مقام شکر ہے کہ خوشیوں کو ترسی ہوئی قوم کو عید سے پہلے ایک بڑی خوشی ملی۔اُس دن ہرپاکستانی کے چہرے پر خوشی تھی۔غربت اور محرومیوں کے ستائے ہوئے لوگ بھی تھوڑی دیر کے لیے اپنے تمام دکھ درد بھول بیٹھے۔ جوں ہی ٹیم میں نیا خون اور تازہ ولولہ شامل ہوا حیرت انگیز کامیابیوں نے قدم چومے۔ اکمل برادران ، بوم بوم،اور دیگر طویل القامت اور طویل المدت ذخیرے سے قومی کرکٹ کی گردن کا بوجھ ہلکا ہوا ،اس نے نہایت سبک قدمی سے کامیابی کی منزل کو جا لیا۔ بہت سارے لوگ نجم سیٹھی کے خلاف اپنے ترکش کندھے سے اُتارنے کو ابھی تک تیار نہیں ہو رہے۔حالانکہ پی سی ایل کے بطن سے جنم لینے والی اس کامیابی کے وہ بھی قائل ہیں۔ اور پی سی ایل بحرحال نجم سیٹھی کی ہی کارکردگی کا ثمر ہے۔ چیلیانوالے چودھری صاحب اور جناب اعجاز بٹ کے مقابلے میں نجم سیٹھی نے بہت محنت سے کام کیا ہے ، اس کا کریڈٹ انہیں ضرور ملنا چاہیے۔ لندن میں جشن فتح کے موقع پر نجم سیٹھی اور اُن کی اہلیہ جگنو محسن کی توہین کرنے والوں نے بہت بزدلی اور بے شرمی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس کی مذمت کی جانی چاہیے۔ اگر آپ کو کسی کے سیاسی نقطہ نظر سے اختلاف ہے ، جیسا کہ مجھے بھی ہے، تو کیا اس کا جواب اس طرح دیا جانا چاہیے؟۔ کھیل کے میدان میں اس عظیم کامیابی کا مزہ اس وقت کرکرا ہوا جب دونوں اطراف سے بے ہودگی ، بے شرمی،بدتمیزی اور توہین آمیزی کے مظاہرے دیکھنے کو ملے۔ بلاخوف تردید کہہ رہا ہوں کہ بھارت نے ہمیشہ اپنی ناکامی کو مہذب طریقے سے کبھی بھی برداشت نہیں کیا۔ بھارت میں بے شک جمہوریت کی بساط کبھی نہیں لپیٹی گئی لیکن ابھی تک وہ لوگ جمہوری رویوں سے کوسوں دُور ہیں۔ اور رہا ہمارا معاملہ تو ہمیں شروع دن سے ہی نفرت و عداوت کا سبق پڑھایا گیا۔ اب نفرت کے نصاب پڑھ کر محبتوں کی کتاب کون لکھے؟۔دونوں اطراف کی گزشتہ تین نسلوں نے اپنی آنے والی نسلوں کی نسوں میں نفرت کا زہر گھولاہے۔ اب یہ زہر پورے پورے معاشروں کے وجود میں پھیل کر آگے بڑھنے سے روک رہا ہے۔
ہمیشہ تازہ ولولہ اور جوان خون ہی آگے بڑھنے کا ضامن ہوتا ہے۔ کاش یہ تجربہ ہماری قومی سیاست میں بھی آزمایا جاتا تو آج ہمارا یہ حال نہ ہوتا۔ہم دس دس بیس بیس اور تیس تیس سال ایک ہی چکر میں گھومتے گزار دیتے ہیں ۔ مثلاً آج کا حکمران خاندان گزشتہ تیس سال سے زائد عرصے سے ایک آمرائی وقفے کے ساتھ حکومت میں ہے۔ کبھی ہم نے سوچا ہے کہ اس خاندان نے پاکستان کو دیا کتنا ہے اور وصول کتنا کیا ہے؟آج ہمارے سروں پر جتنی بھی بے فیض سیاسی اشرافیہ مسلط ہے اس کا نوے فی صد حصہ براہ راست جمہوریت کی پیداوار ہے ہی نہیں۔ جمہوریت کی پیداوار ہوتی کہاں سے؟ جمہوری کلچر کے کھیت میں تو چار آمروں اور ان کی پیداکردہ سیاسی لیڈر شپ نے کبھی ہل چلنے ہی نہیں دیا، اسے ہمیشہ بنجر رکھا کبھی آباد ہونے ہی نہیں دیا۔ جس نوے فیصد طبقے کی بات میں کر رہا ہوں ، کبھی اس اشرافیہ کی جڑوں پر تو دھیان دیجیے۔ ان کے بیج ایوب آمریت کے بی ڈی نظام میںبوے گئے۔ انگریز دور کے تمام مرعات یافتہ لوگ، نمبردار ، ذیلدار ، تعلقہ داراور سفید پوش اس نظام کے تحت غیرجمہوری قوتوں کی سرپرستی میں پھلے پھولے۔ان بی ڈی ممبروں میں سے کتنے تھے جو اپنی سیاسی جدوجہد سے ممبر بنے تھے؟۔ اس کے بعد اس طبقے نے جنرل ضیا کے غیرجماعتی انتخابات میں اپنے قدم مضبوط کیے۔ریاست کی طرف سے ملنے والے کروڑوں کے” ترقیاتی “ فنڈ نے اس طبقے کے مالی حالات کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا۔ جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ غیر جماعتی انتخابات میں منتخب ہونے اور کروڑوں کے فنڈ ملنے سے پہلے ان کے مالی و کاروباری حالات کیا تھے؟ بھٹو بے شک آمریت کی پیداوار تھے لیکن انہوں نے دس بیس فی صد لوگ نچلے متوسط طبقات سے ضرور متعارف کروائے جنہوں نے سیاست کو پہلی مرتبہ عوامی رنگ دیا۔ لیکن بدقسمتی سے یہ سلسلہ آگے چل نہ سکا ،بھٹو کی شہادت کے بعد وہی لوگ اُن کی پارٹی پر قابض ہوئے جن کے پنجوں سے عوام کی گردن چھڑانے کا انہوں نے وعدہ کیا تھا۔ بے نظیر کے دور میں اس عوامی طبقے کو بتدریج پارٹی سے باہر پھینکا گیا، جو کسی کونے کھدرے میں بچ گیا تھا اس سے مکمل گلوخلاصی جناب زرداری کا کارنامہ ہے۔ شریف خاندان جنرل ضیا کے سیاہ دور میں سیاسی افق پر نمودار ہوا۔کیا کسی سیاسی جدوجہد کی بنا پر؟میاں شریف اکلوتے نہیں تھے پانچ چھ بھائی اور بھی تھے۔ اُنہیں اور اُنکی دولت کو کتنے لوگ جانتے ہیں؟۔لیکن میاں شریف کی اولاد نے جوں ہی سیاست میں قدم رکھا ان کی صنعت وحرفت اور دولت نے مکئی کی فصل کی طرح بڑھنا شروع کیا۔ دو سے چار اور چار سے چالیس فیکٹریاں کھڑی ہونے میں کتنی نسلوں نے پاپڑ بیلے ؟کیا سیاست و اقتدار کے بغیر اتنی ہوشربا ترقی ممکن تھی؟۔ اس کے بدلے میں انہوں نے پاکستان کو کیا دیا؟۔ سوائے بڑے بڑے قرضے لے کر سیمنٹ اور سریے کے پہاڑ کھڑے کرنے کے۔ کونسا ایسا جمہوری ادارہ ہے جو ان کے دور میں مضبوط ہوا ہے؟ تھانہ کچہری کے ظالمانہ نظام سے تو یہ عوام کی جان چھڑا نہیںسکے۔صحت و تعلیم کے اداروں کومکمل تباہ کرکے رکھ دیا گیا انہوں نے۔کتنے لوگ نچلے متوسط طبقوں سے انہوں نے متعارف کروائے ہیں سیاست میں ؟۔روزگار کے کتنے مواقع پیدا کیے ہیں انہوں نے؟۔قانون کی حکمرانی کا یہ عالم ہے کہ اب شہری باہر نکلنے سے گھبراتے ہیں اور چور ڈاکو کھلے عام گھومتے ہیں۔کسان جوروزی روٹی کا ضامن طبقہ ہوتا ہے بے رحم آمر بھی جن کا کچھ نہ کچھ خیال رکھتے ہیں۔دنیا کی پہلی جمہوری حکومت ہے یہ جس نے انہیں ایک دو بار نہیں متعدد بار سڑکوں پر گھسیٹا۔بوڑھے کسانوں کے سروں پر ڈنڈے مار مار کر اُن کی میلی پگڑیوں کو خون آلود کیا۔ پھر بھی ہمارے بہت سارے دانشور ہیں جو چیخ چیخ کر قوم کو یہ باور کروا رہے ہیں کہ اس حکومت کو کوئی گزند پہنچی تو جمہوریت نہیں بچ پائے گی۔حضور جمہوریت خاندانوں کے نہیں جمہور کے مضبوط ہونے سے مضبوط ہوتی ہے۔ اور جمہور کی کل آبادی کا تیسرا حصہ غربت کی لکیر کے نیچے بلبلا رہا ہے۔ اور اس تیسرے حصے میں سے ستر فی صد وہ لوگ ہیں جو موجودہ حکمرانوں کے زیر سایہ اس حال کو پہنچے ہیں۔حکمرانوں کے قصیدے لکھنے سے پہلے کبھی ان کے بے سامان اندھیرے گھروں میں جھانک کر تو دیکھیں ذرا، شائد کہ آپ کا ضمیر آپ کو جھنجھوڑے ۔
فیس بک کمینٹ