”بیٹا! یہ کام بڑا مشکل ہے۔پاپا تو پاپا ہوتے ہیں نا۔۔۔۔پاپا کے کام تو پاپا ہی کر سکتے ہیں نا۔۔۔۔آپ کچھ اور مانگو”
"نہ۔۔۔۔نہ۔۔۔۔یہ کیسا جن ہے۔۔۔نہیں مجھے پاپا ہی بننا ہے۔”میں نے ضدی انداز میں کہا۔
"بیٹا۔۔۔۔۔۔یہ جن نہیں کر سکتا۔۔۔”
"کیوں نہیں کر سکتا۔۔بس مجھے پاپا اور پاپا کو میں ہی تو بنانا ہے۔۔۔نستور اور ذکوڈا جن تو سب کچھ کر سکتے ہیں اور بھیس بھی بدل لیتے ہیں۔۔۔۔یہ کیسا جن ہے۔۔۔۔”
"بڑا مشکل ہے بیٹا،پاپا تو پاپا ہی ہوتے ہیں نا”چاچو نے گود مین بٹھاتے ہوئے سمجھایا۔
مگر میں کہاں سمجھنے والی تھی۔۔۔۔۔اس دن تو میں نے ان سے پکی کٹی کر لی مگر آج سوچتی ہوں کہ واقعی پاپا تو پاپا ہوتے ہیں۔۔۔ان کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا۔”
تمام دوستوں کو فادرز ڈے بہت بہت مبارک ہو!
فیس بک کمینٹ