گذشتہ دنوں ایک بہت ہی افسوسناک واقعہ لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا رہا، مگر موجودہ حالات کے تناظر نہایت ہی افسوس کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ کچھ دن بعد یہ بھی سرد خانے کی نذ ر ہو جائے گا، اور ہم نہ حالات سے کچھ سیکھیں گے اور نہ ہی کچھ عمل کریں گے۔
ہوا کچھ یوں کہ ایک لڑکا ایک لڑکی کو لاہور کے ایک نجی ہسپتال میں چھوڑ کر بھاگ گیا، ہسپتال والے کہتے ہیں کہ وہ مردہ حالت میں لائی گئی اور اس لڑکے کا کہنا ہے کہ وہ زندہ تھی، فوری طبی امداد نہ ملنے کے سبب لڑکی کی موت واقع ہوئی۔ اس پورے قصے میں سب سے زیادہ مشکوک و ملزم وہ لڑکا ہی نظر آرہا ہے جو لڑکی کو چھوڑ کر بھاگ گیا تھا۔ لڑکے اور طبی عملے کے بیانات کے مطابق اس لڑکی کی موت اسقاط حمل کے دوران زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے ہوئی۔ ہم اس بحث میں نہیں پڑیں گے کہ کیا کیا ہوا اور کیسے کیسے ہوا، بلکہ اس معاملے کی سنگینی پر اس حوالے سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ایک غریب مزدور کی بیٹی جسے اس نے اپنا سب کچھ لٹا کر پڑھایا لکھایا کیونکر اخلاقی بے راہ روی کا شکار ہوئی جس نے اس کی جان ہی لے لی۔ کیونکہ یہ امر تو ثابت ہو چکا کہ وہ لڑکی چار ماہ کے حمل سے تھی، اور امر استعجاب یہ ہے کہ وہ غیر شادی شدہ تھی۔
ہمارے معاشرے میں اخلاقی گراوٹ اس قدر رچ بس گئی ہے کہ یہ سب کچھ عام سی بات بن کر رہ گئی ہے۔ اب لوگ محض تفریح کیلئے اور ایک بڑا طبقہ عیاشی کیلئے بدکاریاں کرتا ہے۔ جس کا شکار نوجوان نسل بالخصوص کم عمر لڑکیاں بن رہی ہیں۔ اس بڑھتے ہوئے برائی کے رجحان کی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں؟ ایک سب سے بڑی وجہ والدین کی اولاد کی جانب سے بے توجہی یا تربیت کا فقدان ہے، جیسے جیسے بچے کالج یونیورسٹی تک پہنچتے ہیں، وہ باغی اور خود سر ہو جاتے ہیں، من مانی کر تے ہیں، اور ماں باپ اس خوف میں کہ اگر سختی کی تو کہیں گھر ہی سے نہ بھاگ جائے ساری الٹی سیدھی حرکتیں برداشت کرتے رہتے ہیں، جن کے نتائج آخر میں کچھ اس ہی طرح کے نکلتے ہیں، دوئم انٹرنیٹ کا بے دریغ استعمال ہو رہا ہے ، پاکستان دنیا بھر میں انٹرنیٹ پر سب سے زیادہ فحش جنسی مواد دیکھنے والا ملک ہے، تو آخر وہ کون ہیں جو یہ سب کچھ دیکھتے ہیں، ظاہر ہے کہ نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ اس علت میں مبتلا ہے، جو انہیں اخلاقی گراوٹ، جنسی بے راہ روی، فحاشی اور نشہ کی ترغیب دیتا ہے، یہ سب کچھ تعلیمی اداروں میں بھی ہو رہا ہے، مافیاز اب اسکولوں تک پہنچ چکے ہیں اور اسکول کے بچوں کو نشہ بیچ رہے ہیں۔ گویا ایک منظم طریقے سے نوجوان نسل کو تباہ کیا جارہا ہے۔ جس کے خلاف اب تو کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔ والدین کی بے توجہی اولاد کو خود سر اور باغی بنا دیتی ہے اور ناتجربہ کاری کے سبب وہ اچھے برے کی تمیز سے قاصر ہوتے ہیں، لہذا جلد ہی کسی نہ کسی کے مکروہ جال میں پھنس جاتے ہیں اور یا تو جان گنوا بیٹھتے ہیں یا زندگی خراب کر بیٹھتے ہیں۔ ان میں زیادہ نقصان نوجوان بچیوں کا ہوتا ہے جو عموما ان کے چنگل میں پھنس کر اپنی آبرو اور والدین کی عزت دونوں گنوا بیٹھتی ہیں، اور ان کا آلہء کار بننے پر مجبور ہوتی ہیں۔
شہر میں موجود اسٹوڈنٹ ہاسٹلز ان مافیاز کی آماجگاہ ہیں اور ان کے گھناؤنے دھندے میں عموما ہاسٹل انتظامیہ ملی ہوئی ہوتی ہے، جو ان کے سہولت کاروں کا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں، خاص طور پر لڑکیوں کے ہاسٹلز کا تو بہت ہی برا حال ہے، اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ لڑکیاں کئی کئی دن تک ہاسٹل لوٹ کر نہیں آتیں، بتانے والے نے یہ بھی بتایا کہ وہ کبھی کبھی دوسرے شہر اور دوسرے ملک تک ہو کر آجاتی ہیں۔ ہاسٹلز میں نشہ عام ہے، یہ ایک بہت ہی گمبھیر صورتحال ہے جس پر فوری توجہ دیا جانا چاہئے اور اس کے سدباب کیلئے فوری اقدامات کی شدید ضرورت ہے۔
یہ آئے دن پیش آنے والے حادثات اور شرمندہ کردینے والے واقعات پوری قوم کیلئے لمحہ فکریہ ہیں، کیونکہ معاملہ ہماری نوجوان نسل کا ہے، لہذا سب کو مل کر کام کرنا ہوگا، اور فوری کرنا ہوگا، والدین کا کردار سب سے اہم اور ضروری ہے، انہیں کسی بھی معاملے سے چشم پوشی سے گریز کرنا ہوگا، فوری اقدامات کرنا ہونگے، اولاد کی تربیت کیلئے خاص وقت نکالنا ہوگا، اور اگر سختی کرنا پڑے تو کرنا ہوگی، کیونکہ اوپر بیان کردہ کیس میں بھی جب لڑکے سے سوال کیا گیا کہ کیا تمہارے اور لڑکی کے والدین کو لڑکی کی حالت کا علم تھا، تو جواب نہایت ہی تکلیف دہ تھا کہ ہاں میری والدہ اور لڑکی کی والدہ کو معلوم تھا۔
یعنی ایک کریہہ فعل والدہ کے علم میں تھا اور ہو رہا تھا۔ لہذا اپنے طریقے بدلنا ہوں گے اور والدین کو بہت محتاط، چوکنا، اور باخبر رہنا ہوگا، تھانیدار نہیں بننا مگر ہر گھڑی اپنے بچوں کی نگرانی کرنا ہوگی۔
حکومت وقت کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ملک کے نوجوانوں کے مستقبل اور فلاح کی فکر کرے اور فوری طور پر عملی اقدامات کرتے ہوئے اپنی تمام متعلقہ مشینری کو ان گندے عوامل کے سدباب پر معمور کرے اور سختی سے نتائج پر باز پرس کرے۔ کیونکہ پانی ا ب سر سے اونچا ہوچکا ہے، یعنی اسکولوں میں چھوٹے بچوں کو بیچی جانے والی آئس نشہ کچھ کم خطرناک نہیں، یہ تو سب ہی کے لئے شرم کی بات ہے کہ اسکول کے معصوم بچوں کو نشہ بیچا جاتا ہے، اور یہ کام بغیر انتظامیہ کی ملی بھگت کے ہو ہی نہیں سکتا۔ اسکول کے بعد کالجز کی حالت اور زیادہ خراب ہے اور یونیورسٹیز کو اگر منشیات فروشوں کی جنت کہیں تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ شواہد بتاتے ہیں کہ حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ یہ وبا ء اب اسکول کالج سے نکل کر گاؤں کے سیدھے سادھے ماحول پر بھی حملہ کرچکی ہے۔ اور المیہ یہ ہے کہ اس کا شکار بڑی تعداد میں لڑکیا ں بھی ہو رہی ہیں، ایک سیدھی سادھی گاؤں کی لڑکی بتا رہی تھی کہ وہ نشہ کی وجہ سے گھر سے ڈھائی سال سے بھاگی ہوئی ہے، اب وہ نشہ کیسے پورا کرتی ہوگی اس کا اندازہ ہم بطریق احسن لگا سکتے ہیں۔
صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو ایک جامع منصوبہ بندی کرنا ہوگی، اور ہر سطح پر نوجوانوں کیلئے بامقصد علمی، ذہنی اور جسمانی سرگرمیاں تشکیل دی جانی چاہئیں، کھیلوں کو ہر سطح پر سرپرستی اور فروغ دیا جانا چاہئے۔ منشیات فروشوں، بردہ فروشوں اور اسی قسم کے گھناؤنے لوگوں پر کڑی نگاہ رکھنی چاہئے اور پکڑے جانے والے مجرموں کو مثالی سزائیں دی جانی چاہئیں۔ نوجوان نسل ہم سب کی امید ہے، ہمار ا مستقبل ہیں ہمارا کل کا چڑھنے والا سورج ہیں ہم سب کو مل کر ان کی بہتری کیلئے کام کرنا ہوگا، اگر محلہ کمیٹیاں بنانی پڑیں تو بنا لیں۔ ہر مشکوک بندے پر نظر رکھیں علاقے میں ہر مشکوک حرکت کی اطلاع علاقے کے ذمہ دار تک پہنچائیں۔ بچوں کو زیادہ تر جسمانی مشغلوں میں مصروف رکھنے کی کوشش کریں، انہیں ادبی محافل میں شامل کرنے کی کوشش کریں، بلکہ اس بات پر اکسائیں کہ وہ بھی کچھ لکھنے پڑھنے کی طرف مائل ہوں۔ کیونکہ اگر یہ سورج گہنا گیا تو ہمارا کل یقینی طورپر سیاہ ہوجائے گا۔