مجھے معلوم ہے یہ کالم بہت زیادہ پڑھا جائے گا اور شوکت خانم کی انتظامیہ تک بھی ضرور پہنچے گا. مجھے امید ہے کہ اس کینسر ہسپتال کی انتظامیہ جو سرطان کی الف ب بھی نہیں جانتی، یہ کالم پڑھنے کے بعد اپنے عہدوں سے دستبردار ہو کر ہسپتال کا انتظام اہل اور قابل لوگوں کے حوالے کر دے گی۔
ہمارے ملک اور تمام غریب ممالک میں سرطان کے علاج میں حائل سب سے بڑا مسئلہ اس کی تشخیص میں تاخیر ہے۔ ہمارے ملک میں طب کے معالج مسیحا نہیں بلکہ ایک بہت بڑا مافیا ہیں ۔ان کا مقصد لوگوں کا علاج کرنا نہیں بلکہ ان سے مال بٹورنا یعنی صحت کا کاروبار کرنا اور منافع کمانا ہے. یہ اس معاشرے کا اخلاقی طور پر پست ترین، بےحس اور ظالم طبقہ ہے۔
بدقسمتی سے سرطان کی علامات عام امراض کی علامات جیسی ہی ہوتی ہیں. مثال کے طور پر بخار، نقاہت، خون کی کمی، گلٹیاں بننا، یرقان اور پیٹ پھولنا وغیرہ۔ عام طبیب ان علامات کی بنیاد پر مریض کے ساتھ کھیلتا ہے۔ مریض کو افاقہ نہیں ہوتا تو وہ اپنا طبیب بدل لیتا ہے۔ نیا طبیب بھی اس کو اپنی ”من پسند“ کمپنیوں کی دواؤں اور غیرضروری ٹیسٹوں کے ذریعے لوٹتا ہے۔کوئی اس کی بیماری کو یرقان، کوئی ملیریا، کوئی ٹائیفائیڈ بخار اور کوئی تپدق قرار دے دیتا ہے۔ آخرکار جب مریض قریب المرگ ہو جاتا ہے اور علاقے کا ہر ڈاکٹر اس پر اپنا ہاتھ صاف کر چکا ہوتا ہے، اسے کسی ٹرشری کیر یا بڑے ہسپتال میں بھیج دیا جاتا ہے. ان بڑے ہسپتالوں میں بھی ان کی تشخیص آسان نہیں ہوتی کیونکہ یہاں کے ماہر سی پی ایس پی مافیا کے ڈاکٹر ان کو دیکھنا تک گوارا نہیں کرتے۔ اگر خوش قسمتی سے کوئی ان کے سرطان کی تشخیص کر لے تو انہیں شوکت خانم ہسپتال یا کسی دوسرے ہسپتال کی راہ دکھا دی جاتی ہے۔
شوکت خانم ہسپتال کو پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے پاکستانی سرطان کے علاج کا سب سے بڑا مرکز تصور کرتے ہیں ۔حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے ۔اس ہسپتال میں علاج کی غرض سے آنے والے لوگوں میں پنجاب کے علاوہ کے پی کے، قبائلی علاقہ جات (فاٹا)، بلوچستان اور افغانستان کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ یہ سرطان زدہ لوگ اس امید پر اس ہسپتال کے واک ان کلینک میں پہنچتے ہیں کہ خدا کے بعد اگر انہیں کوئی نئی زندگی دے سکتا ہے تو وہ عمران خان کا کینسر ہسپتال ہے ۔یہ تاثر قائم ہونے کی وجہ اس ہسپتال کی کارکردگی نہیں بلکہ اس کی مارکیٹنگ ہے۔ یہ ایک نجی سرمایہ دار مافیا کے زیر نگرانی چلنے والا ہسپتال ہے، جس کا مقصد منافع کمانا اور فنڈز حاصل کرنا ہے۔ پورے پاکستان میں جتنے فنڈز پاکستان اور دنیا بھر سے اس ہسپتال کو ملتے ہیں شاید ہی کسی اور کو ملتے ہوں ۔
شوکت خانم ہسپتال کا واک ان کلینک سرطان کے مریضوں سے بھرا رہتا ہے۔ واک ان کلینک میں ان مریضوں کو علاج کے لیے قبول کرنے کا ایک معیار مقرر ہوتا ہے۔ یہ معیار ہر تین ماہ بعد انتظامیہ اور ان کے ماتحت کٹھ پتلی ماہرین سرطان کی ایک میٹنگ میں تبدیل ہوتا رہتا ہے ۔اس معیار کے مطابق صرف ان مریضوں کو قبول کیا جاتا ہے جو سرطان کے ابتدائی مرحلے یا اسٹیج میں ہوتے ہیں، وہ سرطان جن کا علاج بآسانی کیا جا سکتا ہے اور جن کے علاج کے لیے اس وقت معالج یا جراح ہسپتال میں موجود ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہسپتال میں دماغ کا جراح موجود نہ ہو تو ظاہر ہے کہ اس کا علاج نہیں ہو سکتا تو اس کو قبول کرنا چہ معنی دارد؟ دوردراز سے آنے والے بہت کم مریضوں کو اس قرعہ اندازی کے ذریعے ہسپتال میں داخل کیا جاتا ہے اور اکثریت مایوس ہی لوٹتی ہے۔
شوکت خانم ہسپتال کے واک ان کلینک میں ناتجربہ کار اور کینسر کی تشخیص اور علاج سے نابلد لوگ بٹھائے جاتے ہیں۔ روزانہ ایک بڑی تعداد میں آئے ہوئے مریضوں کے ساتھ معاملات طے کرنا ان ڈاکٹروں کے لیے بےحد مشکل ہوتا ہے اور اکثروبیشتر یہ انتہائی فاش غلطیوں کے مرتکب ہو جاتے ہیں ۔یہ غلطیاں پڑھے لکھے لوگوں کی سمجھ میں آ جاتی ہیں اور وہ ہسپتال میں کسی ماہر سرطان سے مشورہ کر کے انہیں درست کر دیتے ہیں۔ لیکن اکثریت چونکہ نچلے طبقے سے تعلق رکھتی ہے اور تعلیم یافتہ نہیں ہوتی،اس لیے کوئی سوال کیے بغیر ہی پلٹ جاتی ہے۔
شوکت خانم سے انکار کا مطلب اکثریت یہی لیتی ہے کہ ان کا مرض قابل علاج نہیں ہے اور ان میں بہت سے پڑھے لکھے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ بھی شوکت خانم ہسپتال کی مارکیٹنگ ہے جو اشتہارات کے ذریعے عوام الناس کے اذہان میں یہ بات نقش کر دیتی ہے کہ شوکت خانم سے باہر ان کا علاج ناممکن ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ شوکت ہسپتال میں دوران ملازمت مجھے میری والدہ کا فون آیا کہ ان کی ایک دوست کے شوہر کو ہمارے ہسپتال نے جواب دے دیا ہے اور وہ بہت پریشان ہیں۔ میں اس ناامید اور غمزدہ خاندان سے ملا تو مجھے معلوم ہوا کہ ان کا سرطان قابل علاج تھا۔ وہ بہت پڑھا لکھا اور امیر خاندان تھا لیکن انہیں کوئی تفصیل بتائے بغیر واک ان کلینک سے دھتکار دیا گیا۔ میں نے انہیں آغاخان ہسپتال جانے کا مشورہ دیا جہاں ان کی سرجری ہوئی اور وہ بالکل صحتیاب ہو گئے۔ اس میں واک ان کلینک میں موجود عملے کا قصور نہیں ہوتا بلکہ یہ سب کچھ ان پر حد سے زیادہ مریضوں کے دباؤ اور ان کی سرطان کے علاج سے عدم واقفیت کی وجہ سے ہوتا ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کے پاس انکار کرنے کے علاوہ کچھ کہنے یا مریضوں سے بات چیت کرنے کا وقت ہی نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ شوکت خانم ہسپتال سے باہر کسی اور سرطان کے مرکز میں مریض بھیجنے یا ریفر کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔
حکومت کے اکثر ہسپتالوں میں سرطان کے علاج کی سہولیات ناکافی ہیں لیکن کچھ نجی اور سرکاری ہسپتال ایسے ہیں جن میں شوکت خانم ہسپتال کے معیار کے برابر بلکہ اس سے بھی بہتر علاج موجود ہے۔ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ سرطان کے مریضوں کو ان ہسپتالوں کے بارے میں آگہی دی جائے۔ پاکستان کے بڑے سرطان کے مراکز میں آغا خان ہسپتال سرفہرست ہے لیکن یہ چونکہ ایک نجی ہسپتال ہے اس لیے ایک غریب مریض معاشی وجوہات کی بنا پر عام طور پر یہاں علاج کروانے کے قابل نہیں ہوتا۔ انڈس ہسپتال میں صرف سرطان کے مریض بچوں کا علاج کیا جاتا ہے اور بالغ مریضوں کو یہاں علاج کی سہولت میسر نہیں ہے۔سی ایم ایچ راولپنڈی میں سرطان کے بچوں اور بڑوں دونوں کا علاج ممکن ہے لیکن وہاں افغانوں کا علاج نہیں کیا جاتا۔ لاہور میں انمول، ملتان میں مینار، کراچی میں کرن اور کوئٹہ میں سینار بھی کینسر یا سرطان کے علاج کے مراکز ہیں۔ ان کے علاوہ بھی پورے ملک میں کچھ چھوٹے بڑے مراکز ان امراض کی تشخیص اور علاج کے لیے موجود ہیں. ہڈی کے گودے کی تبدیلی کے مراکز میں آغاخان ہسپتال کراچی، این آئی بی ڈی کراچی، سی ایم راولپنڈی اور چلڈرن ہسپتال لاہور شامل ہیں۔
انڈس ہسپتال اس وقت پورے ملک میں بچوں کے سرطان کے علاج کے لیے کام کر رہا ہے۔ کراچی کے علاوہ اندرون سندھ میں بدین اور نواب شاہ اور پنجاب میں بہاولپور، ملتان، فیصل آباد، لاہور اور راولپنڈی میں انڈس ہسپتال اور ہیلتھ نیٹ ورک بچوں کے سرطان کے علاج، شعبہ صحت کے ڈاکٹروں اور نرسوں کی تعلیم اور عوام الناس میں اس کی آگہی کے لیے کام کر رہا ہے جو قابل تحسین ہے۔ کوئٹہ میں بلوچستان کا پہلا بچوں کے سرطان کا مرکز بھی حال ہی میں انڈس ہسپتال کی زیر گرانی قائم کیا گیا ہے.
عوام الناس سے میری اپیل ہے کہ وہ سرطان کے نام پر لوٹ مار کرنے اور لوگوں کو گمراہ کرنے والے مافیا سے ہوشیار رہیں، سرطان کی جلد اور بروقت تشخیص کے لیے خود معلومات حاصل کریں اور مناسب جگہ سے اس کا علاج کروائیں.
0 comments
فیس بک کمینٹ