ملتان لٹریری فیسٹیول کے میزبان علی نقوی نے جب یہ بتایا کہ چوتھے ملتان لٹریری فیسٹیول کا افتتاح رضا ربانی کریں گے۔ یہ سن کر ہمیں بہت خوشی ہوئی۔ ایک عرصے بعد جناب ربانی سے دوسری ملاقات ہوگی ان سے ہماری پہلی ملاقات سید یوسف رضا گیلانی کے حوالے سے ہوئی تھی۔ جب چند سال پہلے ان کے والد محترم علمدار حسین گیلانی کی برسی کے موقع پر وہ بطور صدر محفل تشریف لائے تھے ۔ اس زمانے میں رضا ربانی قائم مقام صدر پاکستان تھے۔ اور یوسف رضا گیلانی نے اسی سال برسی کے پروگرام کو ایک سیمینار میں تبدیل کر دیا تھا۔ یہی وجہ تھی تھی کہ سیمینار کی صدارت کا قرعہ رضا ربانی کے نام نکلا ۔یہ وہ دور تھا جب سیاسی طور پر بہت زیادہ گھٹن تھی۔ اور بات کرنا بہت مشکل ہو گیا تھا ۔ انھوں نے برسی کے سیمینار میں کھل کر حالات حاضرہ پر بات کر کے خوب داد حاصل کی۔
اس برس جب ملتان آئے تو میرا ان سے تعارف کروایا گیا تو ان کو یاد آگیا۔ میں نے یوسف رضا گیلانی کے والد کی برسی کے سیمینار کی نظامت کی تھی۔ ملتان آرٹس کونسل کے کھچاکھچ حال میں رضا ربانی جب لٹریری فیسٹیول کے افتتاحی سیشن میں پہنچے تو لوگ خطاب کے منتظر تھے۔ رضا ربانی جیسے ہی خطاب کرنے کے لئے کھڑے ہوئے۔ تو پورے ہال کے ہال میں موجود لوگوں نے ان کا کھڑے ہو کر تالیاں بجا کر استقبال کیا اور اس کے بعد رضا ربانی کا خطاب شروع ہوا یوں لگ رہا تھا۔جیسے دریا میں لہریں سفر کر رہی ہیں۔ وہی جارحانہ انداز خطاب کرنے کا ۔جو ان کی شخصیت کا خاصا یے ۔ایسے محسوس ہو رہا تھا۔وہ لٹریری فیسٹیول سے نہیں بلکہ سینٹ میں بول رہے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے دانشور ان کے ایک ایک جملے پر داد دے رہے تھے ۔
ہماری ملکی سیاست رضا ربانی وہ چہرہ ہے ہے جس پر ہم بلاشبہ فخر کر سکتے ہیں۔ وہ سات مرتبہ سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ ایک مرتبہ چیئرمین سینٹ اور دو مرتبہ وفاقی وزیر رہے لیکن ان کی اصل شناخت یہ ہے کہ وہ اپنی پارٹی میں لگی لپٹی کیے بغیر ہر بات کہہ دیتے ہیں چاہے انہیں کلمہ حق کہنے کی پاداش میں قیمت ہی کیوں نہ چکانی پڑے لیکن وہ کلمہ حق کہنے سے باز نہیں آتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا تعلق جس خاندان سے ہے۔اس نے قائد اعظم کے ساتھ کام کیا ان کے والد محترم میاں عطا ربانی بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے پہلے اے ڈی سی رہے ۔ لاہور میں پیدا ہونے والے رضا ربانی کے پوری دنیا میں مداحین ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک ایسے سیاست دان ہیں ۔ جن کے دامن پر کرپشن کا کوئی بھی نشان نہیں ۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی ان کو چیئرمین سینیٹ اس لئے بنایا کہ ان پورا سیاسی سفر کرپشن سے پاک ہے ۔تو دوسری مرتبہ ان کی جگہ پر ایک ایسے سرمایہ دار کو کو چیئرمین سینیٹ بنایا گیا جو ان کے پائے کا بھی نہیں تھا۔ کہ ہماری سیاست کا چلن ہی کچھ ایسا ہے کہ ہم سچے اور کھرے بندے کو برداشت نہیں کرتے۔
جب رضا ربانی سے ملتان آرٹس کونسل میں مکالمہ ہوا تو میں نے ان کی کتابوں کا ذکر شروع کیا۔تو اپنی کتب کے ذکر پر ان کا چہرہ کھل اٹھا۔ میں نے ان کی کتاب اوجھل لوگ کا ذکر کیا ۔ جس کو برادرم فرخ سہیل گوئندی نے منفرد انداز میں شائع کیا۔ اور اس کتاب کو پروین شاکر بھی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ۔اصل بات یہ ہے کہ رضا ربانی کی شخصیت کے بہت سے ان پہلو ایسے ہیں۔جو لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ لوگ ان کو صرف سیاستدان کے طور پر جانتے ہیں جب کہ وہ وہ ماہر قانون دان ہونے کے ساتھ بہت سی کتابوں کے مصنف بھی ہیں ۔انگریزی اردو میں ان کی بے شمار کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جس کتاب کا تذکرہ میں نے اس سے کیا وہ اوجھل لوگ تھی۔ جس میں مختلف لوگوں کے خاکے لکھے ہیں۔ اپنے والدین کے نام کی انتساب کردہ یہ کتاب پڑھنے کے لائق ہے۔ ان کے والدین کوئی معمولی شخصیات نہیں تھے وہ جب اپنی کتابوں میں والدین کا تذکرہ کرتے ہیں اور تذکرہ کرتے ہوئے وہ جذباتی ہو جاتے ہیں خاص طور پر 3 جون 2012 کو انتقال کر جانے والے اپنے والد محترم میاں عطا ربانی کے بارے میں بہت ہی خوبصورت انداز میں ان کی یادوں کو تازہ کیا ہے ان کے والد محترم نے پاکستان بننے کے بعد جب بانئ پاکستان کے ساتھ کام کیا تو انہوں نے میں اپنے عہدے کے ساتھ نہ صرف انصاف کیا بلکہ اپنے بعد آنے والوں کے لئے بہت سے ایسے سے بڑے معیارات قائم کیے ۔جس پر پورا اترنا بہت مشکل تھا۔
ایک بڑے آدمی کا اپنے بیٹے کے بارے میں یہ لکھنا کہ بہت اہم ہے جب ان کو یقین ہوگیا تھا کہ میں اب دنیا سے رخصت ہو رہا ہوں اس کا متن کچھ یوں تھا
میرے بیٹے جب میں بوڑھا ہو جاؤں گا مجھے امید ہے کہ تم کو اس حقیقت کا ادراک ہوگا اور پھر میرے ساتھ کیسے پیش آؤ گے اور برائے مہربانی اس وقت جب سانس کی ڈوری ٹوٹ جائے تو یہ بات کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ جب میں کوئی بات بار بار دہرائی ہو تو اس کا اس کا جواب نہ آئے ۔جب میں بوڑھا ہونے لگو اور زندگی کا دامن میرے ہاتھ سے چھوٹنے لگے ۔ مجھے امید ہے کہ تم میرا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام کر موت کا سامنا کرنے میں مجھے ہمت دو گے۔
قارئین کرام عطا ربانی کا یہ خط وقت ہر گھر کی کہانی ہے ۔ ان کی کتاب کے مندرجات کو میں وہاں بیٹھا ہوا ڈسکس کرتا رہا ہاں اور پھر وہ کہنے لگے گے کہ یہ وہ کتاب ہے کہ جس نے میرے اندر میں موجود کہانیوں کو باہر لانے پر مجبور کیا یا نہیں لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں وہ ایسی کہانیاں ہیں جو میرے اندر ہلچل پیدا کرتی رہی ہیں ۔ لیکن میں اب تک یہ بات سمجھنے سے قاصر ہو ں کہ میرے اندر جو کہانیاں اور قصے موجود ہیں ۔وہ کیسے باہر آ سکتے ہیں اور میں اس خوشبو کا تعاقب کرتے کرتے تھک گیا ہوں۔
جب ملتان لٹریری فیسٹیول میں اپنا خطاب کرنے کے لیے اسٹیج پر تشریف لائے آئے تو وہ جس انداز سے گفتگو کرتے رہے ہے وہ انداز سن کر مجھے لگا ہیں کہ پاکستان کی سیاست کا یہ آخری فرد ہے۔ جو نہ صرف سیاست کے معنی سے واقف ہے ۔ بلکہ کرپشن کی حمایت نہیں کرتا۔ وہ کسی کی زمین پر قبضہ نہیں کرواتا۔ وہ پہلے دن سے لے کر آج تک اس نے اپنے نظریے کا سودا نہیں کیا ۔ وہ بڑی پامردی کے ساتھ پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس لیے ان کی تقریر سننے کے لیے اس ملتان سے دو ایسے رہنما موجود تھے جو خود بھی پہلے دن سے لے کر آج تک پارٹی کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان دونوں رہنماؤں کے نام خواجہ رضوان عالم اور ملک نسیمِ حسین لابر ہیں۔ جنہوں نے رضا ربانی اور ان جیسے پارٹی کے لیڈروں کی وجہ سے اپنے نظریے کا سودا نہیں کیا ۔ان دونوں کے علاوہ پورے ملتان سے ان کی تقریر سننے کے لئے اور کوئی نہیں پہنچا ۔ خواجہ ضیا الحق ۔ برادرم جمیل اصغر بھٹی اور اس طرح کے بے شمار لوگ نہ تو اپنا نظریہ تبدیل کر سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی سیاسی جماعت تبدیل۔ان کا کہنا ہے کہ ان کا پہلا نظریہ پہلی محبوبہ کی طرح ہے اس لیے نہ نظریہ چھوڑا جاسکتا ہے اور نہ ہی پہلی محبوبہ کو چھوڑا جا سکتا ہے
فیس بک کمینٹ