جنوبی پنجاب کے تمام سرکاری ہسپتالوں میں گزشتہ بیس پچیس برسوں سے جہاں پر مریضوں کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا تو دوسری جانب حکومتِ پنجاب نے ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی نئی تقرریاں نہ کر کے عوام کو روزانہ نئے امتحان میں ڈالا ہوا ہے۔ سابقہ حکومت میں شہباز شریف کا یہ دعویٰ کسی حد تک درست ہوا کرتا تھا کہ انہوں نے جنوبی پنجاب میں صحت کے معاملات پر خصوصی توجہ دی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چوہدری پرویز الٰہی کے صحت کے شعبوں کے کام دیکھ کر شہباز شریف نے انہی خطوط پر کام کیا جس کے نتیجے میں گزشتہ دس پندرہ برسوں میں بےشمار نئے ہسپتال قائم ہوئے اور پرانے ہسپتالوں میں نئے طریقہ علاج کے لیے مشینری اور ڈاکٹر بھرتی کیے گئے۔ پرویز الٰہی سے لے کر شہباز شریف تک سب نے اپنے تئیں جنوبی پنجاب کے پسماندہ علاقوں میں صحت کے متعلق سہولیات فراہم تو کیں لیکن جسے بھرپور سہولیات کہا جاتا ہے اس پر عمل درآمد نہ کرایا جا سکا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ شہباز شریف کے دس سالوں میں نشتر میڈیکل کالج و ہسپتال میں فیکلٹی سٹاف کی کمی رہی۔ اسی کمی کا سامنا قائداعظم میڈیکل کالج اور وکٹوریہ ہسپتال کو بھی ہے۔ میاں شہباز شریف نے اپنے دور میں ڈیرہ غازی خان میں بھی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے تحت کالج قائم کیا لیکن وہاں پر فیکلٹی کے لےے انتہائی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جس کے بعد پہلے دن سے لے کر اب تک بے سر و سامانی کے عالم میں کام کر رہا ہے۔ شہباز شریف کے دور میں ہی نشتر ہسپتال و کالج میں پروفیسرز اور ڈاکٹرز کی کمی پر ہمیشہ آواز بلند کی جاتی رہی لیکن ملتان سے بلند کی جانے والی آواز تخت لاہور تک پہنچنے سے پہلے ہی بیٹھ جاتی اور یوں لاہور میں بیٹھی ہوئی بیورکریسی اور حکمرانوں کو کبھی اس بات کا ادراک نہ ہوا کہ جنوبی پنجاب کے ہسپتالوں اور میڈیکل کالجز میں بھی فیکلٹی پوری ہونی چاہیے۔
جب ملک محمد رفیق رجوانہ گورنر پنجاب بنے تو انہی کے دور میں نشتر میڈیکل کالج کو یونیورسٹی کا درجہ مل گیا جس کالج میں پہلے ہی پروفیسروں کی کمی تھی یونیورسٹی بننے کے بعد بھی اس کے حالات میں تبدیلی نہ آئی۔ جو بچے کھچے پروفیسر تھے وہ بھی یونیورسٹی میں لیکچر دیتے تو کبھی ہسپتال میں آ کر ڈیوٹی دیتے۔ بیسویں گریڈ کی پروفیسر کی 41 سیٹیں نشتر یونیورسٹی میں موجود ہیں۔ حکومت کی نااہلی دیکھیں 41 میں سے 23 پر تعیناتی ہوئی ہے۔ 18 خالی ہیں۔ ایک عرصے سے نشتر کے کارپردازان اپنے منتخب نمائندوں سے درخواستیں کر رہے ہیں کہ نشتر کے مسائل بہت بڑھ گئے ہیں مہربانی کر کے پروفیسر کی تعیناتی کر کے بحران کو ختم کیا جائے۔ لیکن ن لیگ کے زمانے میں ایم این اے اور ایم پی ایز کی شہباز شریف کہاں سنتے تھے؟ وہ تو صوبائی کابینہ کا اجلاس بڑی مشکل سے بلواتے تھے۔ ایسے میں وہ اپنے منتخب کیڑے مکوڑوں کی بات پر کیوں توجہ دیتے۔ 25 جولائی 2018ءکے انتخاب میں ضلع ملتان میں پی ٹی آئی نے کلین سویپ کیا تو اس کی ایک وجہ شہباز شریف کا اپنے اراکینِ اسمبلی سے تحکمانہ رویہ تھا۔ سو اُن کو اپنے کیے کی سزا مل گئی۔
ابھی تو عوام تحریکِ انصاف کے اراکینِ اسمبلی کے گھروں کے عادی بھی نہیں ہوئے تھے کہ اُن کی صوبائی حکومت نے جنوبی پنجاب کے غریب اور مجبور عوام پر ایک ایسا شب خون مارا ہے جس پر تادمِ تحریر نہ تو کسی رکن قومی اسمبلی نے اور نہ ہی کسی ایم پی اے نے اپنی ہی حکومت کے اس اقدام پر آواز بلند کی۔ معاملہ کچھ یوں ہے جب سے عثمان بزدار وزیراعلیٰ پنجاب بنے ہیں وہ تب سے لے کر اب تک اپنے حلقے میں نہیں آ سکے لیکن اپنے حلقے کے لوگوں کی خدمت کے لیے اُن کی بیوروکریسی نے بڑی مشاقی سے ایسا کام کیا جس سے ملتان سے لے کر ڈیرہ غازی خان اور بہاولپور کے رہائشی راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر ”دُعائیں“ دے رہے ہیں۔ حکومتِ پنجاب کے محکمہ ہیلتھ نے ایک حکم کے تحت نشتر ہسپتال و یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر خالد عثمان شعبہ پیتھالوجی، پروفیسر ڈاکٹر محمد خلیل گلِ شعبہ آرتھوپیڈک، پروفیسر ڈاکٹر عبدالجبار شعبہ فارماکالوجی، پروفیسر ڈاکٹر غلام عباس شعبہ نیفرالوجی، پروفیسر ڈاکٹر عبداللطیف شعبہ امراضِ اطفال سرجری، پروفیسر ڈاکٹر نسرین صدیق شعبہ کمیونٹی میڈیسن اور پروفیسر ڈاکٹر ایس ایم عباس نقوی شعبہ پیتھالوجی کو ہفتے میں تین دن کے لیے ڈی جی خان میڈیکل کالج میں ڈیوٹی دینے کے احکامات جاری کر دیئے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے قائداعظم میڈیکل کالج و ہسپتال کے پروفیسر آف کارڈیالوجی ڈاکٹر محمد بلال احسن، پروفیسر آف نیورو سرجری ڈاکٹر محمد ارشد چوہدری اور پروفیسر آف بائیوکیمسٹری ڈاکٹر خواجہ محمد فیاض کو بھی ڈیرہ غازی خان میڈیکل کالج میں ہفتے میں تین دن ڈیوٹی کرنے کا حکم نامہ جاری کیا ہے۔ یعنی کہ وہ نشتر میڈیکل یونیورسٹی جہاں پر پہلے ہی پری کلینیکل اور کلینیکل سائیڈ پر ٹیچنگ فیکلٹی کی بہت کمی ہے وہاں سے چھ پروفیسرز کو ہفتے میں تین دن کے لیے ملتان سے باہر ٹرانسفر کر دیا گیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ ڈی جی خان میڈیکل کالج، قائداعظم میڈیکل کالج اور نشتر میڈیکل یونیورسٹی کی تمام خالی آسامیوں کو مشتہر کر کے بھرتی کے احکامات جاری کرتے وزیراعلیٰ کی ناک کے نیچے ایک ایسا حکم کروایا جس سے جنوبی پنجاب کے تینوں ہسپتال ڈاکٹرز کی کمی کی وجہ سے بحران کا شکار ہو گئے۔
جب نشتر میڈیکل یونیورسٹی کے چھ پروفیسر ہفتے میں تین دن ڈیرہ غازی خان کام کریں گے تو ان دنوں نشتر میڈیکل یونیورسٹی میں پروفیسرز کی تعداد 17 رہ جائے گی اسی طرح اسسٹنٹ پروفیسرز کی 74 سیٹوں میں سے 28 سیٹیں خالی پڑی ہیں۔ ایڈیشنل پرنسپل میڈیکل آفیسر کی 15 میں سے 3 جبکہ اے پی ایم او کی 15 کی 15 سیٹیں خالی ہیں۔ خواتین اے پی ایم او کی 6 میں 4 سیٹیں خالی ہیں۔ جبکہ سینئر ڈیمانسٹریٹر کی تمام 50 سیٹیں ڈاکٹروں کی راہ تک رہی ہیں۔ محکمہ صحت پنجاب کی طرف سے ان تبادلوں کی ”خوبصورتی“ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نشتر میں شعبہ نیفرالوجی کو صرف پروفیسر ڈاکٹر غلام عباس ہی دیکھ رہے تھے ان کے وہاں جانے سے مہینے میں پندرہ دن یہ شعبہ اپنے سربراہ کے بغیر کام کرے گا۔ اسی طرح وکٹوریہ ہسپتال کے پروفیسر ڈاکٹر بلال احسن قریشی ماہر امراضِ قلب تین دن جب ڈیرہ غازی خان میں کام کریں گے تو اگلے تین دنوں میں وہ کس طرح ہزاروں مریضوں کا وہ سرکل قائم کر سکیں گے جو انہوں نے کئی ماہ کی محنت کے بعد وہاں پر شروع کیا تھا۔ مطلب یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو خوش کرنے کی خاطر بیوروکریسی نے ایک ایسا فیصلہ کیا جس کے بعد نہ تو نشتر ہسپتال میں لوگوں کو علاج معالجے کی سہولت مل سکے گی نہ بہاولپور کے وکٹوریہ ہسپتال کو۔ اور غازی ہسپتال کی کیا بات کرنی وہاں یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ ڈاکٹرز ملتان سے ڈیرہ غازی خان کا کہہ کر جائیں اور گھر بیٹھ جائیں شاید اسی طرح کے احکامات کے بعد ہمیں وہ نعرہ یاد آ رہا ہے۔
تبدیلی آئی ہے
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ