مئی کے دوسرے ہفتے سے سوشل میڈیا کے مختلف صفحات پر سرائیکی زبان کے حامیوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف احتجاج کا اعلان اور پی پی سے لاتعلق کا اعلان کیا ہے۔ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والی سرائیکی صوبہ تحریک کی طرف سے پی۔پی کے لیے جب کسی بھی قسم کا اظہارِ محبت نہ کیا گیا تو ہم پریشانی کے عالم میں اس ”گھڑمس“ کو تلاش کرنے لگے جس کے بعد سرائیکی صوبے و سرائیکی زبان کے محبان کھل کر پی۔پی کے خلاف بولنے لگے۔ جب ہم نے اپنے علاقے کے اخباری لیڈروں کو پی۔پی کے لیے شدید غصہ میں دیکھا تو معاملے کی تہہ تک جانے کے لیے ٹی۔وی آن کیا تو وہاں پر خاموشی تھی۔ پھر اخبارات کا بارِ دیگر بغور مطالعہ کرنا شروع کیا تو وہاں پر سوائے پی پی کے خلاف احتجاج کے کچھ بھی دکھائی نہ دیا۔ بھلا ہو برادرم ظہور دھریجہ کا جو انہوں نے بتایا کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قومی زبان نے اپنے ایک اجلاس میں سندھی، پنجابی اور پشتو کو صوبائی زبانیں قرار دے دوسرے درجے کی زبانیں قرار دے دیا ہے جبکہ سرائیکی، ہندکو اور براہوی کو دوسرے درجے سے مسترد کر کے انہیں تیسرے درجے کی زبانیں قرار دینے کی سفارش کی ہے۔ قائمہ کمیٹی کے اس فیصلے پر جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والوں نے یہ بھی کہا حکومت ماں بولیوں کی ایک طرف توہین کر رہی ہے تو دوسری طرف علاقائی زبانوں کو مختلف درجوں میں تقسیم کر کے ہر زبان سے تعصب کر رہی ہے۔
جب اخبارات میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس کی تفصیل کو تلاش کر کے پڑھا تو معلوم ہوا کہ اجلاس میں اعتزاز احسن وغیرہ نے اس بل میں سات علاقائی زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دینے کا آئینی ترمیمی بل مسترد کر دیا جبکہ اُردو، پنجابی، سندھی، پشتو اور بلوچی کو صوبائی اور اُردو کو قومی زبان کا درجہ دینے کے بل کی منظوری دے دی۔ اجلاس میں اعتزاز احسن نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ قومی زبان کا درجہ صرف اُردو کو حاصل ہو گا اور اس بارے میں کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیے۔ اجلاس میں سینیٹرز کے علاوہ وزیراعظم کے مشیر عرفان صدیقی اور چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو بھی موجود تھے جنہوں نے علاقائی زبانوں کو قومی زبانیں قرار نہ دینے کی تائید کی اور کہا ہم علاقائی زبانوں کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں مگر قومی زبان کا درجہ صرف اُردو کو حاصل ہو گا۔
قارئین کرام! جہاں تک اُردو کو قومی زبان کا درجہ دینے کی بات ہے کہ ہماری قوم کے لیے اس سے بڑی دکھ کی بات کیا ہو گی کہ ہم گزشتہ 70 برسوں میں اپنی قومی زبان کے متعلق اتفاقِ رائے قائم نہیں کر سکے۔ جب بھی قومی زبان کے نافذ کرنے کی بات ہوتی ہے تو کبھی اس کے لیے ہمیں سپریم کورٹ کے کسی حکم کو سامنے رکھنا پڑتا ہے تو کبھی پارلیمنٹ سے قانون سازی کا انتظار ہوتا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی اور مشیر وزیر اعظم عرفان صدیقی کے لیے یہ بہتر موقع ہے کہ وہ اپنے دور میں اُردو زبان کے بارے میں حتمی قانون سازی کریں تاکہ یہ روز روز کے قصے سے جان چھوٹ سکے۔ اخبارات کی خبروں میں جہاں چیئرمین اکادمی ادبیات کا نام آیا ہے تو اس اجلاس میں مقتدرہ قومی زبان کے سربراہ افتخار عارف کا نامِ نامی کہیں پر دکھائی نہیں دیا۔ اگر اس اجلاس میں وہ موجود تھے تو ان کی تجاویز کیا تھیں؟ اگر وہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں موجود نہیں تھے تو انہیں باہر کیوں رکھا گیا؟ اب ہم آتے ہیں سرائیکی زبان کو تیسرا درجہ کیوں دیا گیا۔ پہلے تو ہم اس بات کی مذمت کرتے ہیں کہ کسی بھی زبان کا کوئی درجہ نہیں ہوتا۔ ہر زبان کے بولنے والوں کی تعداد کم ہو یا زیادہ اس بات کا پیمانہ نہیں ہوتا کہ ہم ان کو درجوں میں تقسیم کریں۔ زبان کو ہم اپنے ہاں ماں بولی کا درجہ دیتے ہیں ایسے میں تو کوئی بھی اپنی ماں کی درجہ بندی پسند نہیں کرتا۔ دوسرے لفظوں میں کوئی بھی اپنی زبان کی توین برداشت نہیں کرتا۔
جہاں تک سرائیکی بولنے والوں کا تعلق ہے تو یہ زبان بولنے والے بھی آپس میں اتنے اختلافات کا شکار ہیں کہ پہلے ان کو آپس کے اختلافات دور کرنا ہوں گے۔ مثال کے طور پر گزشتہ دنوں پلاک نے پنجابی اور سرائیکی شعراءو ادباءکے لیے حسنِ کارکردگی ایوارڈز کا اعلان کیا۔ ملتان سے سرائیکی کے نامور شاعر رفعت عباس کے لیے 3 لاکھ روپے کے ایوارڈ کا اعلان کیا گیا۔ رفعت عباس نے یہ کہہ کر ایوارڈ واپس کر دیا کہ چونکہ ایوارڈ دیتے وقت مجھے پنجابی شاعر کی کیٹگری میں شمار کیا گیا ہے اس لیے مَیں ایوارڈ واپس کرتا ہوں۔ پلاک کی سربراہ ڈاکٹر صغریٰ صدف نے کہا ہم آپ کے ایوارڈ کے ساتھ سرائیکی ادب کا اضافہ کر دیتے ہیں۔ لیکن رفعت عباس صاحب اس وقت تک اپنے تمام تیر کمان سے نکال چکے تھے۔ ابھی پلاک کی سربراہ نے اپنے اعلان میں سرائیکی ادب کا اضافہ بھی نہیں کیا تھا کہ ملتان سے شاکر شجاع آبادی آئے، انہوں نے رفعت عباس کی جگہ پر وہ ایوارڈ وصول کیا، 3لاکھ روپے جیب میں ڈالے جبکہ رفعت عباس کے اعزاز میں دو تین تقریبات کا اہتمام کیا گیا کہ انہوں نے اپنی زبان سے محبت کے اظہار پر ایوارڈ واپس کیا۔ لیکن سرائیکی علاقے کے کسی سیاست دان یا سرمایہ دار نے اس احتجاج پر اپنی طرف سے 3لاکھ تو بہت دور کی بات ہے 3ہزار روپے بھی نہیں دیئے۔ اس واقعہ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سرائیکی زبان سے محبت کرنے والوں نے رفعت عباس کے اس فیصلے کو کس نظر سے دیکھا۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کی سفارشات میں سب سے زیادہ اہم نام اعتزاز احسن کا آیا ہے جنہوں نے سرائیکی اور دیگر زبانوں کو تیسرے درجے تک پہنچایا ہے۔ ایسے میں جنوبی پنجاب کے لیڈروں کا پی پی کے خلاف احتجاج جائز ہے لیکن اس موقعہ پر پی پی بھی سرائیکی وسیب میں بسنے والوں سے یہ سوال کر سکتی ہے کہ یوسف رضا گیلانی نے بطور وزیراعظم سرائیکی خطے کے بے شمار دکھ درد کم کیے۔ اس کے صلہ میں سرائیکی علاقوں سے تعلق رکھنے والی عوام نے پی پی کو کیا دیا۔ یعنی 2013 کے انتخابات میں پی پی کے ہر دوسرے اُمیدوار کی ضمانت ضبط کرائی۔ ایسے میں سرائیکی وسیب کے لوگ اب بھی پی پی کی ہائی کمان سے کچھ اچھا کی توقع رکھتے ہیں؟ حیرت ہے سرائیکی زبان کے نام پر سیاست کرنے والوں پر!
(بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ