کہتے ہیں ضیاء مارشل لاء کے دور میں جنرل اقبال کے ذریعے میاں محمد شریف کی طرف سے جنرل جیلانی پرمراعات کے دروازے کھلتے چلے گئے تو ایک دن جنرل جیلانی کو خیال آیا کہ میاں صاحب کے احسانات کا بدلہ چکانا چاہیئے۔ انہوں نے بصد خلوص و نیاز بڑے میاں صاحب سے فرمائش کی کہ مجھے اپنا ایک بیٹادے دیں جسے صوبے کا بااختیاروزیر
بنا دوں۔میاں شریف صاحب نے جھٹ حامی بھر لی تو جنرل جیلانی صاحب نے سر دست میاں شہباز شریف پر انگلی رکھ دی،جو ایک نہایت ذہین اور محنتی نوجوان تھا،کام کی صلاحیت رکھنے کے ساتھ ساتھ کاروباری اونچ نیچ کو سمجھنے میں بھی مہارت رکھتا تھا اور کچھ وژنری بھی نظر آتا تھا،اتفاق فاؤنڈری کی تعمیر و ترقی میں اس نے لہو پسینہ ایک کر رکھا تھا۔بہت ساری تعلیمی کامیابیاں بھی اس کی زنبیل میں تھیں۔سکول کے زمانے میں اس کا شمار سینٹ انتھونی جیسے ادارے کے ہونہار طلباء میں ہوتا تھا پھر لاہور کے معروف ادارے گورنمنٹ کالج میں گیا تووہاں بھی اس کا تعلیمی ریکارڈ اچھا رہا،پنجاب
یونیوورسٹی لاء کالج میں بھی نام کمایا۔بہر حال وقت کے ساتھ ساتھ یہ اتفاق فاؤنڈری کے دماغ کی حیثیت حاصل کرتا چلاگیا اور یہ دماغ ہی جنرل جیلانی نے مانگ لیا۔مگر میاں محمد شریف بھی ایک اعلیٰ دماغ کاروباری آدمی تھے انہوں نے بلاتردد انکار کرتے ہوئے فرمایا ”آپ میرا بھولا لے لیں (میاں نواز شریف کو گھر میں بھولا کہتے تھے) یوں میاں شہباز شریف اتفاق فاؤ نڈری کے ہولئے اور بھولا بیٹاجس کو دیال سنگھ کالج میں بقول معروف لکھاری اور مذکورہ کالج کے پروفیسر مشکور حسین یاد ”ریسلنگ کی سیٹ“ پر داخلہ ملاتھا ملک کے سب سے بڑے صوبے کا وزیر خزانہ بنا دیا گیا،مگر اس کے پیچھے دماغ شہباز شریف ہی کا چلتا تھا۔
جنرل ضیاء الحق نے جب بھٹو دور میں قومیائی گئی صنعتوں کو ڈی نیشنلائز کر دیا تو شہباز شریف نے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹراور وزیر خزانہ میاں محمد نواز شریف کی مدد سے بے جان اتفاق فاؤ نڈری میں نئے سرے سے جان ڈال دی۔پھر شہید بینظیرحکومت نے جب میاں نواز شریف کی قومی سیاست کی مین سٹریم میں جگہ بنادی تو انہوں نے اپنے باصلاحیت بھائی کو اپنابازو بنا لیا۔وہ خود ملک کے تین بار وزیر اعظم بنے تو چھوٹے بھائی کو تین بار وزیر اعلیٰ پنجاب کی مسند پر بٹھایا۔
یہ بات شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ میاں شہباز شریف ایک اچھے حکمران تھے،انہیں سچ میں اندازِ حکمرانی آتے تھے اور انہوں نے جتنا عرصہ حکومت کی اوپر سے نیچے تک تمام افسران کی باگیں اپنے ہاتھ میں رکھیں۔ان کے زریں ادوار میں ملک کے سب سے بڑے صوبے میں اہم نوعیت کے بڑے بڑے منصوبے بھر پور کامیابیوں کے ساتھ تکمیل پذیر ہوئے۔
صوبے کی ترقی و خوشحالی کے لئے انہوں نے جس تن دہی اور محنت و لگن سے کام کیا ان کے کسی پیش رو کے نامہ اعمال میں نہ لکھا ملتا ہے اور ناں ہی مستقبل میں ان جیسا جنون کی حد تک کام سے رغبت رکھنے والا پنجاب کے مقدر میں آئے گا۔
یہ بجا کہ ان کے ادوار میں جتنے بڑے بڑے ترقیاتی منصوبے اپنے وقت پر مکمل ہوئے ان پر جب بھی اپوزیشن نے کوئی اعتراض اٹھایا اور بدعنوانیوں کی نشان دہی کرنا چاہی تو اخراجات کا سارا ریکارڈ نذرآتش ہوتے ہوئے پایا اور بات احتجاج کی حد تک آگے بھی بڑھی تو کچھ ہاتھ نہ آنے کی وجہ سے بے بسی ہی سامنے آئی۔
تاہم کوئی بھی منصوبہ ایسا نہیں جو تشنہ کام رہ گیا ہو البتہ خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے ہونہار بیٹوں اور ان کی جماعت مسلم لیگ ن کے بڑے بڑے رہنماؤں نے تجوریاں بھرنے کے ریکارڈ قائم کئے اور صوبے کے عوام نے کھلی آنکھوں ان کو امارت کی انتہاؤں کو چھوتے دیکھااور دیکھتے ہی رہ گئے۔ان کے ادوار میں جن لوگوں کی تقدیر کے ستارے چمکے ان میں لاہور سے سعد رفیق،فیصل آباد سے رانا ثناء اللہ اور عابد شیر علی،راولپنڈی سے حنیف عباسی اور چوہدری تنویرالحسن،ملتان سے رانا محمودالحسن اور ڈو گر برادران۔یہ وہ لوگ ہیں جو ارب پتی بنے جبکہ کروڑپتی بننے والوں کی لمبی فہرست ہے۔
ان سب کو آسودگی اور خوشحالی کی انتہائی منزلوں پر کھڑا کرکے شہباز شریف اگر پس زنداں ہوتے ہوئے بھی چائنا والوں سے دادو تحسین کے خط وصول کرتے ہیں تو یہ ان کی ذاتی محنتوں اور کاوشوں کا ثمر ہے۔اس پر تحریک انصاف والے سیخ پا کیوں ہیں۔ملک کا سب سے بڑاصوبہ آج اگر پستی کا شکار ہے تو یہاں کے مدارالمہام سے پوچھا جانا چاہیئے کہ اقتدار کے تین سال مکمل ہونے کے قریب ہیں ابھی تک شرمیلے وزیر اعلیٰ اور ان کی کابینہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان کیوں لگا ہوا ہے؟
صوبے کا کونسا ضلع ہے جس میں عوام کی ترقی و خوشحالی کا کوئی منصوبہ کامیابی سے ہمکنار ہوا ہو۔کس شہر کو ماڈل بنانے کی سعی ناتمام فرمائی گئی؟ صوبے میں کتنے نئے سکول،کالج اور یونیوورسٹیز بنائی گئیں؟ پنجاب کے کتنے دیہاتوں میں نئے بنیادی صحت مرکز بنائے گئے؟ پنجاب کے کسانوں کو سستی کھاد اور عمدہ بیج مہیا کرنے کا آپ کاریکارڈ کیا ہے؟صوبے میں غربت کی شرح میں کتنی کمی واقع ہوئی ہے،مختلف محکموں میں بدعنوانی اور رشوت ستانی کے ریٹ کتنے کم ہوئے ہیں، نرخوں کو کنٹرول کرنے والی ڈسٹرکٹ کمیٹیوں کی کارکردگی کا کیا حساب کتاب ہے،ان سب پرمستزاد یہ کہ پنجاب پولیس کی کارکردگی کا کیا احوال ہے،عدالتیں کتنا انصاف مہیا کرتی ہیں،غربت وافلاس کے مارے فلاکت زدہ لوگوں کی زندگیوں میں کتنا سکون پایا جاتا ہے؟؟؟؟
ان سب امور میں کہیں بہتری دکھائی نہیں دیتی تو یاد رکھیں شہباز شریف نے بطور وزیر اعلیٰ پنجاب جو نام کمایا ہے اس کی وجہ سے اس نے چین والوں کے دل میں ہی نہیں،اپنے صوبے کے عوام کے دل میں بھی جگہ بنائی ہے اور پنجاب کی تاریخ میں تو وہ ویسے ہی امر ہوچکا،کون اس کے مقام کو اتنی جلدی پا سکتا ہے،بہت مشکل ہے،بہت ہی مشکل،بلکہ ناممکن۔۔۔!!!
فیس بک کمینٹ