جہلم جانے کا ہم ایک عرصے سے پروگرام بنا رہے تھے اور آخرکار ہم جہلم جانے میں کامیاب ہوئے۔ اور یہ کامیابی حاصل کرنے کے لیے ہمیں پاکستان کی تیز ترین ریل گاڑی ”تیزگام“ کا انتخاب کرنا پڑا جس نے کمال ”سُست گام“ ہونے کا ثبوت دیا اور ہمیں لاہور سے پھر تیزگام کو خیرباد کہہ کے پنڈی جانے والی ریل کار کا انتخاب کرنا پڑا۔ راستے میں صاحبِ طرز شاعر اور بڑے بھائی قمر رضا شہزاد کی محبت میں ہمیں لالہ موسیٰ اترنا پڑ گیا کہ قمر رضا شہزاد نے حکم دیا جہلم جانے کی بجائے لالہ موسیٰ آ جاؤ ہم بذریعہ جی ٹی روڈ جہلم چلتے ہیں۔ جب سے موٹروے بنی ہے تب سے ہم نے جی ٹی روڈ کو خیرباد کہہ رکھا تھا۔ لالہ موسیٰ میں ہمارا لالہ قمر رضا شہزاد دونوں ہاتھوں سے خوش آمدید کہنے کے لیے موجود تھا۔ اگلے لمحے ہم جی ٹی روڈ سے جہلم کی جانب رواں دواں تھے۔ اس جی ٹی روڈ کو آخری مرتبہ ہم نے بیس برس پہلے دیکھا تھا اور اب ہم جی ٹی روڈ کو دیکھ کر حیران ہو رہے تھے کہ دنیا جہان کے تمام بڑے برانڈز سڑک کے دونوں طرف کھل چکے تھے۔ نئے ہوٹلز، شوز اور کپڑے کے شو رومز میں گھرا ہوا جی ٹی روڈ لاہور کے ایم ایم عالم روڈ سے کم نہ تھا۔ اسی گہماگہمی میں جہلم آ گیا۔ جہلم جو جوگی جہلمی کی پہچان، گلزار کا پسندیدہ شہر اور علم و ادب کا ایک ایسا مرکز جس نے پوری دنیا میں اپنی شناخت کرا رکھی ہے اور ایسے میں حمید شاہد کا بک کارنر…. جس کو اب اُن کے ہونہار بیٹے گگن شاہد اور امر شاہد…. کتاب پڑھنے والوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے۔ بک کارنر داخل ہوتے ہی جس کتاب نے ہمیں اپنی طرف متوجہ کیا وہ ڈاکٹر سیّد تقی عابدی کی نئی کتاب ”امجد فہمی“ ہے۔ جس میں انہوں نے امجد اسلام امجد کے جہانِ شعر کا تجزیاتی اور تنقیدی جائزہ لیا ہے۔
ڈاکٹر تقی عابدی سے ہماری پہلی ملاقات 2005ءمیں ٹورنٹو میں ہوئی جب ملاقات کے لیے ہم نے اُن سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ مجھے اپنے تحقیق و تنقید کے کاموں میں یہ زندگی بھی کم لگتی ہے اس لیے مَیں لوگوں سے ملاقات نہیں کرتا۔ اگر آپ آنا چاہیں تو میری لائبریری حاضر ہے جب آپ لائبریری سے فارغ ہو جائیں تو ہم اکٹھے بیٹھ کے کافی پی لیں گے۔ تقی عابدی کی لائبریری ٹورنٹو شہر میں اُردو سے محبت کرنے والوں کے لیے کسی توشے سے کم نہیں ہے۔ کہ اس میں مخطوطوں کے علاوہ اُردو کی نادر و نایاب کتب بھی موجود ہیں۔ کافی کی میز پر جب ہم نے اُن سے گفتگو کا آغاز کیا تو وہ تقی عابدی جو ہم سے ملاقات نہیں کرنا چاہ رہے تھے وہ نشست گھنٹوں میں تبدیل ہو گئی۔ وہ مرثیے جو کبھی شائع نہیں ہوئے اس کے بارے میں عابدی صاحب نے بتایا کہ انہوں نے بھارت اور پاکستان جا کر اُن مرثیوں کے مخطوطے حاصل کر لیے ہیں۔ تحقیق کا کام جاری و ساری ہے۔ کئی گھنٹے بعد جب ہم نے اُن سے اجازت چاہی تو یہ وعدہ لیا اب وہ جب پاکستان تشریف لائیں گے تو ملتان بھی رونق بخشیں گے۔ اس دوران انہوں نے میرے ذریعے کائناتِ نجم، روپ کمار کماری، دُربارِ رسالت، فکرِ مطمئنہ، خوشہ انجم، درِ دریائے نجف، تاثیرِ ماتم، نجمی مایا، روشِ انقلاب، رباعیاتِ انیس اور مطالعہ جدید کی روایت کی اشاعت کروائی۔ انہوں نے ٹورنٹو میں جو ہم سے وعدہ کیا وہ اگلے ہی برس وفا ہو گیا۔ ملتان تشریف لائے بہاالدین زکریا یونیورسٹی اور پریس کلب میں اُن کے ساتھ تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔ اور جب مَیں بک کارنر جہلم پہنچا تو وہاں پر ’امجد فہمی‘ جیسی کتاب سے ملاقات ہو گئی۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ جناب امجد اسلام امجد کے فن اور شخصیت پر اس سے پہلے بھی بے شمار کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ لیکن یہ کتاب اپنے موضوع کے اعتبار سے بالکل مختلف ہے کہ اسے صرف ایک شخص نے نہ صرف لکھا بلکہ امجد اسلام امجد کی تمام تخلیقی پہلوؤں کا تفصیل سے جائزہ لیا۔ امجد اسلام امجد کے زریں فقرے ہوں یا حمدیہ موضوعات نعتیہ کلام کی معجز بیانی کا تذکرہ ہو یا علامت نگاری میں خوابوں کی کرشمہ سازی۔ غزل میں خیال اور لفظ کے اتصال کا جمال و کمال یا وقت کی تصویر کشی۔ شعری آہنگ میں محبت کے ڈھنگ یا اشعار میں آنکھوں کی جلوہ گری۔ یہ وہ موضوعات ہیں جس پر ڈاکٹر تقی عابدی نے اپنے مخصوص انداز میں قلم اٹھایا۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کا یہ کام اس اعتبار سے بہت اہم ہے کہ مستقبل میں جب بھی کوئی امجد اسلام امجد پر کام کرنا چاہے گا یہ کتاب ان کے لیے بنیادی ریفرنس کی حیثیت رکھے گی۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد علم ہوتا ہے کہ امجد اسلام امجد کی اب تک اڑسٹھ کتب شائع ہو چکی ہیں جس میں بچوں کے لیے جو اُن کی کتاب ہے اس کی تین جلدیں شامل ہیں۔ اپنی شاعری، ڈرامے، کالم، ٹی وی سیریل، سفرناموں کی وجہ سے امجد اسلام امجد اس وقت پوری دنیا میں ہر دلعزیز ادبی Legend کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور یہ کتاب اُن کے چاہنے والوں کے لیے کسی تحفے سے کم نہیں۔ کہ اس کتاب میں جناب امجد اسلام امجد کی نہ صرف تخلیقات پڑھنے کو ملتی ہیں بلکہ پیدائش سے لے کر اب تک تصویری البم بھی اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ ڈاکٹر تقی عابدی نے اس کتاب کے ذریعے اُن کی شاعری کے وہ پہلو لکھے ہیں جو اس سے پہلے کسی بھی نقاد کے ہاں نہیں ملتے۔ کہا جاتا ہے کہ امجد اسلام امجد کی نظم اُن کی غزل سے زیادہ مقبول ہے جبکہ ہماری یہ رائے ہے کہ اُن کی غزل بھی نظم سے کم نہیں ہے۔ وہ ہمارے عہد کے وہ شاعر ہیں جن کو سننے کے لیے لوگ گھنٹوں انتظار کرتے ہیں۔ اور اس سے بڑھ کر یہ کہ اب جب وہ اپنی شاعری سنا رہے ہوتے ہیں تو پہلا مصرعہ وہ خود پڑھتے ہیں اور دوسرا اُن کے مداح۔
امجد اسلام امجد کے فن اور شخصیت پر لکھی گئی کتب پر یہ کتاب سب سے زیادہ خوبصورت ہے۔ بک کارنر اس اعتبار سے مبارکباد کا مستحق ہے کہ اس نے اس سے پہلے مختار مسعود اور مشتاق احمد یوسفی پر اسی طرح کی خوبصورت کتابیں شائع کیں لیکن یہ کتاب جو اپنی نوعیت کی بالکل مختلف کتاب ہے اسے ہر گھر اور ہر لائبریری کا حصہ ہونا چاہیے۔ امجد اسلام امجد نے کہا تھا
حسابِ عمر کا اتنا سا گوشوارا ہے
تمہیں نکال کے دیکھا تو سب خسارا ہے
اگر لائبریری میں سینکڑوں اور ہزاروں کتابیں موجود ہیں اور اُن کتب میں ڈاکٹر تقی عابدی کی ”امجد فہمی“ موجود نہیں ہے تو پھر وہ لائبریری نہیں کتابوں کا وہ ڈھیر ہے جس کو ہم لائبریری تو نہیں کہہ سکتے لیکن وہ اس وقت لائبریری کا درجہ حاصل کر سکتی ہے جب اس طرح کی کتابیں اس میں موجود ہوں۔
( بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ