دسمبر کے درمیان میں بلاول بھٹو زرداری ملتان آئے۔ قلعہ کہنہ قاسم باغ ملتان کے وسیع و عریض سٹیڈیم میں ایک جلسہ کیا اور چلے گئے۔ اس جلسے سے پہلے کیا کچھ ہوا۔ جلسہ میں کیا باتیں کی گئیں اور جلسہ کے بعد جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی کو کیاملا؟ انہی خطوط پر آج ہم آپ سے ہم کلام ہوں گے۔
لیکن سب باتوں سے پہلے ہم یہ بتانا چاہیں گے 1967ءمیں پی پی کی تشکیل کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے لاہور میں جو پہلا جلسہ کیا تو وہ جلسہ حاضری کے اعتبار سے اتنا بھرپور نہیں تھا۔ لاہور کے بعد دوسرا جلسہ بھٹو نے ملتان میں کیا تو وہ جلسہ اس زمانے میں بڑے جلسہ میں شمار ہوا۔ اسی جلسے کو دیکھ کر منو بھائی نے بہت بعد میں ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ جس کا ملتان مضبوط ہے اس کا اسلام آباد مضبوط ہے۔ اسی لیے شاید ذوالفقار علی بھٹو اپنی پارٹی بنانے کے بعد لاہور سے سیدھا ملتان مضبوط کرنے آئے کہ انہیں اب اسلام آباد فتح کرنا تھا۔ بھٹو نے اسی جگہ پر اپنا آخری جلسہ 1977ءکی انتخابی مہم کے دوران کیا تب سٹیڈیم کا سائز اتنا بڑا نہیں تھا۔ بھٹو کے بعد جب بےنظیر بھٹو نے پارٹی کی قیادت سنبھالی تو طویل جلاوطنی کے بعد اپریل 1986ءمیں وہ جب لاہور آئی تو انہوں نے مینارِ پاکستان میں جتنا بڑا جلسہ کیا اس کا ریکارڈ ابھی تک کوئی نہیں توڑ سکا۔ بےنظیر بھٹو نے اپنی انتخابی مہم کے بڑے جلسے ملتان کیے تھے۔ ایک جلسہ اسی سٹیڈیم میں جبکہ دوسرا جلسہ دمدمہ کے برابر میدان میں کیا۔ محترمہ کے دونوں جلسے بڑے تھے۔محترمہ کے بعد اسی سٹیڈیم میں بڑا جلسہ 2014ءمیں عمران خان نے عامر ڈوگر کے ضمنی انتخاب کے سلسلہ میں کیا۔ وہ جلسہ ملتان کی تاریخ کا ایک بڑا جلسہ جانا جاتا ہے۔ اس جلسہ نے عامر ڈوگر کی کامیابی کی بنیاد بھی رکھی۔ اب 2014ءکے بعد پی پی جنوبی پنجاب نے بلاول بھٹو زرداری کے لیے 15 دسمبر کا انتخاب کیا۔ اس سے پہلے دو مرتبہ بلاول کا دورہ منسوخ ہو چکا تھا لیکن اس بار سیّد یوسف رضا گیلانی، ان کے بیٹوں اور مخدوم احمد محمود کی ٹیم نئے عزم کے ساتھ میدان میں اتری تھی۔ اس جلسہ کے لیے سیّد یوسف رضا گیلانی نے ملتان اور گرد و نواح کے بے شمار دورے کیے۔ پارٹی کے ان کارکنوں سے رابطہ کیا جو گزشتہ برسوں سے گھروں میں بیٹھے تھے۔ گیلانی صاحب کے رابطے کی وجہ سے دل برداشتہ کارکن بھی اس جلسے کو کامیاب بنانے کے لیے گھروں سے باہر آ گئے۔ ملتان شہر کے داخلی دروازوں پر بڑے بڑے پینافلیکس کے ذریعے راستوں کو سجایا گیا۔ ملتان شہر میں ایک عرصہ بعد پارٹی کے جھنڈے، ہورڈنگ اور پوسٹرز لہرائے گئے۔جلسہ سے قبل ملتان کے تمام راستے پارٹی جھنڈوں کی وجہ سے لاڑکانہ لگ رہے تھے۔ دیوہیکل ہورڈنگ بورڈ پر آصف علی زرداری کے علاوہ سب کی تصاویر تھیں یعنی بھٹو، بے نظیر،بلاول، یوسف رضا گیلانی، احمد محمود اور گیلانی صاحب کے تمام بیٹوں کے علاوہ مختلف حلقوں سے اُمیدواروں کی تصاویر تو ہر جگہ دیکھنے کو ملیں لیکن ہمارے آصف علی زرداری کی تصویر کہیں پر دکھائی نہیں دی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس طرح کی حرکت ان سے پوچھ کر کی گئی ہے۔ ورنہ آصف علی زرداری کی تصویر کو تشہیری مواد سے غائب کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ بہرحال یہ اپنی جگہ پر اہم معاملہ ہے لیکن اس سب کے باوجود آصف علی زرداری ملتان کے جلسہ کے لیے بلاول کے ساتھ آئے، خطاب کیا اور خوب داد سمیٹی۔
بلاول بھٹو زرداری کاملتان میں جلسہ کرنا کیوں ضروری تھا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ شاہ محمود قریشی نے تحریکِ انصاف میں جانے کے بعد جنوبی پنجاب میں جس پراٹی کو نقصان پہنچایا وہ پی پی ہی ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ جنوبی پنجاب سے ماضی میں جو بڑے نام پی پی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوا کرتے تھے وہ سب کے سب پارٹی کو خیربات کہہ چکے ہیں یا پھر انہوں نے دوسری جماعتوں میں جانے کے لیے سامان باندھ رکھا ہے۔ ایسے میں جنوبی پنجاب کے سب سے بڑے شہر ملتان میں پی پی کا جلسہ کرنابہت ضروری تھا تاکہ مستقل قریب میں جو بچے کھچے لیڈر پارٹی چھوڑنے کے لیے بے تاب بیٹھے ہیں وہ پارٹی میں موجود رہیں۔
بلاول بھٹو زرداری کا یہ جلسہ کس وجہ سے کامیاب ہوا؟ سیاسی مبصرین کے ہاں یہ سوال بڑی شدت سے اٹھایا گیا۔ اس کی پہلی وجہ تو بلاول بھٹو زرداری کی شرکت بنتی ہے لیکن اس جلسہ کو کامیاب بنانے کے لیے یوسف رضا گیلانی نے جس طرح کام کیا اس طرح کی محنت نہ کوئی لیڈر اَپر پنجاب میں کر سکتا ہے نہ سندھ میں اور نہ ہی کے پی کے میں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یوسف رضا گیلانی نے پارٹی تنظیم کے ساتھ ساتھ اپنے بیٹوں کو بھی مکمل طور پر اپنے ساتھ سرگرم رکھا تاکہ جلسہ کامیابی سے ہمکنار ہو جائے۔ جیسے جیسے جلسہ کا دن قریب آ رہا تھا ملتان شہر میں پی پی کی طرف سے کارنر میٹنگز اور رابطے کی مہم تیز ہوتی گئی۔ یوں یوسف رضا گیلانی اس جگہ کامیاب جلسہ کرنے میں سُرخرو ہو گئے جہاں پر چند سال پہلے عمران خان ایک بہت بڑا جلسہ کر چکے تھے۔
اس جلسے کی وجہ سے سیّد یوسف رضا گیلانی کو یہ احساس بھی ہوا ہے کہ عوام نے ان کی محبتوں کا بھرپور جواب دیا ہے۔ وہ عوام جس نے پورے جنوبی پنجاب میں 2013ءکے انتخابات میں پی پی کو مسترد کر دیا تھا ایک مرتبہ پھر پی پی کے جلسے میں دکھائی دی۔ خود یوسف رضا گیلانی کی جلسہ میں جس انداز سے پذیرائی ہوئی اس سے انہیں ضرور حوصلہ ہوا ہے کہ اگرچہ سابق اراکین اسمبلی اور معروف سیاسی نام پی پی چھوڑ گئے ہیں لیکن عوام آج بھی پارٹی سے محبت کرتے ہیں۔ یہ بات بھی درست ہے اس جلسہ میں ملتان شہر کی طرف سے اتنی حاضری نہیں تھی جتنے زیادہ لوگ اردگرد اور جنوبی پنجاب کے دیگر شہروں سے آئے۔ جلسہ میں یوسف رضا گیلانی، آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کو پوری توجہ سے سنا گیا۔ نتاشا دولتانہ نے بڑے اعتماد کے ساتھ اس جلسہ میں اپنا کردار نبھایا۔ مجھے یاد پڑتا ہے جب نتاشہ دولتانہ اپنے بھائی کی حادثاتی موت کے بعد ضمنی انتخاب میں ایم۔این۔اے منتخب ہوئی تو اس کے چند روز بعد پی ٹی وی کے لیے جب لائیو انٹرویو کرنا چاہا تو وہ بار بار اپنے والد سے پروگرام شروع ہونے سے پہلے دریاف کر رہی تھیں کہ مَیں ٹی وی میزبان کے سوالات کا جواب کیسے دوں؟ پھر نتاشہ دولتانہ نے پورے پروگرام میں ڈرتے ڈرتے اور جھجکتے ہوئے بات چیت کی۔
بلاول بھٹو زرداری کامیاب جلسہ سے خوش گئے۔ وہ خوش کیوں نہ جاتے کہ اب وہ پہلے سے بہتر انداز میں اُردو بولنے لگے ہیں۔ پھر ملتان کے جلسہ میں پی پی کا روایتی جوش و خروش بھی دکھائی دیا۔ لیکن اس سب کے باوجود اب ہر پارٹی کو گرمانے کے لیے ڈی جے کا انتظام بھی کرنا پڑتا ہے۔ اس مرتبہ ساجد ملتانی اور عارف لوہار نے عوام کو سیاسی اور غیر سیاسی گیتوں سے محظوظ کیا۔ بلاول بھٹو زرداری جلسہ کر کے واپس جا چکے ہیں۔ یوسف رضا گیلانی اپنے حامیوں سے کامیاب جلسہ کی مبارک باد قبول کر رہے ہیں لیکن اس جلسہ کا اصل فائدہ تب ہو گا جب پی پی حلقہ این اے 154 میں ایک ایسا اُمیدوار لائے جس کی کم از کم ضمانت تو ضبط نہ ہو۔ سو دیکھیں سیّد یوسف رضا گیلانی اس حلقہ کے لیے کس کو اکھاڑے میں اتارتے ہیں؟
فیس بک کمینٹ