25 اکتوبر پی ٹی وی ملتان میں اپنے ہفتہ وار پروگرام کی ریکارڈنگ کے بعد برادرم شفقت عباس ملک، خرم شجرا کے ہمرا چائے پی رہا تھا کہ پی ٹی وی کی سکرین پر ساحر لدھیانوی کی تصویر دکھائی دی۔ اس کے بعد ہی معلوم ہوا کہ آج ساحر کی 37ویں برسی ہے۔ مَیں ٹی وی پر ان کے بارے دستاویزی رپورٹ دیکھ رہا تھا اور ذہن میں ساحر کی موت سے پہلے آخری جملہ یاد کر رہا تھا جو انہوں نے اپنے ڈاکٹر کہور سے کہے: ”مَیں مرنا نہیں چاہتا چہرے پر ہزار چیچک کے داغ سہی زندگی خوبصورت ہے ڈاکٹر کہور! مَیں مرنا نہیں چاہتا۔“مجھے خیال آیاساحر نے اپنی اس خواہش کا اظہار ڈاکٹر کہور سے کیا جو اسے موت کے منہ میں جانے سے نہ روک سکا۔ البتہ ساحر کے چاہنے والوں نے اسے 25 اکتوبر 1980ءسے لے کر اب تک زندہ رکھا ہوا ہے۔ وہ ساحر جس کی تمام شاعری گائیکی کے ذریعے محفوظ ہو گئی اور وہی ساحر جس نے اپنے محبوب کے لیے کہا تھا:تجھے زمیں پہ بلایا گیا ہے میرے لیےوہ زمین پر اتری تو سہی لیکن اُس کی نہ ہو سکی۔ جی ساحر کی محبتوں کا سلسلہ ”مہندر چوہدری“ سے شروع ہوا لیکن اختتامِ محبت امرتا پریتم سے ہوا۔ مہندر چوہدری ان کا پہلا لمسِ محبت تھا جو اُن کی عزت کرتی تھی۔ لیکن ساحر نے اسے اپنے دل میں جگہ دے رکھی تھی۔ ایک دن اچانک مہندر چوہدری کا انتقال ہو جاتا ہے تو ساحر کہہ اٹھتا ہے:سرمگیں آنکھوں میں یوں حسرتیں لو دیتی ہیںجیسے ویران مزاروں پہ دیئے جلتے ہیںمہندر چوہدری کی موت کے بعد ساحر کے دل کا پڑاؤ ایک سکھ لڑکی ایشر کور کا چہرہ تھا۔ اَدھ کھلی آنکھوں والی، دبلی، پتلی، تیکھے نقوش کی حامل ایشر کور کو دیکھ کر کہا:رنگوں کی برکھا ہے خوشبو کا ساتھ ہےکس کو پتہ ہے اب دن ہے کہ رات ہےجب رات اور دن کا ہوش نہ رہے تو بات تو خوشبو کی طرح پھیل جاتی ہے۔ دونوں کی محبت کی داستانیں کالج میں عام ہوئیں تو ایک دن ایشر نے دکھی دل سے کہا: ”ساحر اب مَیں تم سے نہیں مل سکتی۔ تمہیں تو معلوم ہے اب بات بہت پھیل چکی ہے مَیں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ یہ سلسلہ اس قدر طول پکڑ لے گا۔ تمہیں تو پتہ ہے کہ لڑکی کی بدنامی بڑھ جائے تو اُس کے لیے جینا کس قدر مشکل ہو جاتا ہے۔ ہم دونوں کے لیے یہی اچھا ہے کہ ہم اب نہ ملیں اور ایک دوسرے کو بھول جائیں۔“ ایشر کور سے ترکِ تعلقات مشکل امر تھا لیکن ساحر نے کڑوا گھونٹ بھی بھر لیا۔ ایسے میں ساحر نے ایشر کے لیے کہا:تو مرے پاس نہ تھی پھر بھی سحر ہونے تکتیرا ہر سانس ترے جسم کو چھو کر گزراقطرہ قطرہ تر ے دیدار کی شبنم ٹپکیلمحہ لمحہ تری خوشبو سے معطر گزرا دو محبتوں میں ناکامی کے بعد ساحر اب اگلی محبت کی تلاش میں نکل پڑا۔ اگلا پڑاؤ لاہور ٹھہرا۔ یہ زمانہ وہ تھا جب لاہور علم و ادب کا مرکز بن چکا تھا۔ اُردو و پنجابی لکھنے والوں کے لیے یہ شہر کسی نعمت سے کم نہ تھا۔ انہی دنوں یعنی 1943ءمیں ساحر کا پہلا شعری مجموعہ ”تلخیاں“ شائع ہوا جس کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ لیکن اس کتاب کی اشاعت کے بعد ساحر کی مصروفیات میں ایک دم اضافہ ہو گیا لیکن ساحر کے دل و ذہن میں امرتا نے راج کرنا شروع کر دیا تھا۔ دوسری جانب امرتا بھی پیار کی پیامی بن کر اُس کے سامنے کھڑی تھی۔ اُسی گھڑی ساحر نے اپنی امرتا کے لیے کہا:کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہےکہ جیسے تجھ کو بنایا گیا ہے میرے لیےساحر اور امرتا کی جب ملاقات ہوئی تو ساحر کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ بہت شدت سے اُس کے چہرے، ہاتھوں اور انگلیوں پر غور کرتی۔ ساحر یہ بھی سوچتا تھا کہ میرے جانے کے بعد یقینا امرتا میرے تصور میں رہتی ہو گی۔ ساحر مسلسل سگریٹ نوشی میں مصروف رہتا تو امرتا صرف اس کو دیکھتی رہتی لیکن سگریٹ پینے میں اُس کا ساتھ نہ دیتی۔ البتہ ایک دن امرتا ساحر کو کہنے لگی: ”ساحر جب تم میرے گھر سے چلے جاتے ہو تو مَیں ایش ٹرے میں پڑے ٹکڑوں کو اٹھاتی ہوں، اپنی نگاہوں کو سہلاتی ہوئی اپنے ہونٹوں پر لے جاتی ہوں۔ بچے ہوئے سگریٹ کے کش لیتی ہوں۔ ساحر مَیں اس طریقے سے تمہارے سانس کی خوشبوؤ ں اور ہونٹوں کے لمس تک پہنچ جاتی ہوں“ اور پھر یوں ہوا کہ …….. ساحر کے بچے کھچے سگریٹ کے ٹکڑے پیتے پیتے امرتا خود بھی سگریٹ پینے لگی۔ لیکن اس نے کبھی یہ سگریٹ اپنے محبوب کے سامنے نہیں پیئے کہ وہ ساحر کے سامنے ایک ایسی محبوبہ رہنا چاہتی تھی جس میں ہر طرف ساحر کے رنگ ہوں۔ ساحر کی روشنی ہو۔ وہ ساحر کے ساتھ اپنے تعلق پر ناز کرتی تھی کہ ایک دن ساحر شدید بخار میں امرتا کے گھر پہنچ گیا۔ سانس لینے میں دقت ہو رہی تھی۔ امرتا نے اپنے ہاتھوں سے ساحر کی پیٹھ، گلے، چھاتی اور پیشانی پر بام لگایا۔ بقول ساحر آدھا درد تو اُس وقت تمام ہو گیا جب امرتا نے مجھے چھوا۔ اب ساحر اور امرتا کی ملاقاتوں میں اضافہ ہونے لگا۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے شاعری کرنے لگے۔ کچھ عرصہ بعد ساحر لاہور سے بمبئی چلا گیا۔ بمبئی جاتے ہی رابطہ کی صورت خط و کتابت ٹھہری۔ ایک دن امرتا کا ساحر کو یہ خط آیا۔ تو وہ نہال ہو گیا:”مرے محبوب! مَیں جب بھی کوئی نغمہ لکھتی ہوں مجھے محسوس ہوتا ہے مَیں تم کو خط لکھنے لگی ہوں۔ جب تم میرے بے لگام گیتوں کو پڑھو گے تو یہ نہ سوچنا کہ مَیں تمہیں خط لکھنا بھول گئی ہوں۔ لوک گیتوں کی گوری کبھی کوؤ ں کو قاصد بناتی ہے اور کبھی کبوتروں کے پیروں میں پیغام لپیٹ دیتی ہے۔ پرانے وقت اب گزر گئے جب کوئی برہن سر کے پراندے سے دھاگا توڑتی تھی اور کسی راہگیر کے پلو سے باندھ دیتی تھی۔ وہ لوگ خوش قسمت ہوتے ہیں جو کسی خط رسا کے قدموں کے سراغ لیتے ہیں مگر جب کسی کو خط ڈالنا ممکن نہ ہو تو اُس وقت صرف ہوائیں ہی رہ جاتی ہیں جن کے پلو میں کوئی پیغام باندھ دیں۔ کوئی ابر جیسے کالی دان کا نام بر گیا تھا۔ میرا ہر نغمہ ایک خط بن گیا ہے۔ مجھے یاد ہے جب مَیں نے پہلے پہل تمہیں خط لکھا تھا ایک بیگانہ گاؤ ں تھا اور مَیں سوچنے لگی تھی کہ گاؤ ں بیگانہ ہے۔ مگر تم تو بیگانے نہیں مجھے محسوس ہونے لگا جیسے مَیں ہر پل تمہارے سائے کے نیچے رہتی ہوں۔ کافی دن گزر گئے ایک دن مَیں نے کسی سے پوچھا اس کو اگر کوئی بلا لائے تو آ جائے گا؟ وہ ہنس پڑا۔ اگر تم بلاؤ تو وہ سارے کام چھوڑ کر آ جائے گا۔ ایک دن میرے گھر کی دہلیز کو تمہارے قدموں نے چھوا۔ مَیں نے تمہاری آواز سنی تو مجھے محسوس ہوا جس ہوا مَیں تمہاری سانس ملی ہے اس میں اک مہک آنے لگی ہے۔ ایک دن تم آئے تمہارے ہاتھ میں کاغذ تھا۔ مَیں نے کہا پڑھ کر سناؤّ گے اور تم نے اپنا نغمہ پڑھ کر سنایا۔ مجھے محسوس ہوا کہ تمہاری آواز جیسی مَیں نے کبھی آواز نہیں سنی۔ تمہارے نغمے جیسا مَیں نے نغمہ نہیں سنا۔“ ساحر اور امرتا میں کبھی شاعری کے ذریعے تو کبھی مختلف حوالوں سے تعلق برقرار رہا۔ امرتا کے گھر میں ہر وقت ساحر کا تذکرہ رہتا تو ایک دن اس نے پوچھا: ”مما ایک بات پوچھوں سچ سچ بتانا ہو گا۔“ ”کیوں نہیں بیٹا مَیں سچ جواب دوں گی۔“ ”کیا مَیں انکل ساحر کا بیٹا ہوں؟ پر اگر ہوں تو بتا دو۔ مجھے ساحر انکل اچھے لگتے ہیں۔“ (جاری ہے)
( بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس )
فیس بک کمینٹ