”چلو آج تم روٹی پکاﺅ، ماریہ ۔بس اب ٹی وی بند کر دو اور ادھر آ جاﺅ۔لڑکیاں کام کرتی ہی اچھی لگتی ہیں۔“چچی نے 11سالہ ماریہ کو باورچی خانےسے آواز لگاتے ہوئے کہا۔
”نہیں نا چچی،میں ڈرامہ دیکھ رہی ہوں،آپ حمیدہ کو کہہ دیں نا۔“حمیدہ اس کی ہم عمر کزن تھی جو ساتھ والے کمرے میں بیٹھی اپنی گڑیاں سجا رہی تھی۔چچی حمیدہ کو بھی کہنا چاہتی تھیں مگر کہیں دادی نہ برا مان جائے اس لیے ان کا بس صرف ماریہ پر ہی چلتا تھا ۔”حمیدہ کو کیوں کہنا،اسے تو آتا سب ۔تو نکمی ہے۔اب بس کر اور آ جا۔“چچی نے غصے سے لال پیلے ہوتے ہوئے جواب دیا ۔”نہیں نا چچی آج آخری قسط ہے،پلیز۔“ماریہ نے التجائی نظروں سے چچی کو دیکھتے ہوئے کہا۔”دیکھ بچی،لڑکیوں کو سب کام آنے چاہئیں۔انہیں اگلے گھر جانا ہوتا ہے۔چل اٹھ چچی کے ساتھ روٹی بنوا۔“دادی نے بھی چچی کی تائید کی۔”مگر دادی،حمیدہ۔۔۔“ماریہ نے دبی سی آواز میں کچھ کہنا چاہا،مگر دادی نے بات کاٹتے ہوئے حکم دیا،”نہیں نہیں میں کچھ نہیں جانتی،بس اٹھ جا۔“ساتھ میں چچی بھی بڑبڑائیں،”ہم تمہاری عمرمیں تھے تو پورا گھر سنبھالا کرتے تھے اور آج کل کی بچیاں،نہ کام نہ کاج۔ایسے نہ آئے تم لوگوں کے رشتے،لکھوا لو۔“ چچی کا پارہ چڑھتا دیکھ کر ماریہ نے جلدی سے ٹی وی بند کیا اور جوتا پہنے بغیر ہی روٹی بنانے چل دی۔باورچی خانے پہنچی تو چچی آگ بگولا بیٹھی تھیں۔روٹی پکانے سے کھانا لگوانے اور پھر برتن دھونے تک ،پورا وقت یہی عنوانِ بحث رہنا تھا کہ آج کل کی لڑکیاں کیا گھر سنبھالیں گی۔اگلے گھر کیسے جائیں گی۔
رفتہ رفتہ ماریہ نے یہ بات پلے باندھ لی کہ روٹی پکانا،گھر کے کام کرنا،برتن دھونا صرف اسی کی ذمہ داری ہے اگر نہیں سیکھے گی تو اگلے گھر نہیں جاسکے گی یا پھر کوئی اچھا رشتہ نہیں ملے گا۔کالج تک کی عمر میں پہنچی تو اسے سب کام آتے تھے اور دل بار بار یہ سوچتا کہ اب کوئی رشتہ آئے گا،اب آئے گا۔چچی اور دادی ابھی بھی نہیں بدلیں تھیں۔اب بھی کام نکلوانے کے لیے وہی پرانی کتھا دہراتیں تھیں کہ ”کام نہیں کرو گی تو رشتہ کیسے آئے گا ۔ماریہ سمجھدار تھی کبھی کبھی ان کو جواب دینا چاہتی مگر بن ماں کی تھی اور باپ کی بھی کچھ خاص توجہ حاصل نہ تھی۔جس سے اس کی کوئی نہ سنتا۔پھراس نے بھی حالات سے اسی لالچ میں سمجھوتہ کر لیا کہ چلو کبھی تو اس کی گھر سنبھالنے کے ہنر کو دیکھ کر کوئی رشتہ آئے گا۔اب جب بھی کوئی تقریب،دعا،درود ہوتا وہ بڑھ چڑھ کر کام کرتی۔حمیدہ کے لیے رشتہ لینے آنے والوں کی بھی اس نے خوب سیوہ کی کہ اس کو بھی کچھ آ جائے کیونکہ چچی اور دادی کی نظر میں اسے ابھی بھی کچھ نہ آتا تھا۔ خیر وقت پر لگا کر اڑتا گیا اور ماریہ کے بالوں میں چاندی اترنے لگی مگر ابھی بھی اس کے لئے کو ئی رشتہ نہ آسکا تھا ۔بہتیرا وظیفے،دم،درود کیے مگر کوئی فرق نہ پڑا۔چچی اب بوڑھی ہو چکیں تھیں اور دادی بھی بستر پر تھیں۔اب اسے نہ صرف گھر سنبھالنا ہوتا تھا بلکہ حمیدہ کے بچوں کو بھی دیکھنا ہوتا تھا جو دو بچوں کے بعد ماں کے گھر آ بیٹھی تھی۔
”ماریہ ذرا احمد کا فیڈر تو بنا دو۔“حمیدہ نے باورچی خانے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔اس کے ایک ہاتھ میں پرس تھا اور دوسرے میں جحاب۔”میں ذرا امی کے ساتھ باہر جا رہی ہوں،پلیز میری بہن اسے فیڈر بنا کر پلا بھی دینا۔“
”ہاں ٹھیک ہے حمیدہ،فکر نہ کرو۔“
”لیکن دیکھنا دھیان سے پلیز ،میرا پھول جیسا لال ہے احمد۔زیادہ گرم یا زیادہ ٹھنڈا دودھ نہ کر دینا اور چینی بھی کم ہی رکھنا۔دیکھ میں خود بھی یہ سب کر سکتی مگر چاہتی ہوں کہ تو بھی یہ سب سیکھ جائے،آخر تو نے بھی تو گھر سنبھالنا ہے نہ کسی دن۔“حمیدہ نے ایک خوشامدانہ سی مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے تو فکر نہ کر حمیدہ۔“ماریہ نے جواب دیا اور فریج کی جانب لپکی۔بڑی محبت اور خوشی سے بچے کو فیڈر پلایا،اس کو پیار دیا اور سارا دن سنبھال کر شام کو سلا دیا۔حمیدہ ابھی تک بھی نہ لوٹی تھی۔ماریہ کام میں جتی رہی اورجب رات بڑھنے لگی تو حمیدہ کے بچے کے پاس ہی سو گئی۔
”اٹھ ذلیل عورت، قاتلہ، منحوس، بے غیرت۔۔۔۔اٹھ میں کہتی ہوں میرے بچے کے پاس سے۔“ماریہ کی آنکھ کسی جانی مانی آواز سے کھلی۔”کیا ہوا حمیدہ ؟“اس نے حمیدہ کی زہر بھری آنکھوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”کیا ہوا۔۔۔۔۔ذلیل عورت۔انجان مت بن۔میرے بچے کی جان لینے کی کوشش کی ہے تو نے۔“حمیدہ کیا کہہ رہی تھی اسے کچھ سمجھ نہ آ رہا تھا۔گھر میں ایک کہرام برپا تھا اور ان کی آوازیں باہر تک جا رہی تھیں۔وہ بمشکل اٹھنا چاہتی تھی کہ چچی نے اسے پیٹنا شروع کر دیا اور حمیدہ نے اس کے بال نوچ ڈالے۔”مت مارو،مت مارو۔۔۔پلیز بتاﺅ تو کہ ہوا کیاہے۔“وہ التجا کرتی رہی مگر کوئی سننا چاہتا تو سنتا نا۔خوب گالیاں،تھپڑ،مکے کھانے کے بعد اسے ایک کمرے میں بند کر دیا گیا اور پولیس بلانے تک کا انتظام کیا گیا۔تمام لوگ ایک ہی بات کہہ رہے تھے کہ اس نے حمیدہ سے جل کراس کے بچے کے دودھ میں جان کر کچھ ملا دیا تھا۔بچہ مسلسل الٹیاں کیے جا رہا تھا اور اس کے علاوہ یہ کام جان بوجھ کر کیا گیا تھا۔اب سب لوگ ڈاکٹر کا انتظار کر رہے تھے کہ وہ اصل مسئلے کی نشاندہی کرے۔اللہ اللہ کر کے محلے کا بوڑھا ڈاکٹر پہنچا اور اس نے بچے کو دیکھتے ہی بتایا کہ اسے سردی لگ گئی تھی۔اس نے بچے کو ٹیکا لگایا جس سے اس کی الٹیاں رک گئیں۔اب ڈاکٹر نے حمیدہ کی خوب کلاس لی کہ بچے کو سردی کی احتیاطیں کیوں نہ کیں۔شرمدہ اور نادم حمیدہ نے ڈاکٹر سے معافی مانگی اور اپنے بچے کی جان بچانے کا شکریہ ادا کر کے ماریہ کے پاس گئی۔”ماریہ ،ماریہ۔۔۔۔تم جاگ رہی ہو کیا۔اس نے سوتی ماریہ کے اوپر سے لحاف ہٹاتے ہوئے کہا۔چچی بھی پیچھے ہی تھیں،انہوں نے بھی آواز لگائی”ماریہ چل پتر روٹیاں پکا لے۔اگلے گھر نہیں جانا کیا۔“ان کی آواز میں وہی چالاکی تھی۔”مجھے کچھ نہیں سیکھنا۔مجھے نہیں جانا اگلے گھر۔“ماریہ چلا اٹھی!
فیس بک کمینٹ