محترمہ بے نظیر بھٹو آیئں اور چلی گئیں۔ ہوا کے اس خوشگوار جھونکے کی طرح جو اچانک آتا اور تازگی کا ایک عجب احساس چھوڑکر گزرجاتا ہے۔ایسی تازگی جو روح کی گہرائیو ں تک اتر جاتی ہے۔د ل کی ہر دھڑکن کو چھو جاتی ہے۔مجھے یاد ہے کہ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت پر میرے مرحوم چچا نے صرف اتنا کہا تھا کہ ایسے لوگ بہار کے تازہ جھونکے کی طرح آتے اور ہر طرف اپنی مہک چھوڑ کر بہت جلد گزر جاتے ہیں۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی جلا وطنی کے سال ، پاکستان میں آمداور قیام کے دنوں، گھنٹوں کا حساب کتاب لگایا جا رہا ہے۔ان کی شخصیت پر بہت کچھ لکھا اورشہادت پر بہت کچھ کہا جا رہا ہے۔اس میں ایک بات مشترک نظر آتی ہے کہ محترمہ کے جنازے، تدفین،قل خوانی،حتیٰٰ کہ ان کے سیاسی جانشین کی تقرری کے باوجود انہیں ” مرحومہ“ کہنے اور لکھنے کو جی نہیں مانتا۔آخر کچھ تو ایسا سحر تھا ان کی شخصیت میں کہ ان کی شہادت کی خبر ٓاتے ہی زندگی ایک بار تو بالکل ساکت ہو گئی۔ان کے لیے تمام دنیا میں غائبانہ نماز جنازہ ، قل خوانی اور قرآن خوانی کی گئی ۔ گرجا گھروں میں دعائیں کی گئیں اور دنیا بھر کے حکمرانوں کے تعزیتی پیغامات کے ساتھ ساتھ سلامتی کونسل کا خصوصی تعزیتی اجلاس منعقد ہوا۔ ایک نعرہ ۔بے نظیر، چاروں صوبوں کی زنجیر۔ ان کی شہادت کے چند لمحوں بعد ہی ایک نا قابل تردید صداقت محسوس ہونے لگا۔ دنیا نے ان کی شہادت کو ایک ایسا خلاءقرار دیا جو شاید کبھی پر نہ ہو سکے۔ پاکستان کے قریے قریے، گوشے گوشے،دیہات، شہر، صحرا ، پہاڑ، ہر جگہ بسنے والوں نے ان کی شہادت پر سوگ منایا۔جو تا حال جاری ہے۔ محترمہ کے بڑے بڑے ناقدین ان کی خوبیوں اور صلاحیتوں کا اعتراف کرنے لگے۔میں مسلسل تین دن ٹی وی سکرین کے سامنے بیٹھا وہ مناظر دیکھتا، تبصرے اور تجزیئے سنتا رہا جن میں محترمہ کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔محترمہ کی تدفین کے مناظر ، ایسا اعزاز جو کسی بڑے سے بڑے تاجدار کو نصیب نہیں ہوتا۔محترمہ کی تدفین کسی سرکاری اعزاز اور توپوں کی سلامی کی محتاج نہ تھی لیکن عوامی اعزاز سے بھرپور تدفین میں توپوں کی سلامی سے زیادہ جذبات کی گھن گرج شامل تھی۔ہر آنکھ اشکبار ۔ ہر دل، دلفگار۔پاکستانی قوم نے بھی عجیب مزاج پایا ہے۔ شاید ایسے ہی لمحات کے لیئے ایسے اشعار کہے جاتے ہیں۔۔۔عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن۔۔۔یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ۔۔۔قارئین کرام۔ میں کوئی باقاعدہ کالم نگار تو نہیں لیکن بے شمار ان لکھاریوں میں شامل ہوں جو سیاسی رہنماﺅں کے ناقد ہوتے ہیں کیونکہ ملک کی تمام تر خرابیوں کی جڑ سیاست دانوں کو قرار دے کر سیاسی حکومتوں کو بر طرف کرنے والے ان کی نا اہلیت اتنے یقین کے ساتھ قوم کو ذہن نشین کراتے ہیں کہ کالم نگار اور لکھاری حضرات تو کیا خود بڑے بڑے سیاسی زعماءایسی باتوں اور الزامات کو صداقت سمجھ کر ایک دوسرے کے خلاف دشمنوں کی طرح صف آراءہو جاتے ہیں۔محترمہ بے نظیر بھٹو کے بارے میں بھی ایسا بہت کچھ ہوا۔انہوں نے میاں نواز شریف کی طرف ہاتھ بڑھا کر میثاق جمہوریت پر دستخط کیے تو تنقید کا نشانہ بنیں۔ مشرف بندوبست کی اندھیری گلی سے گزر کر عوامی حقوق اور جمہوری اقدار کے لیئے راستہ بنانے کی کوشش کی تو ” ڈیل “ جیسا لفظ ان کی شخصیت کا حصہ بنا دیا گیا۔مگر وہ کیا تھیں۔ کیا چاہتی تھیں۔ جمہوریت کی کس قدر دلدادہ تھیں۔عوام سے انہیں کتنی محبت تھی اور وہ پاکستانی عوام کے لیے کیا کرنے کی خواہش مند تھیں۔یہ راز کھلا تو سہی مگر ان کی شہادت کے بعد۔ اس پر انہیں سراہا بھی گیا اور خراج عقیدت بھی پیش کیا گیا مگر جاں سے گزر جانے کے بعد۔اب وہ ہم میں نہیں۔اس دنیا میں نہیں تو ان کی ایسی خوبیاں اور کردار کے وہ گوشے بھی سامنے آرہے ہیں جو اگر ان کی زندگی میں عیاں ہو جاتے تو انہیں بھی ” سیاسی“ سمجھا اور کہا جاتا۔ پاکستان آنے سے پہلے انہیں اپنی موت کا اس قدر یقین تھا کہ وصیت نامہ تیار کروایا، جا نشین مقرر کیا، عید کے فوری بعد اپنے ” پاپا“ کے مزار پرجس جگہ بیٹھ کر دو گھنٹے قرآن خوانی کرتی رہیں عین اسی جگہ کو اپنا مرقد قرار دیا۔ ایسی باتیں وہ کر سکتا ہے جسے اپنی موت کا اس طرح یقین ہو۔ جو اپنے خالق حقیقی سے جلد ملاقات کا منتظر ہو۔دبئی سے قرآن پاک کے سائے میں امام ضامن باندھے جب وہ روانہ ہوئیں پھر اسی طرح کراچی ائیر پورٹ پر جہاز کی سیڑھیوں سے اترتے ہوئے، اپنی پلکوں سے ڈھلکتے آنسو پونچھتے ہوئے، ان کے یہ الفاظ۔۔میں نے اس وقت کا سالوں، مہینوں، ہفتوں، دنوں اور منٹوں کے حساب سے انتظار کیا ہے۔۔۔ان کی اپنے وطن کی مٹی سے محبت کا اظہار تھا۔ جس پر بسنے والے عوام کے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کا عزم لے کر انہوں نے مادر وطن کی سر زمیں پر قدم رکھا تھا۔ مگر کچھ ہی دیر بعد ایک زور دار دھماکے نے یہ خواب بکھیر دیئے، ان کی تعبیر ریزہ ریزہ کر دی۔محترمہ نے ایک بار پھر عوام کے بکھرے خوابوں کو ٹکڑا ٹکڑا چن کر حقیقت کا روپ دینے کی جدو جہد کا آغاز کیا۔لیاقت باغ پنڈی کا ان کا جلسہ نہ صرف آخری بلکہ ایک کامیاب شو تھا۔ان کی وہ تقریر گزشتہ تقاریر سے یکسر مختلف تھی۔بے نظیر کو ذوالفقار علی بھٹو کی تصویر سمجھنے والے ان سے ایسی ہی تقریر سننا چاہتے تھے۔ اس آخری جلسے میں کی ہوئی باتیں عوام کے جذبات تھے، عوام کی زبان تھی۔لوگ پر جوش اور محترمہ بے حد خوش، سٹیج کی سیڑھیوں سے یوں اتر رہی تھیں جیسے کوئی پر اعتماد فاتح۔ گاڑی میں سوار ہویئں۔ گیٹ کے قریب عوام کے نعروں کا جواب دینے کے لیئے اپنے دونوں ہاتھ ہوا میں ہلائے۔وہ عوام سے اپنی محبت اور وفا کا اظہار ہمیشہ اپنے ہاتھوں کو ایک پرچم کی طرح ہوا میں بلند کر کے کیا کرتیں تھیں۔ عوام کی محبوب قائد کے ہاتھ پرچم کی طرح ہوا میں لہرا رہے تھے کی اسی لمحے وہ کسی جانب سے آ نے والی بے رحم گولی سے زخمی ہو کر گریں۔گرتے ہوئے ان کے ہوا میں بلند ہاتھ کہہ رہے تھے۔۔۔میں نے گرنے نہ دیا مر کے بھی معیار وفا۔۔۔ڈوبتے وقت مرے ہاتھ مرے پرچم تھے۔۔۔محترمہ عوام سے اپنا عہد وفا نبھا گیئں۔ پیپلز پارٹی کے مستقبل پر طرح طرح کی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔دو روز قبل اپنی عظیم والدہ کو قبر میں اتارنے والے بلاول نے ، پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے اجلاس میں جس اعتماد سے چند جملے کہے وہ اس بات کی غمازی کر رہے ہیں کہ بلاول انپے نانا اور ماما کے مشن کا وارث اور اس کی تکمیل کے لیئے پر عزم ہے۔ شہیدوں کا خون کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔ پاکستان کے عوام جمہوریت کا سورج طلوع ہوتا ضرور دیکھیں گے۔
فیس بک کمینٹ