اخبار سے میری محبت کا دور کب شروع ہوا مجھے ٹھیک سے یاد نہیں البتہ یہ ضرور یاد ہے کہ روزنامہ امروز ملتان میں جس دن بچوں کا ایڈیشن شائع ہوتا تھا اُس دن مَیں اور میرا چچازاد شہزاد حسین صبح سویرے جاگتے تھے اور ہاکر جب اخبار پھینک کر جاتا تو اخبار گرنے کی آواز پر ہم دونوں دوڑ کر دروازے تک جاتے، دونوں کی کوشش ہوتی کہ ہم پہلے اخبار تک پہنچیں اور بچوں کا صفحہ پڑھیں۔ ہمارے گھر میں اخبار صرف چند لوگ ہی پڑھتے تھے اور اس کی ادائیگی میرے چچا پروفیسر حسین سحر کیا کرتے تھے۔ سکول کے زمانے میں لائبریری میں جا کر کتابوں کو صرف دیکھنے کی اجازت تھی کیونکہ سکول کے بچوں کو کتابیں پڑھنے کے لیے اس لیے نہیں دی جاتی تھیں کہ وہ پڑھنے کی بجائے خراب کر دیتے تھے۔ گورنمنٹ اسلامیہ ہائی سکول حرم گیٹ ملتان سے جب چھٹی کر کے گھر جاتا تو چوک حرم گیٹ پر عزیز بک سٹال میری کشش کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ ڈوری کے ساتھ لٹکے ہوئے بچوں کے رسائل اور پورے پاکستان سے شائع ہونے والے اخبارات اس کے فرنٹ پر ڈسپلے ہوتے تھے۔ عام طور پر اس بک سٹال پر ادیبوں شاعروں کا بہت رش ہوتا تھا جس میں خریدنے والے کم اور پڑھنے والے زیادہ دکھائی دیتے تھے۔ عزیز بک سٹال سے اخبارات اور رسائل کی خوشبو سونگھ کر پیدل چوک پاک گیٹ آتا اور وہاں پر قادری بک سٹال پر کچھ دیر قیام کر کے گھر جاتا۔ قادری بک سٹال کے مالک محمد صدیق قادری پروفیسر حسین سحر کی وجہ سے مجھے بک سٹال پر کھڑے ہونے کی بخوشی اجازت دیتے تھے اور مجھے یاد ہے کہ مَیں نے اپنی زندگی کا پہلا اخبار اسی بک سٹال سے خریدا۔ اخبار کا نام روزنامہ آفتاب تھا۔ یہ اخبار اب بھی شائع ہوتا ہے لیکن اسے خریدے ہوئے کم و بیش تیس برس ہو گئے۔ سکول سے کالج گئے ، جیب خرچ میں اضافہ ہوا تو وہ آمدن اخبارات و رسائل کی خریداری پر خرچ ہونے لگی۔ گورنمنٹ سول لائنز کالج ملتان کی لائبریری میں ہمیں پڑھنے کو بہت کچھ مل جاتا۔ یہ زمانہ 1981ء کا تھا جب ملتان سے صرف دو ہی قومی اخبار امروز اور نوائے وقت شائع ہوتے تھے ہم نے بھی نیا نیا لکھنا شروع کیا تھا۔ کالج سے واپسی پر روزانہ ان دونوں اخبارات کے دفاتر جا کر ہم اپنی تخلیقات شائع ہونے کے لیے دیتے۔ کراچی سے اس زمانے میں روزنامہ حریت، امن، جسارت اور جنگ تاخیر سے آیا کرتے تھے لیکن اب میری دلچسپی کا صفحہ بچوں کی بجائے ادبی ہو گیا تھا۔
یہ ساری تمہید مَیں نے اس لیے باندھی کہ اخبار کے ساتھ میری محبت اُس زمانے کی ہے جب جیب میں اخبار خریدنے کے بھی پیسے نہیں ہوتے تھے۔ وقت گزرتا رہا مَیں عملی زندگی میں آ گیا، پھر اخبارات، رسائل اور کتابیں خریدنے لگے کہ مجھے اخبار کی خوشبو اچھی لگتی تھی۔ اس میں خبریں پڑھنا میرا معمول ہو گیا۔ رسائل کو جمع کر کے ایک چھوٹی سی لائبریری بنانی شروع کر دی۔ تو اس کے ساتھ ان کتابوں کو بھی محفوظ کرنا شروع کر دیا جو مَیں نے کبھی اپنی عیدی جمع کر کے خریدی تھیں تو کبھی ابو سے فرمائش کر کے فیروز سنز سے شائع کردہ بچوں کے ناول گھر منگوایا کرتا تھا۔
وقت کچھ اور گزرتا ہے اور مَیں اخبارات میں باقاعدگی سے لکھنا شروع کر دیتا ہوں جس کے نتیجے میں مَیں نے اہم مواقع کے اخبار محفوظ کرنے شروع کر دیئے۔ شادی کے بعد اہلیہ نے پوچھا کہ میرا سامان رکھنے کے لیے ایک الماری درکار ہے اور جہاں پر آپ نے اخبارات اور کتابیں رکھی ہیں کیا وہ خالی ہو سکتی ہے؟ مَیں نے انکار کر دیا اور اسے کہا اپنے سامان کے لیے کوئی اور جگہ تلاش کرو یہ اخبار اور کتابیں میرے لیے آکسیجن کا کام دیتی ہیں۔ میرے اس جواب پر وہ خاموش ہو گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے میرے گھر میں کتابوں اور اخبارات کے ڈھیر لگنے شروع ہو گئے۔ 25 برس قبل جب والد صاحب نے مجھے ساڑھے تین مرلے کا گھر بنا کر دیا تو اس دو منزلہ گھر میں چار کمرے اور ایک ڈرائنگ روم تعمیر کیا گیا۔ دوسری منزل پر میری بیگم نے ایک کمرے کو سٹور بنا کر اپنا جہیز اور میری بیٹی کے جہیز کے نام پر (جو اُس وقت دو برس کی تھی) قبضہ کر لیا۔ جواب میں اُس کے برابر والے کمرے کو مَیں نے اپنی لائبریری کا درجہ دیا اور اپنی دانست میں ایک ایسا فیصلہ کیا جس پر اُسے مسلسل اعتراض ہی رہا کہ ایک کمرے پہ آپ کی کتابوں نے قبضہ کیا ہوا ہے۔
آج سے 10 برس قبل مَیں نے ملتان کے نواح میں ایک کالونی میں جگہ لے کے گھر بنایا، اس کے سٹور کو زیادہ جگہ دے کر مَیں نے اخبارات، کتابیں اور گھر کا سامان رکھ دیا۔ جب مَیں گھر میں ہوتا ہوں تو میرا زیادہ وقت اسی کمرے میں گزرتا ہے۔ روزانہ رات کو واپسی پر میرے ہاتھ میں اخبار اور کتابیں دیکھ کر بیگم پریشان ہو جاتی ہے کہ میرے گھر میں ان دو چیزوں کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں آتی۔ مَیں جواب میں کہتا ہوں شکر کرو کہ میرے ساتھ کتابیں ہوتی ہیں اگر مَیں کسی دن کوئی اور چیز لے آیا تو پریشان ہو جاؤ گی۔ اپنے سونے کے کمرے میں بھی آہستہ آہستہ مَیں نے وہ اخبارات و کتابیں رکھنے شروع کر دیئے جن کی مجھے گاہے گاہے ضرورت رہتی ہے۔ جب سٹور میں بھی اخبارات، رسائل اور کتابیں رکھنے کی جگہ نہ رہی تو مَیں نے گھر کے گیسٹ روم کو بھی لائبریری کا درجہ دے دیا۔ جس دن سے بیٹی اپنے گھر والی ہوئی، اس کا کمرہ بھی میری کتابوں سے سج گیا ہے۔ اب زندگی کا معمول یہ ہے کہ صبح چار اخبارات میرے گھر آتے ہیں۔ مَیں نے اپنے ہاکر صابر جعفری سے کہہ رکھا ہے وہ اخبارات گیٹ کے نیچے مت پھینکا کرے بلکہ اخبارات کو اس جگہ رکھا کرے جہاں سے مَیں آسانی سے اٹھا کر مطالعہ کر سکوں۔ صبح سویرے مَیں اپنے بیڈ پہ بیٹھ کے تقریباً ایک گھنٹہ تازہ اخبارات پڑھتا ہوں۔ اخبارات کے کاغذ کی خوشبو سونگھنا مجھے اچھا لگتا ہے۔ اخبار کو پڑھنے کے بعد اس کو اسی طرح محفوظ کر دیتا ہوں جس طرح ہاکر دے کر جاتا ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے مَیں نے جمع شدہ اخبارات کو فروخت کرنا بند کیا ہوا ہے کہ مجھے اخبار کو ردی کہنا اچھا نہیں لگتا۔ میرے گھر میں اخبار کو دسترخوان کے طور پر استعمال کرنا بھی منع ہے۔ پراٹھے کو بھی روٹی والے رومال میں رکھ کے سرو کیا جاتا ہے کیونکہ اخبار سے میری محبت کی وجہ سے گھر والے اخبار کو بطور ردی استعمال نہیں کرتے۔ البتہ ہر ماہ یکم کو کام کرنے والی ماسی یہ کہہ کر لے جاتی ہے کہ اب ان کے رکھنے کی جگہ میرا گھر ہے بھلے وہ ان اخبارات کو گھر جاتے ہوئے کسی کریانہ فروش کو دے کر چند روپے لے لیتی ہو لیکن مَیں اپنے اخبارات کو ردی کا نام نہیں دیتا۔ ہر مہینے میں میری لائبریری میں بہت سے اخبارات جمع ہو جاتے ہیں اور مَیں خوش ہوتا ہوں کہ کتابیں، رسالے اور اخبارات کی دستیابی نے میری زندگی کو کتنا خوبصورت بنا دیا ہے۔ مجھے یہ بھی اندازہ ہے کہ اب زندگی کا زیادہ وقت تو گزار لیا پیچھے بہت کم عرصہ رہ گیا ہے لیکن کتابوں اور اخبارات کی وجہ سے میرے معمولات بہت اچھے گزر رہے ہیں۔
17 فروری 2017ء جمعتہ المبارک کی صبح مَیں نے معمول کے مطابق اپنے گیٹ سے اخبارات لیے بیڈروم آیا اخبارات کو دیکھنا شروع کیا، تمام اخبارات کے صفحہ اول کو دیکھا اور مَیں نے اپنا سیل فون اٹھا کر اپنے ہاکر صابر جعفری سے رابطہ کیا اور کہا صابر صاحب میرے پاس گزشتہ تین دنوں کے اخبارات موجود ہیں مہربانی کر کے یہ اخبار واپس لے جائیں۔ مَیں نے اخبار پڑھنے ہوتے ، روتے ہوئے لوگوں کی تصاویر کو نہیں دیکھنا۔ مجھے بَین نہیں پڑھنے، جنازوں کی قطاروں کی تصاویر نہیں دیکھنی۔ مجھے جھوٹے بیان نہیں پڑھنے۔ طِفل تسلیاں بھی نہیں چاہئیں۔ وہ اخبارات جن کو مَیں گزشتہ 30-35 برسوں سے سنبھالے کھڑا تھا اُن اخبارات کا مسکن اب میرا گھر نہیں رہا اور یہ کہہ کر مَیں گیٹ کے باہر درجنوں اخبار لے کر کھڑا ہو گیا۔ میرا ہاکر صابر جعفری مجھ سے اخبارات لینے میرے گھر آ رہا تھا…………
(بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس)