( گزشتہ سے پیوستہ )
رات کے کھانے پر سیما کا دل چاہا کہ وہ ارشد کو اپنی مکمل کی ہوئی پینٹنگ دکھائے اور اسے بارش میں پھنس جانے کی روداد سنائے مگر واقعے میں گاڑی بان کی مدد کے تذکرہ کے باعث وہ خاموش رہی، ارشد کو اس کے معمولات سے کوئی غرض نہ تھی۔ ارشد بلا کا شکی تھا۔ یوں تو سیما بے حد بولڈ تھی مگر نجانے کیوں گاڑی بان کے حوالے سے وہ کوئی ایسا جذبہ محسوس کر رہی تھی جس کا تذکرہ ارشد سے نہیں کرنا چاہ رہی تھی۔
اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ گاڑی بان سے وہ اس کا نام بھی نہ پوچھ سکی وگرنہ کبھی اس کا شکریہ ادا کر دیتی۔ وہ رات دیر تک سوچتی رہی کہ وہ کس قدر خاموش طبع تھا۔ کاش وہ اس کی آواز سن سکتی، کاش وہ گاڑی بان نہ ہوتا کوئی پڑھا لکھا انسان ہوتا اور اسی سوچ میں نجانے رات کے کونسے پہر اسے نیند آ گئی۔
ارشد اور سیما میاں بیوی تھے مگر صرف دنیا کی نظروں میں۔ سیٹھ ایوب نے ارشد کے ساتھ شادی میں سیما سے مشاورت نہ کی تھی۔ سیما نے رسماً ہاں کر دی تھی۔ نجانے والد کی خواہش کا خیال تھا یا یہ امید کہ شادی کے بعد شاید ان میں یگانگت پیدا ہو جائے اور بظاہر سردمہر انسان ایک اچھا شوہر ثابت ہو جائے۔ شادی کے فوراً بعد سیٹھ ایوب نے ارشد کو ایک کاروباری دورے پر چھ ماہ کے لیے یورپ بھیج دیا اور ارشد کو قطعی اس کا رنج نہ تھا۔ خاندان میں ارشد کی حیثیت ایک اہم بزنس منیجر کی تھی اور شاید اسی لیے اس نے خود کو کبھی ایک کامیاب شوہر بنانے کی کوشش نہ کی۔ اگرچہ سیما بھی اس شادی سے قبل کسی اور کو پسند نہ کرتی تھی اور شادی میں اس کی رضا بھی شامل تھی۔ مگر شادی کے بعد اسے شدت سے اس بات کا احساس ہوا کہ جذبات کے اظہار کے معاملے میں ارشد بےحد سرد مہر ہے۔
سیما خود محبت کے جذبے سے ناآشنا تھی۔ اسے آج تک کسی سے محبت نہ ہوئی تھی اور وہ کوشش کے باوجود ارشد سے محبت پیدا نہ کر سکی۔ وہ سیما کی عزت تو بہت کرتا تھا مگر اس طرح جیسے محض وہ اس کے باس کی بیٹی ہو۔ رفتہ رفتہ وہ عزت کا جذبہ بھی کم ہو گیا اور روز روز کی جھک جھک کے بعد بالآخر دونوں میں یہ خاموش معاہدہ طے پا گیا کہ وہ میاں بیوی تو رہیں گے مگر دنیا کے دکھاوے کی خاطر۔ سیما کی خواہش تھی کہ ارشد اسے آزاد کر دے اور وہ ارشد سے اس کا مطالبہ بھی کر چکی تھی مگر وہ سیٹھ ایوب کے دبدبے اور خوف کے باعث یہ قدم نہ اٹھا سکتا تھا اور خود سیما اپنے باپ کی ناراضی کے خوف سے خلع جیسے انتہائی قدم کا تصور بھی نہ کر سکتی تھی۔ ارشد اپنے کام میں مگن تھا اور کاروبار میں ترقی اس کی بہت بڑی کامیابی تھی۔ مگر سیما کی زندگی انتہائی تلخ ہو گئی تھی۔ وہ خود کو ایک صحرا میں پھینکی ہوئی مچھلی کی طرح محسوس کرتی تھی جس کے نصیب میں پانی نہ ہو بلکہ پانی کا تصور بھی ناممکن ہو۔ سیما نے اپنے جذبات کا اظہار مصوری کی صورت میں کرنا شروع کر دیا۔ مجبور اور بے بس چہرے، زنجیروں میں جکڑی ہوئی خواہشیں اور سلے ہونٹوں والی عورتیں۔ سیما کی تصاویر کی کئی بار نمائش ہو چکی تھی اور اب وہ ایک نامور مصورہ کے طور پر پہچانی جاتی تھی۔
بارش کے روز مکمل کی جانے والی لینڈ سکیپ ابھی تک سیما کے وارڈروب میں رکھی تھی۔ اس کے بعد اس نے بہت سی تصاویر بنائیں، آئل پینٹنگز، واٹر پینٹنگز، سکیچ، پورٹریٹ اور لینڈ سکیپ مگر یہ کینوس والی لینڈ سکیپ نجانے کیوں سیما نے رول کر کے اپنی وارڈروب میں رکھی ہوئی تھی۔ کبھی کبھار جب سرمئی گھٹائیں چھا جاتیں اور چھاجوں بارش برسنے لگتی تو سیما تنہائی میں وہ تصویر نکالتی اور گھنٹوں اسے دیکھتی رہتی۔ ایسا منظر تھا جو اسے دوبارہ دیکھنے کو نہ ملا تھا۔ کبھی کبھار پانی کی لہروں پر جہاں بارش کی پہلی بوند گری تھی وہ دھیرے دھیرے شہادت کی انگلی پھیرتی جیسے اب بھی وہ اس کی نمی کو محسوس کر رہی ہو۔
سیما اور ارشد کی شادی کو دس برس بیت گئے تھے مگر وہ اولاد کی نعمت سے محروم تھے دونوں نے اپنی اپنی زندگی مصروفیات میں یوں ڈھال لی تھی کہ انہیں اپنی ذاتی محرومیاں بھی بھول گئی تھیں۔ سیما کو کبھی کبھی دو سال قبل سرِ راہ ملنے والا وہ گاڑی بان یاد آ جاتا تھا جس کی نہ تو اس نے آواز سنی تھی اور نہ نام پتہ معلوم کیا تھا …….. مگر اس لینڈ سکیپ سے جو اس کی وارڈروب میں رکھی ہوئی تھی اس گاڑی بان کا گہرا تعلق تھا۔
ایک روز سیٹھ ایوب سیما کے کمرے میں آئے سیٹھ ایوب نے یونیورسٹی کے سپورٹس کمپلیکس میں بھاری رقم کا چندہ دیا تھا اور ان کے صنعتی گروپ کے نمائندے کو بطور مہمانِ خصوصی مدعو کیا گیا تھا۔ عام حالات میں تو خود سیٹھ ایوب ایسی تقریبات میں شرکت کیا کرتے تھے مگر آج ان کی طبیعت ناساز تھی۔ ان کی غیر موجودگی میں یہ فرض ارشد کو سونپا جاتا تھا مگر اس روز ارشد بھی شہر سے باہر گیا ہوا تھا۔ لہٰذا قرعہ فال سیٹھ ایوب کی اکلوتی اولاد سیما کے نام نکلا۔ سیما کو بادلِ نخواستہ یہ ذمہ داری نبھانا پڑی۔ تقریبات سے وہ ویسے ہی دور بھاگتی تھی مگر مجبوراً اسے شرکت کے لیے جانا پڑا۔
سپورٹس کمپلیکس کے گیٹ پر ادارے کے ڈائریکٹر احسن چوہدری نے سیما کا استقبال کیا اور اسے اپنے ہمراہ سٹیج پر لے گئے۔ احسن چوہدری مضبوط قد و کاٹھ کے نہایت وجیہہ شخص تھے۔ ان کا چہرہ سیما کو شناسا سا لگا۔ تقریب کے دوران ان کا تعارف باکسنگ کے معروف کوچ کے طور پر کرایا گیا تو سیما کو شک ہونے لگا کہ کہیں یہ وہی گاڑی بان تو نہیں جس نے اس روز بارش میں اس کی مدد کی تھی مگر اس خیال کو اس نے رَد کر دیا کہ وہ شخص تو بالکل اَن پڑھ اور دیہاتی لگتا تھا۔ بھلا صرف دو سال کے بعد وہ اتنے بڑے عہدے پر کیسے فائز ہو گیا؟ بارش میں بھیگے ہوئے گاڑی بان کی مماثلت احسن چوہدری سے تھی تو ضرور مگر سیما یقین سے کچھ نہ کہہ سکتی تھی۔ سیما کو قطعی علم نہیں تھا کہ اس روز تقریب میں کیا ہوا۔ تقاریر، سپاسنامہ اور تقسیم انعامات وہ اپنے ہی خیالات میں کھوئی رہی اور احسن چوہدری کا گاڑی بان سے موازنہ کرتی رہی۔ تقریب کے آخر میں مہمانِ خصوصی کو سٹیج سے نیچے آنے کی دعوت دی گئی۔ سیما کو سپورٹس کمپلیکس کے ڈائریکٹر احسن چوہدری نے شیلڈ دینا تھی، وہ احتراماً اٹھے اور سیما سے سٹیج سے اترنے کی درخواست کی۔ سیما ان کے ساتھ سٹیج کے کنارے تک آ گئی۔ احسن چوہدری تو چھلانگ لگا کر سٹیج سے نیچے اتر گئے مگر سیما کے لیے سٹیج کافی بلند تھا لہٰذا وہ کنارے پر ہی رک گئی۔ منتظمین کسی چیز کی تلاش میں اِدھر ادھر دیکھنے لگے تاکہ سیما آسانی کے ساتھ سٹیج سے نیچے اتر آئے دفعتاً احسن چوہدری نے گٹھنا اوپر اٹھایا اور سیما کے لیے پاؤ ں کا زینہ سا بنا دیا۔ مہمان خصوصی کے لیے یہ حرکت ناروا سی لگ رہی تھی، مجمع دم بخود تھا۔ سب نے دیکھا سیما نے احسن چوہدری کے پاؤ ں کے اوپر اپنا پاؤ ں رکھا اور سٹیج سے نیچے اتر گئی۔ تمام شرکائے محفل نے اس جزوقتی انتظام پر خوب تالیاں بجائیں۔ منتظمین اس جسارت پر سناٹے میں آ گئے۔ مگر فی الواقع ناراضی کا اظہار کر سکنے والی سیما بے اختیار مسکرا اٹھی۔ اس کا رواں رواں خوشی سے رقصاں تھا۔ سیما تقریب سے اس روز بہت خوش گھر واپس آئی تھی۔
سیما نے اس شام وارڈروب میں دو سال سے رکھی ہوئی لینڈ سکیپ نکالی اور ملازم کو ہدایت کی کہ اس کا خوبصورت سا فریم لگوا دے۔ سنہرے رنگ والا۔ یہ لینڈ سکیپ اسے گاڑی بان کو تحفتاً دینا تھی جس کا ملنا اس کی زندگی میں بارش کی پہلی بوند ثابت ہوا تھا۔ محبت کی وہ پہلی بوند جس کے بعد موسلادھار بارش شروع ہو جاتی ہے۔
فیس بک کمینٹ