سرائیکی وسیبشاکر حسین شاکرکالملکھاری
باتیں ، یادیں، منو بھائی کی(1) : کہتا ہوں سچ / شاکر حسین شاکر

منو بھائی کا بسترِ علالت سے جب آخری کالم شائع ہوا تو مَیں نے اُس کالم کو محفوظ کر لیا۔ وہ کالم مَیں نے قطعاً یہ سوچ کر محفوظ نہیں کیا کہ اُس کے متن سے لگ رہا تھا کہ منو بھائی اب اور نہیں لکھ سکیں گے بلکہ اس کالم میں منو بھائی نے جس طرح اپنی بیماریوں کا تذکرہ کیا تھا اس سے مجھے لگا کہ ہم منو بھائی کا نیا کالم شاید ہی پڑھ سکیں۔ پھر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا کہ منو بھائی 19 جنوری 2018ءکی صبح ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے۔ ان کی موت کی خبر پورے ملک میں ہی نہیں بلکہ جہاں جہاں اُردو پڑھنے والے موجود ہیں، سوشل میڈیا کے ذریعے ایسے پھیلی جس طرح جنگل میں آگ پھیلتی ہے۔ جبکہ منو بھائی اس سے پہلے ہی 1984ءمیں اپنی کتاب کے ذریعے بتا چکے تھے:
جنگل اُداس ہے
اسی کتاب کے بیک ٹائٹل پر منو بھائی نے لکھا:
”مَیں وزیرآباد میں میاں غلام حیدر کا پوتا اور بابو محمد عظیم قریشی کا بیٹا تھا۔ راولپنڈی ڈویژن کے مختلف ریلوے اسٹیشنوں پر مَیں سٹیشن ماسٹر کا بیٹا تھا۔ راولپنڈی میں اخباری رپورٹر اور ٹیلی ویژن ڈرامہ نگار تھا۔ کرشن نگر لاہور مَیں ملک شمس کا کرایہ دار تھا اور اب ریواز گارڈن لاہور میں 364 ہو کر رہ گیا ہوں کہ یہاں لوگ میرے مکان کا نمبر جانتے ہیں۔ مجھے میرے والد اور دادا کو نہیں جانتے۔ میاں غلام حیدر کی مسجد، بابو محمد عظیم قیریش کے پلیٹ فارم اور ٹیلی ویژن ڈرامے مَیں پیچھے چھوڑ آیا ہوں اور یہاں اپنا نیا شناختی کارڈ بنوانے کی کوشش میں مصروف ہوں۔“
منو بھائی نے اپنے بارے میں یہ عبارت تقریباً 34 برس پہلے لکھی۔ منو بھائی نے اپنی شناخت بنانے کا آغاز تو اُس دن کر دیا تھا جب ساٹھ سال قبل انہوں نے ملتان میں بیٹھ کر روزنامہ امروز کے لیے پہلا کالم لکھا تھا۔ ”گریبان“ کے نام سے اس کالم نے اُردو کالم نگاروں کو نیا رُخ عطا کیا۔ ”گریبان“ کا نام کیسے رکھا گیا؟ یہ بھی ایک پوری کہانی ہے کہ جب کسی بات پر 1970ءمیں وفاقی وزیر اطلاعات نوابزادہ شیر علی خان منو بھائی سے ناراض ہوئے تو اُن کے حکم پر منو بھائی کا ملتان امروز تبادلہ کر دیا گیا۔ وجہ یہ ٹھہری کہ منو بھائی یحییٰ خان کی بجائے ذوالفقار علی بھٹو کے حامی ہیں۔ اسلام آباد سے ملتان تبادلہ کے بعد منو بھائی نے اس سزا کو بخوشی قبول کیا کہ ان کے ساتھ شفقت تنویر مرزا کو ”کالے پانی ملتان“ بھیجا گیا۔ یہاں پر مسعود اشعر پہلے سے موجود تھے۔ انہی دنوں اپنی فراغت کو مصروفیت میں تبدیل کرنے کے لیے ملتان کے تین لکھنے والوں نے ہفت روزہ ”گریبان“ شائع کرنے کا منصوبہ بنایا۔ یہ تین دوست اصل میں تین درویش تھے۔ جن میں ایثار راعی (نمائندہ روزنامہ مشرق لاہور)، رحمان فراز (معروف شاعر، صحافی اور دانشور) اور منو بھائی شامل تھے۔
ایثار راعی کا خیال تھا کہ ”گریبان“ کی اشاعت سے ہم ملتان سے ایک کامیاب ہفت روزہ جریدہ شائع کر لیں گے کہ ان کا براہ راست تعلق قدرت اﷲ شہاب سے تھا۔ قدرت اﷲ شہاب ایوب خان کے دور سے ایک طاقتور بیوروکریٹ اور ادیب کے طور پر اپنے آپ کو منوا چکے تھے۔ ایثار راعی کی قدرت اﷲ شہاب سے قرابت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہاب نامہ کی اشاعت سے قبل ایثار راعی ایک طویل انٹرویو (جو قسط وار مشرق لاہور میں شائع ہوتا رہا) کے ذریعے ان واقعات کو منظر عام پر لا چکے تھے جو بعد میں ”شہاب نامہ“ کی شکل میں شائع ہوئے۔ قدرت اﷲ شہاب نے شہاب نامہ کے آغاز میں ایثار راعی کا بڑی محبت سے تذکرہ کیا ہے جبکہ شہاب نامہ میں ڈپٹی کمشنر کی ڈائری والے باب میں ایثار راعی کا کچھ یوں تذکرہ کیا ہے:
”جھنگ کا ایک پڑھا لکھا نوجوان ایثار راعی بھی کبھی کبھی مجھے ملنے آ جاتا تھا۔ میرے پاس آنے سے قبل اس نے ایک جگہ پر کلرکی اور دوسری جگہ پر چپڑاسی کی نوکری کرنا چاہی لیکن بات نہ بن سکی۔ مَیں نے اس کی بےروزگاری دیکھتے ہوئے اسے چینی کا ایک ڈپو الاٹ کر دیا۔ ایک شام ایثار راعی ڈپو میں آٹے اور چینی کا حساب کر کے واپس لوٹ رہا تھا کہ پولیس کے دو سپاہی پکڑ کر اسے تھانے لے گئے۔ تھانے میں سب انسپکٹر نے ایثار کو گالیاں دے کر کہا تم نے جو رات ایک نوجوان سے نقد رقم اور گھڑی چھینی ہے وہ واپس کرو۔ یہ ڈرامہ اس شخص کے کہنے پر ہو رہا تھا جس کا ڈپو منسوخ کر کے مَیں ایثار راعی کو الاٹ کر دیا تھا۔ پولیس اسٹیشن سے ایثار نے مجھے فون کر کے اس افتاد کے بارے میں بتایا تو مَیں نے ایس۔پی کو فون کر کے اس دھاندلی سے مطلع کیا۔ انہوں نے معلوم نہیں کیا کارروائی کی کہ تھانے دار نے اُسی وقت ایثار کو کرسی پر بٹھا کر معافی مانگی۔ اسی ڈپو کا سہارا پا کر ایثار راعی نے ادب و ثقافت اور صحافت کی جانب رُخ کیا۔“
یہی ایثار راعی بعد میں مشرق کے ساتھ وابستہ ہوئے۔ مشرق کی بندش کے بعد انہوں نے روزنامہ قومی آواز کے نام سے ملتان سے اخبار جاری کیا۔ ان کے انتقال کے بعد یہ اخبار اب انہی کے بیٹے شائع کر رہے ہیں۔
ہفت روزہ گریبان کے تیسرے ساتھی رحمن فراز تھے جن کا تعلق جھنگ سے ہے۔ 1936ءمیں پیدا ہونے والے رحمن فراز نے 1956ءمیں پنجاب یونیورسٹی سے بی۔اے کیا۔ امریکہ سے جرنلزم میں ڈپلومہ کر کے چار سال تک یونیسکو میں کام کیا۔ پاکستان آنے سکے بعد مختلف اخبارات سے وابستہ رہے۔ 1980ءکی دہائی میں میری جب ان سے پہلی ملاقات ہوئی تو وہ ایک پرائیویٹ ہسپتال میں بطور ایڈمن منیجر کام کر رہے تھے۔ بنیادی طور پر نظم کے خوبصورت شاعر ہیں۔ آج کل وہ ملتان میں مقیم ہیں۔ گوشہ نشین ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان کی اہلیہ گزشتہ کئی برسوں سے بسترِ علالت پر ہیں۔ اولاد نہ ہونے کی وجہ سے وہ تیمارداری و گھرداری میں مصروف ہونے کے باوجود کبھی کبھار شاعری سے رجوع کر لیتے ہیں۔ بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے شعبہ¿ اُردو نے اُن کی شاعری کا کلیات شائع کر کے ماضی کے نامور صحافی، دانشور اور شاعر کو ایک ایسی خوشی دی جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔
منو بھائی کی ملتان میں بیٹھکیں جہاں ان دوستوں کے ساتھ ہوئی تھیں وہاں وہ باقاعدگی سے اُردو اکادمی کے اجلاس میں جایا کرتے تھے۔ ایک اجلاس میں معروف نقاد، ادیب، شاعر اور ماہر لسانیات جابر علی جابر نے اپنا مضمون تنقید کے لیے پیش کیا تو منو بھائی نے مضمون پر تنقید شروع کرنے سے قبل جابر علی جابر کے نام پر کہا کہ جابر صاحب علی بھی کتنا مظلوم ہے کہ آگے بھی جابر اور پیچھے بھی جابر۔ یہ سنتے ہی محفل کشتِ زعفران ہو گئی اور پروفیسر جابر علی جابر نے اُسی دن اپنا نام جابر علی سیّد رکھ لیا۔ ملتان کے ساتھ منو بھائی کی محبت مرتے دم تک رہی۔ ان کو جب بھی کبھی ملتان آنے کی دعوت دی گئی وہ فوراً آ جاتے۔ (جاری ہے)
( بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس )
فیس بک کمینٹ