3 اگست 2017ء کو لاہور میں جب ڈاکٹر ظفر حیدر نے انتقال کیا تو شاید لاہور کے کسی اخبار نے ان کی رحلت کی خبر بھی شائع کی ہو گی لیکن یہ کسی نے نہیں لکھا ہوگا کہ ان کے جانے سے ہر وہ اچھی روایت بھی تمام ہو گئی جس کے وہ خود ہی بانی تھے۔ ان کی خدمات کا ہم نے ان کو یہ صلہ دیا کہ انہی کی زندگی میں ان کا جوان بیٹا و پوتا چھین لیا۔ حکومت نے بعد از مرگ ڈاکٹر علی حیدر کے لیے تمغۂ امتیاز کا اعلان کیا لیکن ایسے تمغۂ امتیاز کا کیا فائدہ جب ڈاکٹر ظفر حیدر صدمے کی وجہ سے کسی بھی تمغے کے ملنے کی ہر خوشی سے بے خبر ہو چکے تھے۔ آخرکار جب پوری قوم آزادی کے 70ویں جشن کی تیاریوں میں مصروف تھی ڈاکٹر ظفر حیدر اپنے اصولوں اور صدموں کی 92 سالہ سزا سے رہائی پا گئے۔
مَیں نے ابھی اپنا کالم یہاں تک تمام کیا تھا کہ روزنامہ ایکسپریس کے نامور کالم نگار راؤ منظر حیات نے اپنی فیس بک پر جب ڈاکٹر ظفر حیدر کو درج ذیل عبارت لکھ کر خراجِ تحسین پیش کیا تو مجھے خوشی ہوئی کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی بجائے سوشل میڈیا اپنی ذمہ داری کسی حد تک پوری کر رہا ہے۔
Syed Zafar Haider, my professor of surgery in KEMC went to heavenly abode two days back. He was a splendid teacher, highly intelligent man and great surgeon. May his soul rest in peace.
راؤ منظر حیات کی اس پوسٹ پر 140 لائکس اور 124 کومنٹس آئے۔ کومنٹس کی تعداد دیکھ کر حوصلہ ہوا کہ آج بھی لوگ اپنے اساتذہ کے ساتھ یا اچھے ڈاکٹر کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ اصولی طور پر میرا یہ کالم یہیں پر تمام ہو رہا تھا لیکن 12 اگست کو فیس بک پر بیٹھے بیٹھے جب میرے سامنے ڈاکٹر ظفر حیدر کے اکلوتے بیٹے ڈاکٹر علی حیدر شہید کی بیوہ ڈاکٹر فاطمہ علی حیدر کا نوحہ آیا (جو انہوں نے اپنے شہید بیٹے مرتضیٰ کی سالگرہ پر تحریر کیا) تو اس کے بعد پھر مَیں نے سوچا کہ ڈاکٹر فاطمہ علی حیدر اس تحریر کو بھی اپنے ایکسپریس کے قارئین کے سامنے لاؤں گا کہ اتنی خوبصورت اور پُر اثر تحریر سے قارئین کیوں محروم ہوں۔ یاد رہے فاطمہ علی ان دنوں نشتر میڈیکل کالج کی طالبہ تھی تو ان کا شمار ریکارڈ ہولڈر طلبا و طالبات میں ہوتا تھا۔ فاطمہ کے والد دنیا کے نامور نیوروسرجن ڈاکٹر افتخار علی راجہ تھے جو چند برس پہلے ملتان سے لاہور جاتے ہوئے فوکر طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہو گئے۔ جبکہ ان کی والدہ محترمہ نجمہ افتخار راجہ بہت اچھی سفرنامہ نگار ہیں اور جن کے پہلے سفرنامے ’’میرے بھی سفرنامے‘‘ کا دیباچہ جناب مستنصر حسین تارڑ نے آج سے تقریباً 25 برس پہلے تحریر کیا تھا۔ نجمہ افتخار راجہ کے لیے اپنے محبوب شریکِ حیات کی جدائی ناقابلِ برداشت تھی اس کے بعد ان کو اپنے داماد اور نواسے کی موت کا صدمہ بھی سہنا پڑا۔ ایسے میں فاطمہ علی حیدر نے جو کچھ تحریر کیا وہ قلم کی بجائے آنسوؤں تحریر کیا ہوا لگتا ہے۔ ڈاکٹر فاطمہ علی حیدر نے یہ مضمون انگریزی میں تحریر کیا جسے نور درویش نے ترجمہ کر کے اپنی وال پر شیئر کیا۔
’’ہیپی برتھ ڈے مرتضیٰ جی!‘‘
پچھلے چار برسوں کے دوران مَیں نے بہت بار تمہاری تصویریں دیکھنے کی کوشش کی لیکن ایسا نہ کر سکی کیونکہ جب کبھی بھی آتے جاتے میرےسامنا اچانک تمہاری تصویر سے ہوا تو دل سے ایک ہی آواز آئی
میری زندگی کے وہ آخری دن
اس سال مَیں نے تمہاری تصویریں دیکھنے کی ہمت کر لی۔ چند نوجوان لوگوں کے گروپ کا بہت شکریہ جن سے مَیں اس برس ملی، ذیشان اور سلمان ان دونوں نے تمہارا بہت خوبصورت پینسل سکیچ بنایا ہے۔ اس سکیچ نے مجھے وہ کرنے کی طاقت دی جو مَیں پچھلے چار برس سے کرنے کی ہمت نہیں کر پا رہی تھی۔ مَیں تصویروں میں تمہاری معصوم اور چمکدار آنکھوں کا سامنا نہیں کر پا رہی تھی۔
میری زندگی وہیں رک گئی تھی جب تم دنیا سے چلے گئے تھے۔ اب مَیں تب تک دوبارہ نہ جیؤں کی جب تک مَیں ایک دن تم سے دوبارہ نہ مل لوں گی۔ جہاں تمہاری جدائی نے مجھے توڑ کے رکھ دیا وہیں میری حالت اس پرندے جیسی ہو گئی جو اپنا گھونسلہ اجڑ جانے پر بے چینی اور کرب کا شکار ہوتا ہے۔ تمہاری بہن کے لیے میرے پاس خاندان جیسی بنیادی ضرورت نہیں ہے۔ مَیں اس کے سوالات سن کر خاموش ہو جاتی ہوں۔ جب وہ مجھ سے پوچھتی ہے کہ اس کی فیملی اپنے دوستوں جیسی کیوں نہیں ہے؟ میرے پاس کوئی ایک بھی جواب ایسا نہیں جس سے مَیں اسے مطمئن کر سکوں۔
آج کا دن بہت سی وجوہات کی وجہ سے ایک جذباتی دن تھا بلکہ گزشتہ بہت سے دن ایسے ہی تھے۔ دراصل آج او لیول کے رزلٹ کا اعلان ہوا ہے۔ مَیں پورا دن تمہارے کلاس فیلوز کے بارے میں سوچتی رہی جو شدت سے اپنے رزلٹ کا انتظار کرتے رہے ہوں گے۔ پچھلے دنوں مَیں پوری کوشش کرتی رہی کہ اس بارے میں مَیں بالکل نہ سوچوں۔ اپنے آپ کو وہ حقیقت سمجھانے کی کوشش کرتی رہی جو مجھے تم اور تمہارے بابا کے بعد قبول کرنا تھی لیکن کیا کروں ذہن میں ’’آج تم ہوتے تو ایسا ہوتا‘‘ جیسے خیالات کا ایک سیلاب ہے جو روکے رک رہا۔ مامتا کو کون سمجھائے۔ آج مَیں سپر مارکیٹ گئی تھی جب مجھے پلاسٹک کے تین شاپنگ بیگز دیئے گئے تو مَیں نے ایک واپس کر دیا۔ ایسا کرتے ہوئے مجھے محسوس ہوا جیسے مَیں کہہ رہی ہوں ’’ہیپی برتھ ڈے مرتضیٰ جی‘‘ وہ دن یاد کرتے ہوئے جب تم سپر مارکیٹ چیزیں اٹھائے باہر آتے تھے۔ پلاسٹک کے شاپنگ بیگز لینے سے منع کر دیتے تھے اور مجھے وہ تمام سبق سناتے تھے جو تمہارے سائنس کے ٹیچر سر وحید دیا کرتے تھے۔ شاید یہی ایک تحفہ ہے جو مَیں تمہیں آج بھیج سکتی ہوں سپر مارکیٹ میں پلاسٹک کا ایک شاپنگ بیگ واپس دے کر۔ میری طرف سے مرتضیٰ کے تمام کلاس فیلوز کو بہت بہت مبارک جنہوں نے اپنا او لیول کا امتحان پاس کیا۔ مَیں اپنی اور مرتضیٰ کی طرف سے بہت سا پیار بھیج رہی ہوں ساتھ ساتھ یہ بھی سوچ رہی ہوں کہ ایسا ہی پیار مرتضیٰ بھی مجھے بھیجے گا۔(ختم شد)
فیس بک کمینٹ