ہمیں بہت افسوس ہوا کہ ہمارے سابق گورنر اور وزیر اعلیٰ پنجاب اور ہمارے وسیبی غلام مصطفی کھر کا ایک لاڈلا کتا انہی کے علاقے میں ایک موٹر سائیکل سوار کی غفلت کی وجہ سے زندگی بھر کے لیئے معذور ہو گیا۔کتے کی معذوری کا سن کر کھر صاحب کی آنکھیں بھر آئیں اور انہیں بھرائی ہوئی آنکھوں سے کہنا پڑا کہ ۔۔۔انسان اور کتوں۔۔ سب کے لیئے قانون برابر ہے۔۔خبر کے مطابق کتے کوزندگی بھر کے لیئے معذوری کا روگ (جو دراصل کھر صاحب کی زندگی کا روگ بن گیاہے )دینے والا موٹر سائیکل سوار موقع واردات سے فرار ہو گیا۔ اس لیئے کہ اس کا تعلق نہ صرف اسی علاقے سے بلکہ ”کھر“ نسل سے تھا اور وہ جانتا تھا کہ کتوں کی دیکھ بھال پر مامور کھر صاحب کے ”بندے“ ان کے کتوں سے زیادہ خونخوار ہیں ، جو کتے کی معذوری کا انتقام لینے کے لیئے موٹر سائیکل سوار مجرم کی تکہ بوٹی کر دیں گے
موٹر سائیکل سوار یہ بھی جانتا تھا کہ انتہائی مستعدی کے ساتھ کتے کی معذوری کا مقدمہ درج کرنے والی سناواں پولیس ، اس کے تکہ بوٹی ہونے کا مقدمہ درج کرنے کی بجائے ، اس کے لواحقین کا حشر نشر کر دے گی۔۔مگر جناب۔۔ یہ کوئی چونیاں کے گمشدہ بچوں کا کیس تو نہیں تھا کہ پولیس ملزم کی تلاش میں بھٹکتی رہتی۔۔ یہ تو کھر صاحب کے کتے کے زندگی بھر کے لیئے معذور ہو جانے کا اندوہناک واقعہ تھا۔جس نے تھانہ سناواں کے انچارج ایس ایچ او کو بھی ہلا کر رکھ دیا اور پورا تھانہ ملزم کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔
کتے کو انسانی زندگی اور تاریخ میں اہم مقام حاصل ہے۔اصحاب کہف کے کتے کا ذکر تو قرآن پاک میں بھی ہے۔داستان عشق میں ”سگ لیلی“ کا بھی کچھ کم مقام نہیں۔البتہ مرزا کی صاحباں کو فقیر کی کتی سے بیر ہو گیا تھا۔اس لیئے اسے بزبان شاعر کہنا پڑا۔۔”کتی ، مرے فقیر دی۔جیہڑی چوں چوں نت کرے“۔۔ایک اور صوفی شاعر نے تو ”کتے، تیں تو، اتے“ کہہ کر کتوں کو بلند مقام پر فائیز کر دیا تھا۔اس پس منظر میں کھر صاحب کا اپنے کتے کی معذوری پر دلبرداشتہ ہونا سمجھ میں آتا ہے۔البتہ کھر صاحب کا بہت شکریہ کہ انہوں نے انسان اور کتوں کا قانون کی نظر میں برابری کاذکر کر کے جمہوری اقدار کی پاسداری کا ثبوت دیا ہے۔اگر وہ کتوں کو انسانی حقوق سے زیادہ کا حقدار قرار دے دیتے تو قوم ان کا کیا بگاڑ لیتی۔۔
کھر کے کتے کی معذوری پر ہمیں تھر کے وہ انسان یاد آنے لگے ، جن کے بارے میں صوفی شاعر کی یہ بات سو فی صد درست ثابت ہو رہی ہے کہ ”کتے ، تیں تو، اتے “تھر کی اس ماں کی بے بسی اور مجبوری بھی یاد آتی اور ستاتی رہی جو اپنے لخت جگر کو ، جسے کتے نے کاٹ لیا تھا ، اپنی گود میں لے کر بیٹھی رہی۔۔ بیٹا کتے کے کاٹنے کی تکلیف سے اور ماں اپنے جگر کے ٹکڑے کو یوں بے بسی سے تڑپتے دیکھ کر بیٹے کے اکھڑتے سانسوں کے ساتھ جیتی مرتی رہی۔۔کیا کھر صاحب کی ریاست کے قانون میں تڑپ تڑپ کر جان دینے والے اس انسان کے بچے اوربے بس وبے کس مجبور ماں کے لیئے بھی برابری کا کوئی اصول رائج ہے۔کھر صاحب کے کتے کی معذوری کامقدمہ بھی درج ہوگیا اور ملزم بھی گرفتار ہو گیاہے۔۔مگر وہ بے بس، بے کس، مجبور ماں ۔۔کس کے ہاتھ پہ اپنے جگر گوشے کا لہو تلاش کرے۔۔
غلام مصطفی کھر پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے گورنر بھی رہے ہیں اور وزیر اعلیٰ بھی۔۔اس کے بعد ایک زمانے میں وفاقی وزیر پانی و بجلی کی ذمہ داریاں بھی سنبھالے ہوئے تھے۔موصوف نے اپنے اس دور میں بھی اخباری خبروں کے مطابق اپنے فارم کے لیئے بجلی سپلائی کی خصوصی لائینیں بچھوائی تھیں۔۔کھر صاحب شکار کے بہت شوقین ہیں ۔ وہ اپنے ان فارمز پر شکار کھیل کر محظوظ ہوتے ہیں۔یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ وہ خود بھی شکاری ہیں اور ان کے کتے بھی۔۔شکار عوام ، جو عام طور پر انسان بھی ہوتے ہیں کاہو۔۔یا۔۔ پھر جانور کا ۔۔ شکاری کو اس کے تڑپنے سے غرض ہوتی ہے۔۔شکار کی تڑپ بڑھنے کے ساتھ ساتھ شکاری کا مزہ جو دراصل ایک نشہ ہوتا ہے۔بڑھتا جاتا ہے۔۔اپنے کتے کے معذور ہوجانے پر جو تڑپ کھر صاحب کے چہرے پر دکھائی ، وہ تڑپ کتے کے کاٹنے سے ماں کی گود میں تڑپ تڑپ کر جان دینے والے بچے کی موت پر کسی ”شکاری“ کے چہرے پر دکھائی نہیں دی۔۔اب کھر کے کتے اور تھر کے انسان کے حقوق کی قانون میں برابری آپ خود تلاش کریں۔۔