ٹریفک حادثات سے بچنے کے لیئے دنیا بھر میں نت نئے انداز و قوانین وضع کیئے جاتے ہیں لیکن ہالینڈ میں ٹریفک حادثات سے بچنے کے لیئے ایک منفرد انداز اختیار کیا گیا ہے جس میں سفر کے ساتھ ساتھ موسیقی کی دھنوں سے بھی لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے روڈ سیفٹی کا اپنے آپ میں یہ ایک دل چسپ اور اچھوتا منصوبہ ہے گاڑی تیز چلانے کے شوقین حضرات اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال لیتے ہیں لیکن یہ سنگنگ روڈ تیز رفتاروں کو گنگنا کر مقررہ حد کی یقین دھانی کراتی ہے اگر آپ اس سڑک پر سفر کر رہے ہوں تو گاڑی کے ٹائر جب سڑک پر لگے پیانو سے گزریں گے تو یہ ٹیونز بجنے لگتی ہیں لیکن یہ اسی صورت میں بجتی ہیں جب مقررہ حد میں گاڑی چلائی جا رہی ہو اس روڈ پر حد رفتار 40 سے 60 کلو میٹر فی گھنٹہ مقرر کی گئی ہے۔
دوستو ! جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ ہمارے ہاں نسوار کی ڈبیا پر بھی زنانہ تصویر لگی ہوتی ہے میرے خیال میں علامہ اقبال نے اپنے دورہء پشاور کے دوران کچھ اسی قسم کی ڈبیا دیکھی ہو گی جس پر نسوار ڈالتے ہوئے حسینہ کی فوٹو لگی تھی اسے دیکھ کر علامہ نے اپنا وہ مشہور شعر کہا کہ ۔۔۔ ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس ۔۔۔ آہ بے چاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار۔۔ جبکہ میرے خیال میں مذ کورہ نسوار کی ڈبیہ کو دیکھ کر کہنا وہ یہ چاہ رہے تھے کہ پشاور کے اہلِ خرد و صورت گر و افسانہ نویس ۔۔ ۔۔ہائے نسوار کی ڈبی پر بھی ہے عورت سوار ۔۔۔لیکن بوجہ انہوں نے اس کی بجائے مندرجہ بالا شعر کہہ دیا تھا۔
بندہ چشمِ تصور سے دیکھ رہا ہے کہ اس گنگناتی روڈ کی کامیابی کے بعد دیگر ملکوں کی طرح ہمارے ہاں بھی ایسی سڑکیں ضرور بنائی جائیں گی- چنانچہ علامہ صاحب کی عورت والی بات کو سچ ثابت کرنے کے لیئے ہماری روڈ کے شروع میں گٹار کی بجائے ایک توبہ شکن حسینہ کی تصویر لگی ہو گی جیسے ہی گاڑی کے ٹائر اسکے سامنے سے گذریں گے فوراً ہی مدھُر سروں میں اس گانے کی ٹیون بجنا شروع ہو جائے گی ۔۔ او جانے والے میں تیرے قربان خدا حافظ ۔
یہ تو تھی بڑے شہروں کے آس پاس بننے والی گنگناتی سڑک کی حالتِ زار جو کہ ظاہر ہے اچھی ہی ہو گی لیکن یہی سڑک جب کسی دور دراز کے علاقے میں بنے گی کہ جہاں پر زیادہ تعداد غربیوں کی سواری از قسم بس ٹرک اور ویگنوں وغیرہ کی ہو گی حسب ِ روایت اگر اس سڑک کے شروع میں بھی کسی حسینہ ماہ جبینہ کی قدِ آدم تصویر لگائی گئی تو عین سڑک کے افتتاح والے دن عینکیں لگائے این جی اوز والی خواتین نازل ہو جائیں گی جنہوں نے (جانے کس کی فرمائش پر) اپنے منہ پر بڑی بڑی کالی عینکیں لگا ئی ہوں گی اور وہ عین انٹرنس پر احتجاج کرتے ہوئے نعرہ لگائیں گی کہ عورت کے استحصال کو روکا جائے بندہ ان سے پوچھے کہ بڑے شہر وں والی سڑکوں پر جن توبہ شکن حسیناؤں کی تصاویر لگی ہیں اس پر تو آپ لوگوں نے کوئی اعتراض نہیں کیا لیکن غریبوں کی سڑک پر بڑی بڑی عینکیں لگا کر آ گئیں ہیں کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ لیکن ان سے پوچھے کون کہ بقول غالب واقع سخت اور جان عزیز والا معاملہ ہو گا چنانچہ بعد از گفت و شنید کہ جس میں شنید زیادہ اور گفت کم ہو گی۔ میرا جسم میری مرضی والی ان خواتین سے یہ طے پائے گا کہ اس سڑک کے انٹرنس پر کسی حسینہ کی بجائے عطا اللہ خان عیٰسی خیلوی کی تصویر ہو گی اور جیسے ہی گاڑی کے ٹائر عطااللہ صاحب کی تصویر کے سامنے پہنچیں گے تو یہ ٹیون چلنا شروع ہو جائے گی۔۔۔او یا قربان!!
ہالینڈ کے برعکس ہماری اس گنگناتی سڑک پر موٹروے کی طرز پر قیام و طعام کا بندوبست بھی ہو گا اور اس قیام و طعام کے اشتہار پر چھری کانٹے کے ساتھ ایک مشہور کلاسیکی موسیقی کے استاد کی ایک ایسی تصویر آویزاں ہو گی کہ جس میں وہ صاحب پکے راگ کے ا لاپ کا مظاہر ہ فرما رہے ہوں گے اس تصویر کو دیکھ کر ڈرائیور حضرات کا ایک دفعہ تو "تراہ ” نکل جائے گا لیکن اس کا ضمنی فائدہ یہ ہو گا کہ اس تصویر کو دیکھ کر ان کا قیامت پر یقین مزید پختہ ہو جائے گا چنانچہ استاد فلاں کی تصویر کے سامنے سے جیسے ہی گاڑی کے اگلے ٹائر گزریں گے تو عین اسی وقت پرانی ٹیون ختم اور ۔۔ کلاسیکی موسیقی کے ایسے ا لاپ شروع ہو جائیں گے کہ جسے سن کر مذ کورہ شخص دھک رہ جائے گا اور اس کی آنکھوں کے سامنے موت کا منظر معہ مرنے کے بعد کیا ہو گا کی ساری تصویر و دیگر لوازمات کے ساتھ نظر آنے لگ جائے گی ۔چنانچہ مذ کورہ شخص گھبرا کر ریسٹ ایریا میں گاڑی روکنے پر مجبور ہو جائے گا اور 10 روپے والا برگر ہزار روپے میں کھا کر وہ بے مزہ ہو نہ ہو ہوٹل والوں کا کام بن جائے گا۔ البتہ ریسٹ ایریا سے نکلتے ہی مزکورہ بندے کی دل جوئی کے لیئے جس گانے کی ٹیون چلے گی وہ یہ ہو گا ۔ ہائے نی میں تے لُٹی گئی۔
گنگناتی روڈ پر چلتے چلتے جیسے ہی گاڑی کا ڈرائیور مقررہ حد کراس کرے گا تو بطور وارننگ پہلے تو اس گانے کی ٹیونز بجے گی گاڑی کو چلانا بابو ذ را ہلکے ہلکے۔۔ اگر پھر بھی ڈارئیور تیز رفتاری سے باز نہ آیا تو پھر اگلے موڑ پر گانے کی دھن کی بجائے مصطفٰے قریشی کی د ھیمی آواز میں ڈائیلاگ سنائی دے گا ۔۔ گڈی نوں ہولی چلا سوہنیا۔۔ لیکن پھر بھی ڈرائیور نے گاڑی کی رفتار کو کم نہ کیا تو ۔ اس دفعہ امریش پوری کی آواز ابھرے گی ۔۔۔ دل جلے او دل جلے۔ ۔۔۔ لیکن اگر ڈارئیور نے امریش پوری کی آواز پر بھی دھیان نہ دیا اور گاڑی اسی رفتار سے چلتی رہی تو ۔۔۔آخر میں سلطان راہی کی فلک شگاف آواز سنائی دے گی۔ رُک اوئے بے غیرتا!
فیس بک کمینٹ